پانچ کروڑ ہی کیوں، پانچ ارب کیوں نہیں اور یہ کہ روئے زمین پر موجود ہر انسان تاجدار مدینہ راحت قلب و سینہ امام الانبیا محمدﷺ پر درود پٹرھنے والا بن جائے یہ ٹارگٹ کیوں نہیں اور محبت کا اظہار گنتی میں کیوں محدود کیوں ایک خاص وقت میں ہی کیوں۔لامتناہی و لامحدود کیوں نہیں زماں و مکاں کی قید سے آزاد کیوں نہیں۔ زبانی اظہار ہی کیوں ایک ایک عمل سے کیوں نہیں۔قوی اُمید ھے کہ پانچ کروڑدفعہ درود شریف پڑھاجاچکا ھو گاجن دوستوں نے اس نیک کام میں حصہ لیااُنکو دلی مبارک باد قبول ھو کیونکہ انہوں نے آپﷺسے اپنی محبت کا عظیم ثبوت دے دیا اور اب اگلے سال تک سرکاردوعالم ﷺ کو انتظار کرنا پڑے گا کہ کب ربیع الاول آئے گا اور کب میری اُمّت کے موسمی و زبانی کلامی عاشق مجھ پر درود بھیجنے کی جدیدالیکٹرونک مہم چلائیں گے اور مجھ سے اپنی شدید واخیر محبت کا اظہار کریں گے ۔
اقبالؒ نے فرمایا تھا۔
مسجد تو بنا دی شب بھر میں ایماں کی حرارت والوں نے
من اپنا پرانا پاپی ہے برسوں میں نمازی بن نہ سکا
اقبالؒ اگر آج ہوتے تو شاید یہ شعر ایسے ھوتا کہ۔
کروڑوں درود تو پڑھ بھیجاچنددن میں عشاق نبیﷺ نے
اک میں ھوں کتنا نکما اُمتی چہرہ تک نبیﷺ سا بنا نہ سکا
خیر سب نے ایک ایک دفعہ درود شریف پڑھااوراسکا اجر مہم شروع کرنے والے کو مل گیا ھوگا اور بس کام ختم ۔ اگر یہی لوگ درود پڑھ کر صرف ایک بھی سنت عمر بھر کے لیے اپنا لیتے تو مہم شروع کرنے والے کے لیے تو صدقہ جاریہ بنتا ہی مگر ساتھ ساتھ پانچ کروڑ لوگوں کے جسم اور روح سنت کی برکت سے ہمیشہ کے لیے چمکنا اور دمکنا شروع کر دیتےاور حضورﷺاور زیادہ خوش ھوتے۔مہم شروع کرنے والے اس دنیا سے جانے کے بعد بھی اجر سے لطف اندوز ھوتے رہتے۔ ہم نعرہ تو لگاتے ہیں کہ ۔
غلامی رسولﷺمیں موت بھی قبول ہے
جو ہو نہ ذوق مصطفیﷺ تو زندگی فضول ہے
لباس میں عیسائی ، کاروبار میں یہودی، رسم و رواج میں ہندوکی نقل کرنےوالے اور چہرے بھی ان جیسے بنانے والے ، سنتوں کامذاق اڑانے والے، نمازوں کو چھوڑنے والے ، حضورﷺکی غلامی کا صرف نعروں کی حد تک دم بھرنے والے کیاہم حضورﷺ کے غلام ہیں کیا ہماری ۲۴ گھنٹے کی زندگی کا ایک ایک عمل سنت کے مطابق ہے۔ کیا ھم نے ایک ھی دن میوزک پر ہندووں کے گانوں اور انکی طرز پر بنی ہوئی نعتوں پر جھوم کر اپنی غلامی ثابت کر نی ہےاور باقی پورا سال کیا ہمارے آقاﷺ کا وقت نہیں یا باقی وقت میں انکی غلامی فرض نہیں۔
ہمارا دنیاوی محبوب اگر ہمیں کہہ دے نہ کہ آپ نیلے رنگ کے لباس میں اچھے لگتے ہیں تو بس پھر ہم اسکی پسند پر عمل کرنے کے لیے پورا سال ہی بلیو کلر کے کپڑوں میں گزار دیتے ہیں کیونکہ ہمیں اپنے محبوب کی پسند کا خیال رکھنا ہےاس پر ثابت کر نا ہے کہ ہم اس سے کتنی محبّت کرتے ہیں جو محبّت صرف دنیا میں ساتھ رہ سکتی ہےدنیا کی باقی ساری محبّتوں کی طرح۔ دنیا میں ہم جس مرضی کی محبّت کا جتنا مرضی دم بھر لیں قبر میں ایک ہی ہستی کی محبّت ہمیں بچا پائےگی
کیوں نہ اس ۱۲ ربیع الاول کوہم اپنے ساتھ یہ عہد کریں کے ہم بازاروں، گلیوں کو تو پہلے سے بھی زیادہ سجائیں گےمگرحضورﷺ کی پیاری پیاری سنتوں سے اپنے اس جسم کو اور ۲۴ گھنٹےکی زندگی کو ھمیشہ کے لیے سجائیں گےجو حضورﷺ نے ہمارے لیے پسند کی اور پوری دنیا میں انکو پھیلائیں گے۔اور کم از کم ایک دن تو ایسا ہو کہ ہم صبح جاگنے سے لیکر رات کو سونے تک ایک ایک کام اسی طرح سے کریں جیسے محمدﷺکرتے تھے اور وہ دن یہ ۱۲ربیع الاول ہی کیوں نہیں ہوسکتا کہ اس دن کا ھمارا جاگنا، کھاناپینا، کاروبار،بولنا، چلناپھرنا دیکھ کر کوئی بھی ہمیں آسانی سے دور سے پہچان لے اور پکار اٹھے ۔
وہ دیکھو محمدﷺ کا غلام، وہ دیکھو عاشق رسول ﷺ، وہ دیکھو مسلمان وہ دیکھو محمدی۔۔
خاکپائےنقشبندو اولیا۶
Comments are closed.