تو اپنے آپ کو ان لوگوں کی سنگت میں جمائے رکھا کر جو صبح و شام اپنے رب کو یاد کرتے ہیں

اللہ تعالیٰ نے اپنے ان ذاکرین و شاکرین بندوں کی صحبت اور معیت اختیار کرنے کا حکم دیا ہے جو صبح و شام اس کی یاد میں مست ومگن رہتے ہیں اور اس کے مکھڑے کے طلبگار رہتے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :

’’(اے میرے بندے) تو اپنے آپ کو ان لوگوں کی سنگت میں جمائے رکھا کر جو صبح و شام اپنے رب کو یاد کرتے ہیں۔ اس کی رضا کے طلبگار رہتے ہیں تیری (محبت اور توجہ) نگاہیں ان سے نہ ہٹیں تو (ان فقیروں سے دھیان ہٹا کر) دینوی زندگی کی آرائش چاہتا ہے۔‘‘

 الکهف، 18 : 28

یہ لوگ خدا شناس ہیں وہ بے شک خدا نہیں مگر اس کے ہمنشیں ہیں، اس لیے جو ان سے دور ہوا وہ اللہ سے دور ہو گیا اور جو ان کے قریب ہوا وہ اللہ کے قریب ہو گیا۔

یہ اللہ کے وہ مقرب اور عاشق بندے ہیں جو اپنے آپ کو دنیا کی ہر چیز سے بے نیاز کر کے مولا کی یاد میں فنا کر دیتے ہیں۔ مولانا روم کے درج ذیل اشعار اسی حقیقت کی عکاسی کرتے ہیں :

مولوی ہرگز نہ باشد مولائے روم

تا غلامِ شمس تبریزی نہ شد

(جب تک مولانا روم کو شمس تبریزی کی صحبت اور غلامی نصیب نہ ہوئی اس وقت تک وہ فقط مولوی تھے۔ شمس تبریزی کی صحبت نے انہیں مولوی سے مولائے روم بنا دیا۔

یک زمانہ صحبت با اولیا

بہتر از صد سالہ طاعت بے ریا

(اولیاء اللہ کی صحبت میں گزارئے ہوئے لمحات سو سالہ بے ریا عبادت سے بہتر ہیں۔) الغرض اللہ تعالیٰ کے قرب کی دولت اولیاء و صوفیاء کی صحبت و معیت سے ملتی ہے، خشیت و محبت الٰہی کا سودا صوفیاء کے بازار میں ہی ملتا ہے۔ یہ سوغات محبت، صحبت صلحاء اختیار کیے بغیر حاصل نہیں ہو سکتی