عقل کو تنقید سے فرصت نہیں عشق پہ اعمال کی بنیاد رکھ

سوال: تصوف ایک متنازعہ لفظ سمجھا جاتا ہے۔لوگوں کے اس کے بارے میں بڑے تحفظات ہیں۔آپ کی تصوف کے بارے میں کیا رائے ہے؟

جواب: جیسا کہ آپ نے فرمایا کہ تصوف کا لفظ متنازعہ ہے لیکن اس کا متنازعہ ہونا حقیقی نہیں بلکہ بعض حضرات نے ناسمجھی کی وجہ سے اس کے غلط معنی سمجھ لیے لہٰذا اس کی افادیت سے انکار کر بیٹھے۔ حقیقت میں کچھ اعمال ایسے ہوتے ہیں جو ظاہر میں کرنے کے ہوتے ہیں جیسے نماز، روزہ ،زکوٰۃ وغیرہ۔اور کچھ اعمال ایسے ہوتے ہیں جو کہ دل کے اعمال ہوتے ہیں جن کا پتہ کسی اور کو نہیں چلتا۔ ان کا پتہ صرف اللہ تعالیٰ کو یا کرنے والے کوہوتا ہے اور ان ہی اعمال پر ظاہری اعمال منحصر ہوتے ہیں۔اگر کسی کے یہ دل والے اعمال درست نہ ہوں تو بے شک ان کے ظاہر کے اعمال درست بھی ہوں وہ قبولیت کا درجہ نہیں پاتے یا بعض ظاہری اعمال ان باطنی اعمال کی خرابی کی وجہ سے ضائع ہوجاتے ہیں۔ پس ان باطنی اعمال کا یعنی دل کے اعمال کا درست کرنا بھی ضروری ہوا بلکہ اشد ضروری ہوا۔پس وہ طور طریقے اختیار کرنا جس سے یہ دل والے اعمال درست ہوجائیں تصوف کہلاتا ہے۔ شریعت کے طور طریقوں کو چونکہ فقہ بھی کہتے ہیں لہٰذا اس معنی میں تصوف کو فقہ الباطن بھی کہتے ہیں۔

سوال: صوفیاء کرام کی اصطلاح میں طریقت،حقیقت اور معرفت کے الفاظ بولے جاتے ہیں آپ ان کی وضاحت فرمائیں گے ؟

جواب: ظاہری اعمال کو درست کرنے کے طریقوں کو فقہ کہتے ہیں اور باطنی اعمال کو درست کرنے کے طریقوں کو طریقت کہتے ہیں۔جب دل کی اصلاح اور صفائی ہوجاتی ہے تو اس کی وجہ سے کچھ اعمال اور اشیاء کے خواص اور حقائق منکشف ہوجاتے ہیں۔اسی انکشاف کو حقیقت کہتے ہیں پھر جب یہ انکشافات ہوجاتے ہیں تو بندے کا اللہ تعالیٰ کے ساتھ ایسا تعلق قائم ہوجاتا ہے کہ بندہ اپنے حالات کے مطابق رب کی منشاء کو سمجھنے لگتا ہے کہ اس کی جو بھی حالت ہے اس میں اللہ تعالیٰ کس کام سے زیادہ راضی ہوں گے مثلاً حضرت ایوب علیہ السلام کو جب اللہ تعالیٰ کی منشاء کا یہ اندازہ ہوا کہ اﷲ تعالیٰ کا مجھ سے موجودہ حال میں صبر کا مطالبہ ہے تو انتہائی صبر کا مظاہرہ کیا اور جب ان کو یہ اندازہ ہوا کہ اب اﷲ تعالیٰ یہ چاہتے ہیں کہ میں عاجزی اختیار کروں اور عافیت مانگوں تو اﷲ تعالیٰ سے عافیت مانگی اور پھر جب اﷲ تعالیٰ نے آپ(علیہ السلام) کے گھر میں سونے کی ٹڈیوں کی بارش فرمادی تو جھولیاں بھر بھر کر جمع فرماتے رہے اور اس آواز پر کہ ایوب کیا تیرا پیٹ ابھی نہیں بھرا فرمایا کہ یا اﷲ میرا پیٹ تیری نعمتوں سے کب بھر سکتا ہے۔ یہ سب معرفت الٰہی کے کرشمے ہیں۔

سوال: بحیثیت مسلمان ہم کوئی ایسا عمل نہیں کرسکتے جو قُرآن اور حدیث سے ثابت نہ ہو۔کیا تصوف قُرآن و حدیث سے ثابت ہے ؟

جواب: ذرا اس کی تعریف میں غور کیجئے کہ اس میں کونسی چیز قُرآن و حدیث سے خارج ہے؟

سوال: تعریف میں طور طریقوں کا ذکر بھی آیا ہے ان کو قُرآن و حدیث سے کیسے ثابت کریں گے ؟

جواب: جہاں تک اس کے طور طریقوں کی بات ہے تو اگر ان کو محض ذرائع مانا جائے تو پھر اس پر خلاف شریعت کا حکم نہیں لگایاجاسکتا جیسے کوئی حج کو فرض مانتا ہے اور اس کے لیے جہاز پر سفر کو محض ذریعہ سمجھتا ہے اب گو کہ قرون اولیٰ میں جہاز کا کوئی تصور نہیں تھا لیکن محض جہاز پر جانے کو کوئی بدعت کہتا ہے ؟ ہر گز نہیں۔ کیو نکہ اس کو وہ صرف ذریعہ سمجھ رہا ہے ہاں اگر کوئی جہاز پر جانے کو ہی مقصود قرار دے اور دوسرے ذرائع کو غیر شرعی قرار دے تو یہ دین میں زیادتی اور بدعت ہوگی۔اس لیے اس سے بچنا ضروری ہوگا۔بعینہ یہاں بھی اگر ان طریقوں کو محض ذریعہ سمجھا جائے اور ان کو مقاصد میں شامل نہ سمجھا جائے تو پھر کوئی حرج نہیں۔

سوال: ٹھیک ہے، لیکن صوفیاء کرام تو بعض اوقات ایسی باتیں کرلیتے ہیں یا ایسے کام کرتے ہیں کہ قرون اولیٰ میں ان کی نظیر نہیں ملتی اس لیے بدعت کی تعریف سے ان کو نکالنا مشکل معلوم ہورہا ہے؟

جواب: بدعت کی سب سے زیادہ واضح تعریف جومیرے ذہن میں ہے وہ یہ ہے کہ کوئی ایسی بات جس کے لیے دلیل شرعی نہ ہو اس کو دین سمجھنا بدعت ہوگا۔اگر آپ کا اشارہ اس طرف ہے کہ تصوف کو بعض لوگ بدعت سمجھتے ہیں تو میں یہ واضح کردوں کہ وہ غلطی پر ہیں کیونکہ جو تصوف کے مقاصد ہیں وہ قُرآن اور حدیث سے ثابت ہیں جیسے تکبر کی جو مذمت ہے وہ قُرآن اور حدیث سے ثابت ہے۔ اسی طرح عجب ، حسد، کینہ ، بغض اور ریاء کی مذمت قُرآن اور حدیث سے ثابت ہے۔اسی طرح تفویض(اپنے آپ کو اﷲ تعالیٰ کے سپرد کرنا) ، توکل(اﷲ پر بھروسا کرنا) ،تواضع (اپنے آپ کو کم ترسمجھنا)کی فضیلت اور حکم قُرآن اور حدیث سے ثابت ہے۔ پس اگرکو ئی ان کو ہی مقاصد سمجھے اور ان کو حاصل کرنے کے جو طریقے ہیں ان کو محض ذرائع سمجھے تو پھر اس پر بدعت کی تعریف کیسے آسکتی ہے ؟ مثلاً آپ صلی اللہ علیہ والہ سلم کے دور میں جو علوم کو حاصل کرنے کا طریقہ تھا، آج کل وہ نہیں لیکن چونکہ علم حاصل کرنا سب لوگ قُرآن اور حدیث سے ثابت سمجھتے ہیں تو علوم کو حاصل کرنے کے جو ذرائع ہیں ان پر کوئی بھی اعتراض نہیں کرتا۔اسی طرح جو تصوف کے مقاصد ہیں اگر ان کو کوئی مقاصد سمجھتے ہوئے ان کے حاصل کرنے کے طور طریقوں کو محض ذرائع سمجھے تو پھر تصوف پر بھی کوئی اعتراض یا اس کے بدعت ہونے کی کوئی گنجائش نہیں رہتی۔

سوال: کچھ کچھ بات سمجھ میں آرہی ہے۔آپ کی بات تو ٹھیک ہے لیکن آج کل بعض لوگ تصوف کے نام پر ایسے ایسے اعمال کرتے ہیں جو کہ صراحتاً شرک و بدعت ہیں اس لیے سدباب کے طور پر اگر لوگوں کو اس سے بچایا جائے تو کیا یہ درست نہیں ہوگا؟

جواب: سدباب کی تجویز بہت مناسب ہے لیکن یہاں پر اس کو منطبق کرنا بڑا عجیب ہے۔ اگر لوگ اسلام کے نام پر غلط چیزیں شامل کریں تو کیا سد باب کے لیے اسلام کوہی سلام کردیں گے ؟یہ تو بالکل وہی بات ہے کہ بعض ناواقف لوگ کہتے ہیں کہ داڑھی اب غلط لوگ رکھنے لگے ہیں اس لیے ہم اب داڑھی نہیں رکھ سکتے۔یاد رکھیئے جو خدا اور رسول کا حکم ہو اس کو اگر غلط لوگ غلط طریقے سے کرنے لگیں تو اس کا توڑ یہ نہیں کہ اس کو چھوڑ دیا جائے بلکہ اس کا توڑ یہ ہوگا کہ اس کو صحیح طریقے سے کرنے کو رواج دیا جائے۔یہی طریقہ ہم تصوف کے ساتھ اختیار کرنا چاہتے ہیں کہ اسکے صحیح طریقوں کو رواج دیا جائے۔ہماری کوشش بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔

سوال: وہ کونسے کام ہیں جو طریقت میں لازمی طور پر کرنے ہوتے ہیں ؟

جواب: ذرا غور فرمایئے۔ اعمال باطنی دو قسموں میں تقسیم کئے جاسکتے ہیں۔ ایک محمود ہیں یعنی پسندیدہ اعمال جیسے تواضع ،اخلاص وغیرہ اور دوسرے مذموم یعنی ناپسندیدہ اعمال ہیں جیسے تکبر اور ریاء وغیرہ۔طریقت میں اس کی کوشش کی جاتی ہے کہ مذموم اعمال ختم ہوجائیں اور محمود اعمال پیدا ہوجائیں۔پہلے کو تخلیہ یا تجلیہ کہتے ہیں اور دوسرے کو تحلیہ کہتے ہیں۔

سوال: تصوف سے کیا حاصل ہوتا ہے ؟

جواب: ظاہراً دو قسم کے ثمرات اس سے حاصل ہوجاتے ہیں۔ (1) بندے کے دل کی درستگی یعنی محمود اعمال کے لیے دل کا تیار ہوجانااور نفس کا رذائل سے پاک ہوجانا۔دوسرے لفظوں میں بندہ فی الحقیقت بندہ بن جاتا ہے (2) ا للہ تعالیٰ کی طرف سے بندے کی قبولیت یعنی بندے کا اللہ والا بن جانا۔اسی کو وصول کہتے ہیں اور اسی کو نسبت کہتے ہیں۔

سوال: کیا وصول اختیاری ہے؟

جواب: نہیں یہ اللہ تعالیٰ کے فضل پر موقوف ہے۔

سوال: اگر یہ اختیاری نہیں تو ہم اس کے لیے کیسے کوشش کر سکتے ہیں؟

جواب: اچھا اور موقع کاسوال ہے لیکن جواب ذرا غور سے سنیئے ہم جانتے ہیں کہ جنت میں داخلہ اللہ تعالیٰ کے فضل پر موقوف ہے اعمال پر نہیں لیکن پھر بھی ہمیں اعمال کا حکم دیا جاتا ہے اور جیسا کہ ظاہر ہے اللہ تعالیٰ کا کوئی حکم بے فائدہ نہیں اس لیے ہمارا کام عمل کرنا ہے نتیجہ خدا کے حوالے ہے۔ تو جس طرح باوجود اس کے کہ جنت میں داخلہ اللہ تعالیٰ کے فضل پر موقوف ہے ہم اس کو اپنے لیے مقصد سمجھتے ہیں اور اس کے حصول کی کوشش کرتے ہیں۔اسی طرح ہمارا کام باطنی اعمال کی درستگی ہے جو اختیاری ہے اور اس کا حکم ہے لیکن اس پر نسبت کا حاصل ہونا اگر چہ غیر اختیاری ہے لیکن ہم اللہ تعالیٰ کے فضل کے بھروسہ پر بلا چوں و چرا عمل جاری رکھیں گے۔اللہ تعالیٰ کی جب حکمت ہوگی نسبت عطافرمادیں گے۔

سوال: آپ نے جن چیزوں کے بارے میں فرمایا کہ وہ تصوف سے حاصل ہوتی ہیں کیا محض تصوف کی کتابیں پڑھ کر ان مقاصد کو حاصل کیا جاسکتا ہے؟

جواب: عالم امکان میں تو ہے لیکن تجربے سے یہی ثابت ہے کہ ایسا بغیر کسی کی رہنمائی کے انتہائی مشکل ہوتا ہے۔ایک شعر ہے۔

گر ہوائے ایں سفر داری دلا
دامن رہبر بگیر و پس بیا
بے رفیقے ہر کہ شد در راہ عشق
عمر بگزشت و نشد آگاہ عشق

اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر اس سفر پر جانا ہے تو رہبر کا ہونا لازمی ہے کیونکہ جو اس راستے میں بغیر رہبر کے چلا اس کی عمر گزرگئی اور اس کو مقصود حاصل نہیں ہوا۔عقلی توجیہ اس کی یہ ہے کہ جو شخص ان مقاصد کو حاصل کرے گا وہ یا تو مخلص ہوگا یا نہیں ہوگا۔پس اگر مخلص نہیں ہے تو آسانی کی تلاش میں ہوگا اور پہلے ہی قدم پر نفس کے مکر کا شکار ہوجائے گا۔ کیونکہ یہ راستہ ہی نفس کی تربیت کا ہے اور تربیت میں تو مجاہدہ ہوتا ہے اور مجاہدے کی نفس مزاحمت کرے گا اس لیے یہ کبھی منزل مقصود پر نہیں پہنچے سکے گا۔دوسری طرف اگر یہ مخلص ہے تو اخلاص کی وجہ سے اپنے نفس کے مکر سے بچنے کے لیے اپنے لیے مشکل راستہ چنے گا۔اس سے مجاہدہ تحمل سے باہر ہو جائے گا تو یا تو اپنے آپ کو اس قابل نہ سمجھتے ہوئے اس راستے کو خیرآباد کہہ دے گا یا پھر اس کو ایسی جسمانی تکالیف پیش آسکتی ہیں جس سے بعد میں خود بخود اعمال ساقط ہوجائیں گے۔ پس دونوں صورتوں میں محرومی ہوگی۔اس کے برعکس اگر کسی کی نگرانی میں کام کرے گا تو وہ اس سے مجاہدہ تو کرائے گا لیکن بقدر تحمل ،نیز تجربے سے اس پر عمل سہل ہوجائے گا اور سب سے بڑی بات کہ غیر یقینی صورت حال سے جواس پر بے انتہا بوجھ پڑتا ہے وہ نہیں پڑے گا۔

سوال: یہاں رہنمائی اور غیر یقینی صورت حال سے کیا مراد ہے ؟

جواب: رہنمائی سے مراد یہ ہے کہ ہر کام پوچھ پوچھ کے کیا جائے۔ کیونکہ نفس کے امراض کا اول تو خود ادراک ہوجانا مشکل ہے اور اگر ان کا ادراک ہو بھی جائے تو اس کا خود علاج کرنا بہت مشکل ہے۔غیر یقینی صورت حال سے مراد یہ ہے کہ طالب اگر مخلص ہے تو اس کو اپنی اصلاح کے لیے نفس پر کتنا بوجھ ڈالنا چاہیئے اوراس کی کتنی رعایت کرنی چاہیئے؟

سوال: رہنمائی پھر کس کی ہونی چاہئے؟

جواب: شیخ کامل کی جس کو بعض لوگ پیر بھی کہتے ہیں۔

سوال: پیر کے بارے میں سنا تو بہت کچھ ہے لیکن پیرہوتا کیاہے؟

جواب: پیر مربی ہوتا ہے۔جو شخص اپنی اصلاح کرنا چاہتا ہے تو جیسا کہ پہلے کہا گیا خود اپنی اصلاح بہت مشکل ہوتی ہے اس لیے کسی کو اپنا رہبر بنانا پڑتا ہے۔اس کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ اس کو اپنے پیر کے ساتھ ایک تعلق ہوجاتا ہے اور اس کو اپنے بارے میں بتاتا جاتا ہے۔ اس لیے اس کو اس کے بارے میں زیادہ سے زیاد ہ معلومات حاصل ہورہی ہوتی ہیں۔پھر جب وہ کسی چیز کے بارے میں اس سے مشورہ کرتا ہے تو اس کا مشورہ اپنے مرید کے لیے باقی لوگوں کے مقابلے میں زیادہ بہتر ہوتا ہے۔

سوال: کیا اس پیری مریدی کی ا سلام میں گنجائش ہے ؟

جواب: کیوں نہیں ؟ جس طرح استاد شاگرد کی گنجائش ہے یا جس طرح ڈاکٹر اور مریض کی گنجائش ہے اسی طرح پیری مریدی کی گنجائش ہے۔ہر شخص اپنی اصلاح کے لیے ایک پیر کے ہاتھ میں ہاتھ دیتا ہے جس سے وہ اصلاح لیتا ہے۔اپنی اصلاح فرض عین ہے اور پیر کا ہاتھ پکڑنا اس کے لیے ایک ذریعہ ہے ۔اس لیے اس کے جواز میں کیا اختلاف ہوسکتا ہے؟ مرید ایک طرح سے روحانی مریض ہے اور دوسری حیثیت سے تصوف کے علوم کا شاگرد ہے۔ دونوں حیثیتیں چونکہ ثابت ہیں۔اس لیے مرید ہونا بھی جائز ہے اور پیر کا ہاتھ پکڑنا بھی جائز۔

سوال: ہم نے تو سنا تھا کہ مزاج تبدیل نہیں ہوسکتے جبکہ آپ تو شاید اس کو ممکن سمجھتے ہیں؟

جواب: جی ہاں۔آپ نے ٹھیک سنا ہے طبیعت تبدیل نہیں ہوسکتی لیکن عادت تبدیل ہوسکتی ہے۔ مشائخ کا کام یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے مرید کی طبیعت کو پہچان لیں اور اس کی طبیعت کے مطابق اس سے کا م لیں اور اس کو صحیح راستے پر گامزن کر کے اس کی عادت درست کردیں۔ آخر صحابہ کرام (رضی اللہ عنہ) میں بھی تو ہر قسم کی طبیعتیں تھیں۔جب ان کی اصلاح ہوگئی تو ہر ایک ہدایت کا مینار بن گیااور سب کے بارے میں فرمایا گیا کہ جس کے پیچھے بھی جاؤگے ہدایت پالوگے۔پس طبیعتیں تو تبدیل نہیں ہوسکتیں لیکن ہر طبیعت کی اصلاح ہوسکتی ہے۔ آج کل کی زبان میں اگر طبیعت موبائل کو کہا جائے تو عادت کو سِم  کہا جاسکتاہے۔

سوال: کیا کسی شخص کو بھی پیر بنایا جاسکتا ہے ؟

جواب: نہیں ،جیسے ہر ایک سے علاج نہیں کروایاجاتا اس طرح ہر ایک کو پیربھی نہیں بنایا جا سکتا۔اس کے لیے کچھ شرائط ہیں جن کا جاننا ضروری ہے ورنہ فائدہ کی بجائے الٹانقصان ہوسکتا ہے۔

سوال: ہم تو کسی بھی ڈاکٹر سے علاج کرواسکتے ہیں یہاں ایسا کیوں نہیں ؟

جواب: آ پ شاید میرا جواب نہیں سمجھے۔ڈاکٹروں میں تو آپ کسی کو بھی اپنا ڈاکٹر بناسکتے ہیں لیکن جو ڈاکٹر نہیں ان سے تو آپ علاج نہیں کرواتے ! اسی طرح پیروں میں سے تو کوئی بھی پیر ہوسکتا ہے لیکن جو پیر ہی نہیں اس کو کیسے پیر بنا یا جاسکتا ہے ؟

 سوال: کیا پیر کا ایک ہونا ضروری ہے ؟ اس سوال کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ آپ نے پیر کی مثال ایک استاد کی دی ہے تو جیسے استاد کئی ہوسکتے ہیں اس طرح پیربھی تو کئی ہوسکتے ہوں گے؟

جواب: بڑا شاندار عملی سوال ہے لیکن اس کا جواب سمجھنے کی کوشش کریں توسمجھ میں آنا مشکل نہیں۔ جیسا کہ میں نے عرض کیا تھا کہ مرید کی دو حیثیتیں ہیں۔ایک مریض ہونا، اس صورت میں پیر معالج ہوتا ہے اور ایک شاگرد ہونا ،اس صورت میں پیر استاد ہوتا ہے۔ طریقت کی بنیادی تعریف سے مرید کا مریض ہونا زیادہ اہم ہے کہ مرید نفس کے رذائل کو دور کرنے کے لیے پیر کی خدمات حاصل کرتا ہے۔پیر کا مریدکو بعض علوم تصوف کے سمجھانا محض اس کا تبرع اور احسان ہے اوریہ لازمی نہیں۔اس لیے بعض اوقات کوئی وجہ بھی نہیں بتائی جاتی۔ اس کی مثال بعض ڈاکٹروں میں بھی ملتی ہے کہ وہ مریضوں کو ان کے امراض کے بارے میں کچھ سمجھاتے بھی رہتے ہیں جبکہ بعض ڈاکٹر بالکل نہیں بتاتے۔ تو اصل چیزعلاج ہوا کہ وہ تو سب کے ہاںمشترک ہے اور کبھی کبھی تعلیم بھی ساتھ ہوجاتی ہے۔اب اگر پیر کا معالج ہونا سمجھ میں آگیا تو پھر پیر کا ایک ہونا بھی سمجھ میں آجائے گا۔

 سوال: مجھے اب بھی یہ واضح نہیں ہو سکا۔ہم ڈاکٹروں کو بدلتے بھی رہتے ہیں تو اس طرح تو ہمارا کئی ڈاکٹروں کے ساتھ واسطہ ہوجاتا ہے۔ اس لیے میں پہلے جواب سے مطمئن نہیں ہوسکا؟

جواب: کسی ایک بیماری کے علاج کے دوران ڈاکٹروں کا بدلنا مناسب نہیں سمجھا جاتا۔اس صورت میں مرض کے بڑھنے کا اندیشہ ہوتا ہے کیونکہ ایک ڈاکٹر کے پاس آنے جانے سے جب اس ڈاکٹر کو مریض کا مرض کچھ سمجھ میں آنا شروع ہوجائے تو اگر اس وقت کسی نئے ڈاکٹر سے علاج شروع کردیا جائے تو پھر اس کو نئے تجربات سے گزرنا ہوگا۔اس لیے کسی بھی ڈاکٹر کو مرض سمجھنے کا مناسب وقت نہیں مل سکے گا اور مرض بعض دفعہ خطرناک صورت اختیار کرلے گا۔

سوال: تو کیا ہم ہر ایک رذیلے کو دور کرنے کیلیے علیحدہ پیر منتخب کرسکتے ہیں؟

جواب: نہیں،لیکن اس بات کو سمجھنے کے لیے کچھ تمہید کی ضرورت ہے۔وہ یہ کہ جب دو چیزوں کو آپس میں تشبیہ دی جارہی ہو تو ضروری نہیں کہ وہ دو چیزیں بالکل ایک جیسی ہوں بلکہ درمیان میں کسی ایک صفت کے شریک ہونے کی وجہ سے بھی ان کو تشبیہ دی جارہی ہوتی ہے جبکہ حقیقت میں وہ ایک جیسی نہیں ہوتیں۔ یہاں سمجھانے کے لیے یہ عرض کروں کہ طب میں تو مختلف امراض کے مختلف ڈاکٹروں اور حکیموں سے رجوع مشاہد ہے کیونکہ مختلف امراض کے مختلف تخصص ہوتے ہیں لیکن طب روحانی یعنی تصوف میں اصل مرض ایک ہوتا ہے اور وہ دنیا کی محبت ہے جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ “حب الدنیا رأس کل خطیئۃ” اور اس کا علاج ایک ہے اور وہ ہے اﷲ کی محبت پس اصل تصوف دل سے دنیا کی محبت کو نکال کر اس میں اﷲ کی محبت کو پیدا کرنا ہے باقی تمام طریقے اس کے فروعات ہیں اس لیے ایک ہی پیر پر انحصار کیا جاتا ہے۔ہزاروں لاکھوں لوگوں کے مشاہدے سے ہم یکسر کیسے انکار کرسکتے ہیں؟ اس لیے اسی میں بہتری ہے کہ ایک ہی پیر کے ساتھ تعلق قائم کیا جائے۔

سوال: چلیے مان لیا کہ صرف ایک پیر سے تعلق رکھنا ہی بہتر ہے لیکن خدا نخواستہ کوئی سادہ آدمی کسی غلط پیر سے بیعت ہوجائے تو اسے کیا کرنا چاہیئے ؟

جواب: اللہ تعالیٰ آپ کو اجر دے آپ نے بہت اہم اور عملی سوال کیا ہے۔اس بات کی اہمیت اپنی جگہ ہے کہ پیر کو ایک ہونا چاہیئے لیکن اس کا لازمی نتیجہ پھر یہ ہونا چاہیئے کہ وہ پیر صحیح ہو، شیخ کامل بھی ہو اور مرید کو اس کے ساتھ مناسبت بھی ہو ورنہ وہی ہوگا جو اناڑی ڈاکٹر کے ہاتھ پھنسنے والوں کا ہوتا ہے۔اس سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ پیر انتہائی سوچ سمجھ کر چُنا جائے۔لہٰذاپیر کامل کی نشانیوں کو اچھی طرح سمجھنا چاھئیے۔اپنے آپ کا اس کے ساتھ مناسبت کا اچھی طرح جائزہ لیا جائے۔اس میں جلدی نہ کی جائے۔جس پیر کا عقیدہ خراب ہو یا وہ مستند نہ ہو یا صریح فسق و فجور میں مبتلا ہو اس کے قریب بھی نہیں جانا چاہیئے اور اگر کوئی اس سے بیعت ہوگیا تو اس کا نبھانا ضروری نہیں چپکے سے کسی اور مستند پیر کے ساتھ اپنا تعلق قائم کرنا چاہیئے، لیکن اپنے گزشتہ پیر کی بے ادبی نہیں کرنا چاہیئے کیونکہ وہ ابتدائی محسن ہے اس لیے باقی لوگ بے شک اس کے بارے میں کچھ بھی کہیں خود اس کے حق میں بے ادبی نہیں کرنی چاہیئے۔اس وقت اس کا معاملہ والد کی طرح ہوجاتا ہے کہ اس کی بات ماننی تو نہیں کیونکہ وہ شریعت کی خلاف ورزی ہوگی لیکن اس کے ساتھ عرف کے مطابق اچھا برتاؤ کرنا چاہیئے۔

سوال: اگر وہ پیر فسق و فجور میں مبتلا ہو اور لوگوں کو اس سے نقصان پہنچ رہا ہو پھر بھی چپ رہے؟

جواب: میں نے صرف یہ کہا تھا کہ اس کی بے ادبی نہیں کرنی چاہیئے تاہم لوگوں کو یہ سمجھا نا کہ بدعقیدہ اور فاسق فاجر شیخ سے بیعت نہیں ہونا چاہیے ضروری ہے۔اس طرح عام بات کرنا لوگوں کو بچانے کے لیے کافی ہوسکتا ہے بالخصوص ایسے شخص کی بات جو اس بات میں مبتلا رہ چکا ہو لوگوں کی ہدایت کے لیے زیادہ مفید ہوگی کیونکہ وہ دل سے کہے گا تاہم اپنے گزشتہ شیخ کے بارے میں اشد ضرورت کے بغیر کچھ نہ کہے اگر کوئی پوچھے تو اس کو اس چیز کے جاننے والوں کی طرف راغب کیا جائے۔

سوال: اگر کسی پیر کے ساتھ اس کے مرید کی مناسبت نہیں اور اس کا پیر نہ تو بدعقیدہ ہے اور نہ ہی بدعمل ہے تو اس کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے ؟

جواب: کوشش کرنی چاہیئے کہ اس کے ساتھ مناسبت پیدا ہوجائے۔بعض دفعہ مناسبت محسوس نہیں ہوتی لیکن ہوتی ہے۔اس وقت اس کی کوشش کرنی چاہیئے کہ اگر ہو تو واضح ہوجائے لیکن اگر بالکل مناسبت نہیں تو دل میں اس کا انتہائی احترام رکھتے ہوئے اپنا تعلق کسی اور کے ساتھ قائم کیا جائے لیکن اس دفعہ مزید احتیاط کے ساتھ کہ پہلے دوسرے شیخ کے ساتھ مناسبت کا یقین کرلیا جائے تاکہ پھر وہ صورت حال واقع نہ ہو۔

سوال: بعض حضرات تصوف اور بیعت کو آپس میں لازم و ملزوم سمجھتے ہیں کیا بیعت کرنا واقعی اتنا ضروری ہے ؟

جواب: مفید تو یقیناًہے لیکن اس کی حیثیت سنت مستحبہ کی ہے جبکہ اپنی اصلاح فرض عین ہے اس لیے کسی سے اپنی اصلاح کے لیے اگر بیعت کے بغیر بھی تعلق قائم کیا اور اپنی اصلاح کروائی تو مقصد تو پورا ہوجائے گا۔اس کے برعکس اگر کسی نے ایک بڑے شیخ کی بیعت کرلی لیکن اس سے اپنی اصلاح نہیں کروائی تو اس کو مقصود حاصل نہیں ہوا۔

سوال: تو پھر بیعت کے تردد میں کیوں پڑے ،بس اپنی اصلاح کرائے اور ختم؟

جواب: ٹھیک لیکن اگر واقعی ایسا ہو تو ورنہ بیعت کے ثمرات سے انکار نہیں۔

سوال: بیعت کے ثمرات کیا ہوتے ہیں؟

جواب: پیر کی توجہ ہوجاتی ہے اور مرید کو اپنا سمجھنے لگتا ہے اور اس کے بارے میں فکر مند ہوجاتا ہے۔مرید اپنے مقصود کو ایک شخص کے ساتھ وابستہ کرلیتاہے اور ہرجائی پن ختم ہوجاتا ہے جو طریق میں انتہائی نقصان دہ چیز ہے۔سلسلے کی اپنی برکات ہوتی ہیں وہ الگ حاصل ہوتی ہیں۔سب سے بڑھ کر اس کا فائدہ یہ ہے کہ صحیح پیر کے ساتھ تعلق ہو تو ایمان محفوظ ہوجاتا ہے۔

سوال: کیا خواتین کو بھی بیعت کیا جاسکتا ہے؟

جواب: کیوں نہیں ۔قُرآن میں بیعت کی جو آیت ہے وہ خواتین کی بیعت کا ہے ۔مردوں کی بیعت تو حدیث پاک سے ثابت ہے البتہ یہ ضرور ہے کہ اس میں شرعی پابندیوں مثلاً پردے کا خیال رکھنا ( نامحرم پیر نامحرم ہوتا ہے) اور گھر کے مردوں کا اعتماد ضروری ہے۔

سوال: صحیح پیر کون ہوسکتاہے اس میں ذرا رہنمائی فرمایئے؟

جواب: ماشاء اللہ یہ طلب کی علامت ہے۔اللہ تعالیٰ مجھے صحیح بات کرنے کی توفیق دے۔ اس سے پہلے آپ تھوڑی سی ہمت کرلیں اور بتائیں کہ آپ کسی ڈاکٹر کا انتخاب کیسے کرتے ہیں؟

سوال: ہم ڈاکٹر کا انتخاب اس طرح کرتے ہیں کہ دیکھتے ہیں کہ وہ مستند ہے یا نہیں یعنی اس نے کسی میڈیکل کالج سے پڑھا ہے یا نہیں اور اگر پڑھا ہے تو اس کے پاس ڈگری ہے یا نہیں۔کیا پیر کے انتخاب کے لیے اتنی بات کافی ہے ؟

جواب: نہیں۔اس کے علاوہ یہاں یہ بھی دیکھنا ہوتا ہے کہ آپ میں اور اس میں مناسبت بھی ہے یا نہیں؟ورنہ فائدہ نہیں ہوگا۔

سوال: یہ مناسبت کیا ہوتی ہے ؟ نیز پیر کے مستند ہونے کا کیا مطلب ہے؟

جواب: مناسبت سے مراد یہ ہے کہ اس کی مجلس سے ،مکاتبت سے ،اس کی کتابوں سے آپ کو فائدہ ہونا محسوس ہوتا ہواور اس کے بارے میں اگر آپ کو وسوسہ آئے تو اس وسوسے کو پالنے کی بجائے آپ اس سے چھٹکارہ پانا چاہتے ہوں۔ جبکہ پیر کے مستند ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ کسی مستندسلسلے میں بیعت ہوچکا ہو اور وہاں سے اس کو اجازت یعنی خلافت مل چکی ہو۔

سوال: اگر کوئی بیعت نہ ہوا ہو اور اس کی اصلاح کسی طرح ہوجائے تو کیا اس کو خلافت مل سکتی ہے؟

جواب: ماشاء اﷲ۔بہت اچھا سوال ہے۔اگر کسی کی اصلاح ہوچکی ہو تو اس کو خلافت دی جاسکتی ہے۔یہ خلافت اس بات کی انشاء اﷲ علامت ہوگی کہ اب یہ شخص فتنہ نہیں بنے گا اس لیے جس دینی کام کو مثلاً تدریس ،دینی سیاست ،تبلیغ وغیرہ کوکرے گا تو سلیم القلبی کے باعث اس کو صحیح نیت سے انشاء اﷲ کرے گا ،لیکن اس دینی کام کے مسائل اور فنون کو جاننا اس کے ذمّے الگ ہوگا۔اس لیے اس کو اس پر علیحدہ محنت کرنی چاہیئے۔ان کاموں میں سے ایک کام دوسروں کا تزکیہ بھی ہے اور چونکہ تزکیہ بھی ایک فن ہے اس لیے اگر تزکیہ کے میدان میں وہ کام کرنا چاہتا ہو تو اس کو کسی مستند ماہر فن سے اس فن کو حاصل کرنا چاہیئے بصورت دیگر درست نیت کے باوجود غلطی کا امکان باقی رہے گا۔

سوال: کیا ایسا ہوسکتا ہے کہ بیعت کسی ایک شیخ سے ہو اور اس کو خلافت کسی اور جگہ سے مل جائے؟

جواب: جی ہاں۔خلافت نسبت کے حصول کی علامت ہوتی ہے۔پس کسی بھی شیخ سے تربیت پانے کے بعد اگر کسی اور شیخ کی نظر میں اس کو نسبت حاصل ہوچکی ہو تو اس کا اظہار خلافت کی صورت میں وہ کرسکتا ہے تاہم ایک چیز کا خیال رکھنا بہتر ہے کہ اگردوسرے شیخ کی پہلے شیخ کے ساتھ واقفیت اور مناسبت نہ ہو تو ایسا کرنا پیچیدہ صورت حال کا باعث بن سکتا ہے تو ایسی صورت میں اس سے اعراض مناسب ہے۔ اگر ممکن ہو تو دوسرا شیخ اپنے خیال کی اطلاع اس کے پہلے شیخ کو کرسکتا ہے باقی فیصلہ اس پر چھوڑ دیا جائے۔یہ بات تجربے سے عرض کی ہے ،دوسروں کا اس سے اختلاف ممکن ہے۔

سوال: کیا یہ ممکن ہے کہ بیعت ایک شیخ سے ہو اور تربیت کوئی اور کرے؟

جواب: جی ہاں ایسا ممکن ہے۔

سوال: اگر کوئی شخص کسی بزرگ سے بیعت ہوجائے لیکن رابطہ کسی وجہ سے ان کے ساتھ نہ رکھ سکے تو کیا کسی اور شیخ سے تعلیم کے سلسلے میں رجوع کرسکتا ہے؟

جواب: اگر جس شیخ سے بیعت کی ہو، ان سے رابطہ ممکن ہو اور شیخ اس کی تربیت کرنا چاہتا بھی ہو توکسی اور شیخ سے رجوع کرنا مناسب نہیں۔اس کے برعکس اپنے شیخ کے ساتھ یا تو رابطہ ممکن نہ رہے۔یا شیخ بہت معذور ہوجائے اور تعلیم و ارشاد کا سلسلہ اب وہ جاری نہ رکھ سکے تو دوسرے شیخ سے بغرض تعلیم رجوع کرسکتا ہے۔اب وہ دوسرا اس کا شیخ تعلیم ہوجائے گا۔اب اس کو موجودہ شیخ کے ساتھ وہی معاملہ رکھنا چاہیئے جو وہ اپنے شیخ بیعت کے ساتھ رکھتا تھا لیکن شیخ بیعت کا ادب اس کو ملحوظ رکھنا چاہیئے۔

سوال: کیا شیخ کا اسی طرح ادب کرنا چاہیئے جیسے صحابہ کرام آپ صلی اللہ علیہ والہ سلم کا کیا کرتے تھے ؟

جواب: ہم اﷲ تعالیٰ کا تعلق چاہتے ہیں جو سنت نبوی کے بغیر ممکن نہیں ۔علماً سنت ہمیں علماء کرام سے حاصل ہوسکتا ہے لیکن عملاً مشائخ سے حاصل ہوتا ہے بالخصوص اپنے شیخ سے۔پس شیخ سنت رسول حاصل کرنے کا وسیلہ ہوا اور سنت رسول اﷲ تعالیٰ کے تعلق کا۔اس طرح بالواسطہ شیخ اﷲ تعالیٰ کے تعلق کا وسیلہ ہوا ۔پس جو ادب صحابہ کرام نے رسول اللہ تعالیٰ کا اس مقصد کے لئے کیا تو چونکہ ہمارے سامنے اپنا شیخ ہی ہے، ہم صحابہ کی اتباع میں اسی طرح اس وسیلے کا ادب کریں گے ۔فرق صرف یہ ہے صحابہ پیغمبر کا ادب کرتے تھے جن سے اختلاف کفر تھا جبکہ شیخ پیغمبر نہیں ہے اس لئے ان سے علمی اختلاف کفر نہیں اور اگر اجتہادی طور پر حق پر ہو تو گناہ بھی نہیں تاہم تربیت چونکہ اسی وسیلے کے ذریعے ہورہی ہے اس لئے اس میں شیخ سے اختلاف محرومی اور سلوک کے اعلی موانع میں سے ہے ۔اختلاف جیسے منفی طور پر سب سے اعلی مانع ہے اسی طرح ادب مثبت طور پر تعلق مع اﷲ کا بڑاذریعہ ہے خوب سمجھنا چاہیئے۔بلکہ آپ صلی اللہ علیہ والہ سلم کے مقام کے پہچاننے کا یہ سب سے مؤثر طریقہ ہے ۔ جو لوگ ان سلاسل میں نہیں آئے ہوتے وہ آپ صلی اللہ علیہ والہ سلم کا مقام نہیں پہچان سکتے ۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ سلم کا مقام وہی پہچانتے ہیں جو کسی سلسلے میں بیعت ہوچکے ہوتے ہیں ۔ انہوں نے اپنا تعلق اور محبت شیخ کے ساتھ دیکھا ہوتا ہے ۔ تو پھر وہ صحابہ کرام کے اس تعلق اور اس محبت کو محسوس کرسکتے ہیں ۔ ا ن کو پھر پتہ ہوتا ہے کہ صحابہ کرام (رضی اللہ عنہ) کیسے شیدائی ہوتے تھے ۔ جتنا جتنا تعلق کسی کا شیخ کے ساتھ بڑھ رہا ہوتا ہے ، اتنا اتنا ان کو صحابہ کی پہچان ہوتی جائے گی ۔ تو یہ گویا ااتباع صحابہ(رضی اللہ عنہ) جس کا حکم ہے۔ اس کے لئے زینہ ہے ۔

سوال: شیخ کے کام اور شیخ کی صحبت میں کس چیز کو ترجیح دینی چاہیئے؟

جواب: شیخ کی صحبت زیادہ پیاری ہونی چاہیئے اور شیخ کے کام کو اس پر ترجیح دینی چاہیئے کیونکہ الامر فوق الادب۔

سوال: یہاں مستند سلسلے کا ذکر آیاہے یہ کیا ہوتا ہے؟

جواب: یہ آپ صلی اللہ علیہ والہ سلم کے وقت سے صحبت کے سلسلے ہیں جیسا کہ حدیث کا سلسلہ بھی ہوتا ہے۔پس جو آپ صلی اللہ علیہ والہ سلم سے تربیت حاصل کرچکا۔پھر اس سے جو تربیت حاصل کرچکا اور اس طرح ہوتے ہوتے موجودہ دور تک بات آجائے تو اس کو سلسلہ کہتے ہیں۔

سوال: آپ فرمارہے تھے کہ سارے سلسلے حضورصلی اللہ علیہ والہ سلم کی طرف سے آئے ہیں تو پھر تو سب کا سلسلہ ایک ہونا چاہیئے ان سلسلوں میں فرق کیوں ہے؟

جواب:جیسا کہ میں پہلے کہہ چکا ہوں کہ تصوف فقہ الباطن ہے تو جیسا کہ فقہ الظاہرمیں ہے کہ گوسب سلسلے آپ صلی اللہ علیہ والہ سلم سے شروع ہوئے ہیں لیکن جن جن اکابرین نے ان فقہوں کی تدوین کی ان کے نام سے ان کی فقہ چلی۔ مثلاً فقہ حنفی، فقہ شافعی وغیرہ۔ اسی طرح فقہ الباطن میں بھی جو جو اپنے اپنے سلسلوں کی تدوین میں نمایاں ثابت ہوئے ان کے نام سے ان کے سلسلے موسوم ہوئے مثلاً چشتیہ ،نقشبندیہ ،قادریہ اور سہروردیہ وغیرہ۔

سوال: ان کے اندر فرق کیا ہے ؟

جواب: ان میں اصل فرق اصلاح کے لیے استعمال ہونے والے ذرائع میں ہے۔طب میں اس کی مثال حکمت ،ایلوپیتھی ،ہومیو پیتھی وغیرہ ہے یعنی جس طرح علاج کے ان مختلف طریقوں سے ایک ہی چیز یعنی صحت مطلوب ہے لیکن اس صحت کو حاصل کرنے کے طریقوں میں پھر فرق ہوتا ہے۔ ہر ایک کے اپنے ذرائع اور اپنے اصول ہیں اسی طرح ان سلسلوں میں مطلوب تو ایک ہی ہے یعنی روحانی صحت لیکن ان کے لیے ذرائع میں ہر ایک کی اپنی تفصیل ہے اور بعض اصولوں میں بھی اختلاف ہوسکتا ہے۔

سوال: اصولوں میں؟ مثلاً کیا اختلاف ہوسکتا ہے ؟

جواب: ایک اصول مثلاً یہ ہے کہ جب روشنی آجاتی ہے تو ظلمت بھاگ جاتی ہے اس لیے اگر اچھی چیزیں سالک میں آئیں گی تو ان کے متضاد یعنی بری چیزیں ختم ہوجایں گی۔یہ اصول تو نقشبندیہ کا ہے اس لیے یہ حضرات پہلے سے ہی ذکر پر لگادیتے ہیں کہ اس کے نور سے رذائل ختم ہوجائیں دوسرا اصول یہ ہے کہ برتن اگر میلا ہو تو اس میں دودھ بھی ڈالا جائے گا تو وہ خراب ہوجائے گا۔یہ اصول چشتیہ کا ہے کہ وہ پہلے مجاہدات کے ذریعے تکبر کو زائل کرادیتے ہیں۔آخر میں جب تکبر ختم ہوجاتا ہے تو تھوڑی سی توجہ اور ذکر سے بھی سالک واصل ہوجاتا ہے۔ دونوں اصول بڑے کام کے ہیں بات صرف مناسبت کی ہے جس کو جس طریقے سے مناسبت ہو اس کو اسی طریقے سے زیادہ فائدہ ہوتا ہے۔

سوال: یہ اویسی سلسلہ کیا ہوتا ہے؟

جواب: اویسی سلسلہ تو کوئی نہیں ہوتا البتہ اویسی نسبت ہوسکتی ہے۔اس کا مطلب یہ ہوتا کہ کسی بزرگ کی روح سے براہ راست روحانی استفادہ کیا جائے۔ایسا ممکن ہے لیکن یہ آگے کسی اور کو منتقل نہیں کی جاسکتی ۔ہاں اگر کسی کو کسی سلسلہ میں نسبت علیحدہ حاصل ہو تو وہ نسبت اویسی نسبت کی وجہ سے قوی ہوجاتی ہے۔اس کی مثال حدیث اور خواب میں آپ صلی اللہ علیہ والہ سلم کی زیارت کا ہے۔آپ صلی اللہ علیہ والہ سلم کی خواب میں زیارت تو ہوسکتی ہے لیکن اس سے اس صاحب خواب کو تو فائدہ ہوتا ہے لیکن اس خواب میں اگر اس نے آپ صلی اللہ علیہ والہ سلم سے کچھ سنا ہے تو اس کا حدیث شریف کا درجہ نہیں ہوگا کیونکہ وہ متعدی نہیں ہے۔

سوال: یہ سالک اور واصل کیا ہوتا ہے؟

جواب: سلوک راستے کو کہتے ہیں لیکن اصطلاح میں سلوک سے مراد تصوف کا طریقہ ہے۔ سالک راستے پر چلنے والے کو کہتے ہیں لیکن یہاں اصطلاح میں سالک سے مراد راہِ طریقت پر قدم رکھنے والا ہے۔ واصل سے مراد سیر الی اللہ کو ختم کرنے والا ہوتا ہے۔

سوال: یہ ایک اور نئی بات آگئی سیر الی اللہ کی۔اس کے بارے میں بھی جاننا چاہتا ہوں؟

جواب:جب رذائل یعنی روحانی بیماریوں سے قلب شفایاب ہوجائے اور ضروری فضائل سے قلب آراستہ ہوجائے تو اس سے سیر الی اللہ کاختم ہونا مراد لیا جاتا ہے۔

سوال: کیا اس کے بعد کام ختم ہوجاتا ہے ؟

جواب: نہیں۔کام کہاں ختم ہوتا ہے بلکہ اس کے بعد تو کام شروع ہوتا ہے۔جس طرح بیماری سے جب انسان شفایاب ہوجاتا ہے تو اس کے بعد کام کرنے کے قابل ہوجاتا ہے اور پھر وہ کام کرنا شروع کردیتا ہے۔اسی طرح سیر الی اللہ ختم ہونے کے بعد اصل کام شروع ہوجاتا ہے یعنی اس وظیفے کا پورا کرنا جس کے لیے جن اور انسان کو پیدا کیا گیا ہے یعنی عبادت اخلاص کے ساتھ۔اس کو سیر فی اللہ کہتے ہیں جس کی کوئی حد نہیں ہوتی۔

سوال: کیا مریداپنے شیخ سے درجات میں بڑھ سکتا ہے ؟

جواب: جی ہاں ،سیر فی اللہ میں جو جتنا آگے بڑھے ،اللہ کا فضل ہے اور بندے کی ہمت۔ آخر شیخ عبد القادر جیلانی (رحمۃ اللہ علیہ) اور حضرت مجدد الف ثانی (رحمۃ اللہ علیہ) بھی تو کسی کے مرید تھے۔

سوال: تصوف میں جو مقاصد ہیں ان کو حاصل کرنے کا طریقہ کیا ہے؟

جواب: دو قسم کے ذرائع ہیں جن سے کام لیا جاتا ہے : (1) مجاہدہ کا استعمال کرنا (2) فاعلہ کا استعمال کرنا ان میں بعض فاعلات ایسے ہیں کہ ان سے نقصان کا اندیشہ نہیں ہوتا اور بعض میں نقصان کا اندیشہ ہوتا ہے۔

سوال: فاعلہ کی بعض اقسام میں اگر نقصان کا اندیشہ ہو تو پھر یہ طریقہ اختیار ہی کیوں کیاجائے؟ بالفاظ دیگر یہ خطرہ مول ہی کیوں لیا جائے؟

جواب: جیسا کہ پہلے عرض کیا گیا ہے کہ تصوف طب کی طرح ہے پس جس طرح طب میں پہلے علاج کے بے خطر طریقے اختیار کئے جاتے ہیں اگر ان سے کام ہوجائے تو بات ختم، نہیں تو بعض اوقات علاج کی خطرناک صورتوں کو بھی اختیار کرنا پڑتا ہے۔لیکن اس صورت میں ڈاکٹر کمال ہوشیاری سے اس خطرے کو کم سے کم کرنے کی کوشش کرتا ہے جیسے ‘Steroids’ سٹیرائڈز کا استعمال۔اسی طرح سلوک میں بھی سالک کی حالت ایسی ہو کہ اس کے لیے ایسے طریقوں کی ضرورت پڑے جن میں نقصان کا اندیشہ ہو تو ان کو احتیاط کے ساتھ استعمال کیا جاتا ہے۔۔

سوال: غلبہ حال میں شرع کو چھوڑ دینے سے معذور ہونے کی وضاحت کریں؟

جواب: اچھا سوال ہے۔ بعض دفعہ کسی حال مثلاً محبت ، خوف وغیرہ کا دل پر ایسا غلبہ ہوجاتا ہے کہ وقتی طور پر عقل کا م نہیں کرتی۔چونکہ انسان شریعت کا اس وقت مکلف ہوتا ہے جب عقل کام کرتی ہو اس لیے ایسی حالت میں ممکن ہے کہ وہ شریعت پر مکمل عمل نہ کرسکے۔ پس اگر وہ اس حالت میں کہ اس کی عقل کام کر رہی ہوتی اور شریعت پر عمل نہ کر رہا ہوتا تو گنہگار ہوتا لیکن اب چونکہ عارضی طور پر اس کی عقل جزوی طور پر کام نہیں کررہی ہے اس لیے اس وقت وہ گنہگار تو نہیں ہے لیکن قابل اقتدائ بھی نہیں ہے۔

سوال: تصوف کے ذرائع میں مجاہدہ کو بھی ایک ذریعہ بتایا جاتا ہے یہ مجاہدہ کیا ہوتا ہے ؟

جواب: نفس جن خواہشات کی وجہ سے اعمال میں رکاوٹ بنتا ہے ان کے توڑ کے لیے ان کو ضرورت کے درجے تک لانے کے لیے مناسب وقت تک ان خواہشات کی تکمیل سے نفس کو اس حد تک روکنا کہ وہ اعمال کے کرنے میں رکاوٹ نہ بنے، مجاہدہ کہلاتا ہے۔ یہ دو قسم کا ہوتا ہے۔ ایک مجاہدہ جسمانی کہ نفس کو مشقت کا عادی کیا جائے مثلاً تکثیر نوافل سے نماز کا عادی ہونا اور روزہ کی کثرت سے حرص طَعام کو کم کرنادوسری قسم ہے معصیت کے تقاضے کی مخالفت۔ اصل مجاہدہ یہی دوسرا ہے اور پہلا اس کے حاصل کرنے کا ذریعہ ہے۔

سوال: وہ کونسی خواہشات ہیں جن کے لیے نفس اعمال میں رکاوٹ بنتا ہے؟

جواب: ویسے تو بہت سی ہیں لیکن علماء نے ان کو تین قسموں میں تقسیم کیا ہے۔ 1حب جاہ :یعنی بڑا اور ممتاز ہونے کی خواہش -2 حب باہ :۔یعنی لذات حاصل کرنے کی خواہش۔ -3 حب مال :۔یعنی بہت مالدار ہونے کی خواہش۔

سوال: مال تو اس لیے جمع کیا جاتاہے کہ آدمی بڑا بنے اور لذتوں کو حاصل کرے تو پھر حب مال کا الگ شعبہ کیوں بنا ؟

جواب: جی نہیں۔ہر دفع ایسا نہیں ہوتا اس لیے بعض لوگ مال کو جمع کرنے کی کوشش میں اپنی عزت کوبھی داؤ پر لگادیتے ہیں مثلاً ڈوم وغیرہ اور بعض اوقات مال کے ساتھ اتنی محبت ہوجاتی ہے کہ اس کو اپنے آرام کے لیے بھی استعمال نہیں کیا جاتا جیسے بنیئے کا یہ عمل کہ چمڑی جائے پر دمڑی نہ جائے ۔

سوال: آج کل کے دور میں مال کی محبت کو کم کرنے کا کیا طریقہ ہے ؟

جواب:کم از کم یہ طریقہ ہے کہ جن کو مال کی محبت ہے ان کی صحبت سے دور رہے متوکلین کی صحبت اور موت کی یاد اس میں زیادہ تر معاون ہوسکتی ہے نیز دنیاداروں کی صحبت سے حتی الوسع اجتناب کرنا چاہیئے ۔رفاہی کاموں میں مخلصین کے مشورے سے ریا سے بچتے ہوئے حصہ لینا بھی مفید ہے۔ ایسے لوگوں کے واقعات زیادہ پڑھیں جو مال کی محبت سے بچتے ہیں اور اللہ تعالی کے راستے میں مال کو خرچ کرتے ہیں اور مال کی محبت سے اپنے آپ کوبچاتے ہیں اور پھر سلوک سب سے بڑا راستہ ہے جب یہ طے ہوجاتا ہے ۔ اور انسان کا دل اللہ کے ساتھ لگ جاتا ہے تو مال کی محبت دور ہوجاتی ہے ۔

سوال: آجکل کے دور میں گھر ،گاڑی اور دوسری چیزوں کی محبت کو کیسے کم کیا جاسکتا ہے؟

جواب: ضرورت کے درجہ میں ان کا حصول ممنوع نہیں ہے۔ضرورت سے زیادہ ہو تو اس بات کو سوچا کرے کہ کتنے لوگ ہیں کہ ان کی ضروریات بھی پورے نہیں ہیں ۔بجائے اس کے میں اپنے آپ کو غیر ضروری چیزوں میں پھنساؤں مجھے لوگوں کی بنیادی ضرورتوں کو پورا کرنا چاہیئے تاکہ اﷲ تعالیٰ مجھ سے راضی ہوجائے اور یہ بھی سوچے کہ دنیا ارمان پورے کرنے کے لئے نہیں ہے۔ اعمال پورے کرنے کے لئے ہے ۔ہمارے ارمان تو جنت میں پورے ہوں گے ان شاء اﷲ یہاں تو گزارہ کرنا ہے۔اس لئے یہ سوچے کہ جو چیزیں میں یہاں چاہتا ہوں اور وہ مجھے میسر نہیں ان کی وہاں حصول کے لئے جو میرے پاس یہاں میسر ہیں یعنی اعمال کرنے کی صلاحیتیں ان کو بروئے کار لاکر ان نعمتوں کو وہاں حاصل کرنے کی کوشش کروں ۔

سوال: کیا مجاہدات میں ان خواہشات کی تکمیل سے بالکل روکاجاتا ہے؟

جواب: نہیں۔ضرورت کے درجے میں اجازت دی جاتی ہے اور ضرورت ہر ایک کی مختلف ہوتی ہے۔جس کی اصلاح نہیں ہوئی اس کو تو بعض اوقات جائز خواہشات کی تکمیل سے بھی روکا جاسکتا ہے۔

سوال: جائز خواہشات کی تکمیل سے کیوں ؟ کیا یہ شریعت میں مداخلت نہیں ؟

جواب: ہر گز نہیں۔یہ اصلاح کے لیے ایک عارضی عمل ہے جیسا کہ فوج کی تربیت میں بعض دفعہ فوجیوں کو عام کھانا بھی نہیں دیا جاتا یا ناکافی دیا جاتا ہے یا معیاری نہیں دیا جاتا۔ حالانکہ آرمی کے پاس کھانے کو کیا نہیں ہوتا؟بلکہ یہ اس لیے کہ جنگ میں اگر ناخوشگوار حالات پیش آئیں تو اس کے لیے یہ تیار ہوجائیں۔شریعت میں بھی اس کی نظیر موجود ہے۔ روزہ میں جائز کھانا پینا اور نفسانی خواہش کی تکمیل ایک معین وقت کے لیے روکی جاتی ہے تاکہ اس سے تقویٰ حاصل ہو۔سب سے بڑھ کر یہ کہ سب اسی لیے کرایا جاتا ہے کہ شریعت پر عمل کرنا آسان ہوجائے۔ دوسری تشریح اس کی یوں ہے کہ جیسے ایک کاغذ کولپیٹا جائے اب اس کو سیدھا رکھنے کی کوشش کی جائے گی تو ناکامی ہوگی۔اس کے لیے کاغذ کو دوسری سمت میں لپیٹنا پڑتا ہے جس سے کاغذ بالکل سیدھا ہوسکتا ہے۔اسی طرح جو نفسانی خواہشات میں پوری طرح گھرا ہوا ہو ،عارضی طور پر اسے جائز خواہشات کی تکمیل سے بھی بغرض علاج روکا جاتا ہے۔

سوال: اس مجاہدہ کو پھر کب ساقط کیا جاتا ہے؟

جواب: جب اصلاح ہوجائے تو پھر صرف ناجائز سے روکا جاتا ہے جائز خواہشات کی تکمیل پر کوئی پابندی نہیں رہتی جیسے افطار کے وقت ہوتا ہے۔

سوال: آجکل کے دور میں مجاہدے کی ضرورت کس حد تک ہے؟

جواب: ہر دور میں اس حد تک مجاہدے کی ضرورت رہتی ہے کہ نفس کی خواہش شریعت کے حکم پر غالب نہ آسکے کیونکہ مجاہدے سے نفس کا شریعت سے بغاوت کو توڑنا ہوتا ہے۔بغیر مجاہدے کے نفس کی اصلاح نہیں ہوسکتی ۔ دل کی اصلاح البتہ ذکر کے ذریعے ہوسکتی ہے ۔ لیکن ذکر سے نفس کی اصلاح نہیں ہوتی ۔ تو نفس کی اصلاح کے لئے تو مجاہدے کی ضرورت ہے ۔ اور آج کل نفس ہی زیادہ بے لگا م ہے ۔ اس وجہ سے مجاہدے کی ضرورت ہے۔دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ آجکل مجاہدے کے لئے مشکل سے آمادہ ہوتا ہے۔اس لئے مجاہدے پر زور مسلسل کم ہورہا ہے نتیجہ ہم سب کے سامنے ہے۔میرے پاس ایک سالک آئے اور کہا کہ میں نْقشبندیہ سلوک سارا طے کرچکا ہوں لیکن رمضان میں کیبل سے جان نہیں چھوٹی اور رو پڑا ۔میں نے کہا کہ تو نے ذکر کا سلوک تو طے کیا ہے مجاہدہ کانہیں کیا اسلئے تیرا دل تو صالح ہے تبھی تو اپنی کیفیت پر روتے ہو لیکن نفس کی چمک ابھی نہیں گئی اس لئے اس کے سامنے بے بس ہو۔اس سے معلوم ہو اکہ مجاہدے کی ضرورت آج بھی ہے لیکن اس کی کیفیت آج کل کے حالات کے مناسب ہونا چاہیئے ۔ اس طرح ہر ایک کا مجاہدہ ایک جیسا ہوتا بھی نہیں ہے ۔ مثلا ایک آدمی ہے جو کبھی بھی بازار سے سودا سلف نہیں لایا ۔ اس کے لئے یہی مجاہدہ ہے کہ آپ اس کو بازار بھیج دیں کہ آپ سودا لے آئیں یہ اس کے لئے بہت بڑا مجاہدہ ہوگا ۔ اور کسی کو آپ کہہ دیں کہ آپ باہر آجائیں اور گیٹ پر کھڑے رہیں او رجو جو باہر آتا رہے اس کو سلام کریں اور اس کو رخصت کریں۔یہ بھی بعض کے لئے مجاہدہ ہوتا ہے ۔

سوال: مجاہدہ کیسے کیا جاتا ہے ؟

جواب: مجاہدہ میں مندرجہ ذیل چار چیزوں پر کنٹرول کیا جاتا ہے:

(1) کھانا پینا
(2) سونا
(3) بولنا
(4) ناجنس (جن لوگوں سے ملنے جلنے سے دل کا نقصان ہوتا ہو)سے ملنا جلنا

ان میں کمی بیشی سالک کی حالت اور قوت کے مطابق کی جاتی ہے۔ تاہم آج کل قوت کی کمی کی وجہ سے یہ دونوں مجاہدات یعنی کم سونا اور کم کھانا تقریباًمتروک ہوچکے ہیں۔ البتہ بعض لوگوں کے لیے اس کو برقرار بھی رکھا جاسکتا ہے۔ یہ اصل میں شیخ کی تشخیص اور صوابدید پر منحصر ہے۔البتہ یہ جو دو باقی مجاہدات ہیں یعنی کم بولنا اور ناجنس سے کم ملنا جلنا یہ برقرار ہیں بلکہ آج کل ان کی اور بھی زیادہ ضرورت ہے۔

سوال: کم کھانے اور کم سونے کا مجاہدہ متروک ہوچکا ہے؟ کیا مطلب ؟

جواب: پہلے یہ دو مجاہدے کافی کرائے جاتے ہیں اب اس پر باوجوہ زور نہیں دیا جاتا لیکن اس میں تفصیل ہے ۔اگر کسی کے کھانے کی طلب اتنی ہو کہ وہ اس کی صحت کے لئے نقصان دہ ہو یا شریعت کے حکم کو تڑواسکتی ہو تو اس کے لئے متروک نہیں ہے بلکہ لازم ہے تاہم اس کے لئے یہی مجاہدہ کافی ہوگا کہ وہ اس کو اعتدال پر لے آئے ۔ڈاکٹر حضرات کہتے ہیں کہ ہماری جسم کی ضرورت تو بہت کم کھانے سے بھی پوری ہوجاتی ہے باقی تو ہم مستی کرتے ہیں۔بس اس مستی سے نکلنے والا مجاہدہ باقی ہے۔اس طرح ہم ضرورت سے زیادہ سونے کے عادی ہوتے ہیں ۔اس کو ضرورت تک سونے کو محدود کرنا مجاہدہ ہوگا۔اعتدال پر لانے کے لئے اگر تربیتی مجاہدے کی ضرورت ہو تو کم کھانے کا مجاہدہ یوں کیا جاسکتا ہے کہ ایک ہفتہ کھایا جائے اور ایک ہفتہ مجاہدہ کیا جائے۔یہ صوم داؤدی کے مشابہ ہے اور انتہائی مفید ہے کیونکہ اس میں مجاہدہ بڑھ جاتا ہے لیکن کمزوری نہیں ہوتی تو مجاہدے کا فائدہ تو حاصل ہوجاتا ہے لیکن نقصان سے بچ جاتا ہے۔

سوال: یہ کم بولنے کا مجاہدہ سمجھ میں نہیں آیا ؟نہ بولنے میں کیا مشکل ہے؟

جواب: کمال ہے۔آپ دیکھتے نہیں یہ جھوٹ بولنا اور غیبت کرنا آخر کیوں ہوتا ہے ؟اگر آدمی بغیر شرعی ضرورت کے نہ بولے تو پھر جھوٹ اور غیبت کا وجود ہی ختم ہوجائے لیکن یہی بولنے کی جو خواہش ہے بعض دفعہ گناہ پر مائل کردیتی ہے اس لیے اس مجاہدے کی ضرورت ہے۔جن کو بولنے کی خواہش ہو ان کے لیے یہی مجاہدہ سب سے مشکل ہوتا ہے۔آپ دیکھتے نہیں کہ شعراء اپنی شاعری سنانے کے لیے کتنے جتن کرتے ہیں ؟ آخر وہ بھی تو یہی بولنے کا شوق ہے نا!

سوال: کیا مجاہدات صرف یہی ہیں جن کا آپ نے ذکر کیا ہے یا ان کے علاوہ اور بھی ہیں؟

جواب: اوپر جن مجاہدات کا ذکر ہے وہ اختیاری ہیں البتہ غیر اختیاری یا اضطراری مجاہدہ بھی ہوتا ہے اور یہ فائدہ میں اختیاری مجاہدہ سے بڑھا ہوا ہوتا ہے۔ کیونکہ اختیاری مجاہدہ انسان کی تجویز سے ہوتا ہے اور غیر اختیاری مجاہدہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوتا ہے۔اللہ تعالیٰ انسان کی حالت کو خود انسان سے زیادہ جانتا ہے اس لیے اس میں فائدہ زیادہ ہے۔

سوال: اگر غیر اختیاری مجاہدہ زیادہ مفید ہے تو کیا اس کے لیے دعا بھی کی جاسکتی ہے؟

جواب: نہیں۔اللہ تعالیٰ سے عافیت طلب کرنی چاہیئے۔اسی میں عاجزی ہے اور عاجزی اللہ تعالیٰ کو زیادہ پسند ہے۔

سوال: اگر کسی صاحب پر غیر اختیاری مجاہدہ آجائے تو اس وقت وہ کیا کرے ؟

جواب: اگر اللہ تعالیٰ خود کسی پر غیر اختیاری مجاہدہ بھیج دیں تو اس کو پھر صبر کرنا چاہیئے۔اگر وہ تکلیف قابل دفع ہو تو اس کو دفع کرنے کی جائز کوشش کی جائے اور اس کے لیے دل سے دعا کی جائے اور اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کیا جائے۔ البتہ زبان سے کوئی حرف شکایت ادا نہ ہو۔ “اِنَّا لِلہِ وَ اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ ” کی تلاوت اس وقت کی دعا ہے اور اگر وہ مصیبت قابل دفع نہ ہو تو اس پر صبر کرنا ہی اس وقت کا تقاضا ہے۔اس وقت استقامت کی دعا کرنی چاہیئے اور مندرجہ بالا دعا اس وقت کی بھی دعا ہے۔

سوال: اختیاری مجاہدہ اور رہبانیت میں کیا فرق ہے ؟

جواب: اختیاری مجاہدہ کو دین نہیں سمجھا جاتا ہے صرف بضرورت کیا جاتا ہے جب ضرورت نہ رہے ترک کردیا جاتاہے ۔اس کے مقابلے میں رہبانیت میں اپنے آپ کو ایذا دینا دین سمجھا جاتا ہے ۔یہ اسلام میں نہیں ہے۔

سوال: آج کل کے دور میں مجاہدہ کیسے کرایا جاتا ہے؟

جواب: یہ شیخ کے اجتہاد پر موقوف ہے اس لئے اس کا عام قاعدہ سمجھا نا ممکن نہیں۔ ہر شخص کے مجاہدے کا معیار الگ ہے ۔ حالات کے مختلف ہونے کی وجہ سے ہر ایک کا مجاہدہ مختلف ہوتا ہے بہر حال مجاہدے کی ضرورت ہر دور میں ہے اور ہوتا ہے ۔ اور یہ شیخ کی بصیرت پر ہوتا ہے کہ وہ کسی کو کونسا مجاہدہ دیتا ہے ۔ البتہ اس میں ایک چیز میں آپ کو بتاؤں کہ لوگ کہتے ہیں کہ ہم مجاہدہ کریں لیکن جب مجاہدہ آتا ہے تو پھر اس سے بھاگتے ہیں ۔ گویا ان کا جی چاہتا ہے کہ ہمیں اپنی مرضی کے مجاہدے کے لئے کہا جائے تو پھر یہ تو مجاہدہ نہیں ۔ جس چیز میں اپنی مرضی شامل ہو وہ مجاہدہ نہیں ہوتا ۔ مجاہدہ تو وہی ہے جو آپ کی طبیعت کے خلاف ہو ۔ نفس کے خلاف ہو ۔ تو تبھی وہ مجاہدہ ہوتا ہے ۔بعض دفعہ کسی کے لئے جو مجاہدہ ہو تا ہے وہ دوسرے کیلئے مجاہدہ نہیں ہوتا ۔اس لئے اس کا فیصلہ شیخ پر چھوڑنا چاہیئے ۔

سوال: آجکل کے دور میں خلوت کا کیا طریقہ ہے؟

جواب: خلوت کا مطلب آنکھوں، کانوں اور زبان کو عمومی ماحول سے منقطع کرنا ہوتاہے۔یہ جس وقت جس طرح بھی میسر آئے، خلوت ہے بشرطیکہ اس سے شہرت اور خشکی نہ ہو۔آج کل کے دور میں اس پر عمل یوں ہوسکتا ہے کہ یا تو کسی باشرع شیخ کی رہنمائی میں خانقاہ میں قیام کرے یا کسی مسجد میں بنیت خلوت و عبادت اعتکاف کرے یا پھر جہاں خلوت گاہیں ہوں وہاں وقت گزارے اور یہ آج کل بہت کم ہیں البتہ موجود ہیں تلاش پر مل سکتی ہیں ۔

سوال: نفلی روزےرکھنا کیا کم کھانے کے مجاہدے کا بدل ہوسکتا ہے ؟

جواب: کیوں نہیں ۔تاہم اس کو مجاہدے کی نیت سے جب کرنا ہو تو سحری اور افطار میں مستی کے کھانے کی بجائے ضرورت کے درجے میں کھانا کھایا جائے۔

سوال: آپ نے ذرائع میں فاعلہ کا ذکر بھی کیا تھا یہ کیا ہوتا ہے ؟

جواب:انسان کے اندر اللہ تعالیٰ نے عجیب قوتیں رکھی ہیں۔چنداعمال ایسے ہوتے ہیں جن سے یہ قوتیں برانگیختہ ہوجاتی ہیں۔مثلاً مسمریزم وغیرہ سے انسان عجیب عجیب کا م لے سکتا ہے۔اس طرح کسی چیز کا تکرار اور تصور بھی ایسی قوتیں ہیں جن کو نفسیات اور کیفیات میں بڑا دخل ہے۔ذکر ،شغل اور مراقبہ ان ہی دو قوتوں کے استعمال کے نمونے ہیں جن سے انسان کیفیات حاصل کرسکتا ہے۔ذکر شغل اور مراقبہ اختیاری اعمال ہیں اور کیفیات غیر اختیاری۔لیکن یہی غیر اختیاری کیفیات بعض اختیاری اعمال کے لیے ذریعہ بن جاتی ہیں اس لیے ذکر ،شغل اور مراقبہ خود ان مقاصد کے ذرائع بن گئے۔ ان اعمال کو فاعلہ کہتے ہیں۔

سوال: ذکر کا کیا مطلب ہے؟

جواب:اللہ تعالیٰ کی یاد کو ذکر کہتے ہیں۔

سوال: کیا مسنون تسبیحات بھی ذکر ہیں ؟

جواب:مسنون تسبیحات بھی ذکر ہی ہیں۔ اس کی مثال غذا کی ہے البتہ اس کے علاوہ بعض اذکار ہیں جو علاج کے طور پر استعمال ہوتے ہیں۔ان کی مثال دوا کی ہے۔یہاں ذریعہ کے طور پر جس ذکر کے بارے میں کہا گیا وہ یہی علاج والا ذکر ہے۔

سوال: ذکر سے علاج کیسے ہوتا ہے؟

جواب:ذکر سے اللہ تعالیٰ کی محبت حاصل کی جاتی ہے اور محبت تمام فضائل کی کنجی ہے۔نفی اثبات میں تمام بری محبتوں کی نفی کی جاتی ہے۔جتنا جتنا یہ ذکر دل و دماغ میں رچے گا اتنی اتنی غیر کی محبت دل سے نکلے گی اور اللہ تعالیٰ کی محبت دل میں آئے گی اور بندے کی اصلاح ہوتی رہے گی۔

سوال: ذکر کیسے کرنا چاہیئے؟

جواب:اس کا جواب یہاں مشکل ہے کیونکہ یہ ہر شخص کی حالت پر منحصر ہوتا ہے اس لیے کوئی عام قانون اس کے بارے میں نہیں بتایا جاسکتا۔اسی لیے تو شیخ کا ہاتھ پکڑا جاتا ہے۔ ذکر زبان سے بھی ہوتا ہے دل سے بھی ہوتا ہے ،سانس سے بھی ہوتا ہے ۔ جس کے لیے جو اور جیسے مناسب ہو وہ بتایا جاتا ہے اور پھر اس کی نگرانی کی جاتی ہے تاکہ اس کے ثمرات حاصل ہوسکیں۔

سوال: آپ نے فرمایا تھا کہ ذکر دل سے بھی ہوتا ہے۔کیا یہ ممکن ہے ؟

جواب:جی ہاں یہ ممکن ہے اور انتہائی لذیذ اور مفید ذکر ہے۔

سوال: اس کی کچھ مزید تفصیل بتاسکتے ہیں ؟

جواب:جی ہاں ،اس کو حاصل کرنے کے طریقے ہیں۔نقشبندیہ میں یہ ابتدا میں تلقین کیا جاتا ہے جبکہ چشتیہ میں کچھ تیاری کے بعد یہ تلقین کیا جاتا ہے ۔اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ یہ ہر وقت اور ہر جگہ ہوسکتا ہے۔ اس لیے ذکر قلبی سے آدمی دائم الذکر بن سکتا ہے۔یہی ذکر قلبی جب مزید راسخ ہوجاتا ہے تو اس کا اثر جسم کے دوسرے حصوں میں سرایت کرجاتا ہے اور مختلف مقامات پر اس کا اثر محسوس ہونے لگتا ہے۔اس وقت ان کو لطائف کا جاری ہونا کہتے ہیں۔

سوال: کشف تو بڑی مفید چیز ہے تو پھر یہ مقصود کیوں نہیں ؟

جواب:ہمارا مقصد چونکہ اللہ تعالیٰ کو راضی کرنا ہے جس کے لیے کشف کا ہونا ضروری نہیں۔ اس لیے مقصود کیسے ہوسکتا ہے ؟ جہاں تک اس کے مفید ہونے کا تعلق ہے تو وہ اس کے استعمال پر موقوف ہے بعض کے لیے نعمت ہوتا ہے بعض کے لیے آزمائش۔اس لیے جن کو خود بخود حاصل ہوجائے وہ تو اس کی قدر کریں اور اس کا صحیح استعمال کریں اور جن کو نہ دیا جائے وہ اس پر شکر کریں اور اس کے نہ ملنے کی کوئی پرواہ نہ کریں۔

سوال: کشف ہوتا کیا ہے ؟

جواب:کشف کا مطلب کسی چیز کا پردہ سے باہر آجانا۔اس کی دو قسمیں ہیں۔ایک قسم تکوینی، یعنی ماضی ،حال ،مستقبل کی کسی بات یا کام کا پتہ چلے یا دور و نزدیک کسی بات یا چیز کا پتہ چلے جس کو عام لوگ اپنے عام حواس سے معلوم نہ کرسکیں۔دوسری قسم علمی، جس میں کسی بات کے صحیح اور درست ہونے کا پتہ چلے۔یہ دوسری قسم کا کشف بہت مفید ہے اس کی دعا بھی کرنی چاہیئے۔اس کو شرح صدر کہا گیاہے۔قُرآن میں اس کی دعا رب الشرح لی صدری حضرت موسیٰ علیہ السلام سے ثابت ہے۔

سوال: یہ آخری کشف تو پھر مقصود ہوا نا پھر اس کو غیر مقصود کیسے کہہ سکتے ہیں؟

جواب:میں نے یہ کہا ہے کہ اس کے لیے دعا کی جاسکتی ہے یہ مفید ہے پھر اللہ تعالیٰ جس کے لیے جو مناسب سمجھے اس پر راضی رہے۔کیونکہ اللہ تعالیٰ کے فیصلے پر راضی ہونا تصوف کے مقاصد میں سے ہے۔اللہ تعالیٰ ہر ایک کے ساتھ اس کے احوال کے مطابق معاملہ کرتا ہے اس لیے جس کو جتنے وسائل دیئے گئے ہیں اس سے اتنا ہی پوچھا جائے گا۔

سوال: آپ نے مراقبہ کے بارے میں بھی فرمایا تھا یہ کیا ہوتا ہے ؟

جواب:مراقبہ دل کی سوچ کو کہتے ہیں۔کسی مطلوب بات کا اس طریقے سے سوچنا کہ وہ مطلوب حاصل ہوجائے مراقبہ کہلاتا ہے۔انسان کی قوت تصور بہت عجیب ہے اگر اس سے کام لیا جائے تو بڑے بڑے کام ہوسکتے ہیں۔بعض حضرات اس چیز کو بہت ہلکا سمجھتے ہیں کہ سوچنے سے کیا ہوتا ہے۔وہ حضرات یہ بھول جاتے ہیں کہ مذہب میں تو سب کچھ تصور سے ہوتا ہے۔عقائد سب تصورات ہیں جو کہ دین کی اسا س ہیں۔محبت کے ہونے نہ ہونے میں تصور کو بہت دخل ہے۔فکر تصور ہی کی ایک قسم ہے جس سے اعمال وجود میں آتے ہیں۔اس لیے دل کی سوچ کو ترتیب دینے کے لیے مشائخ اس قوت سے کام لیتے ہیں۔اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ میں بندہ کے گمان کے ساتھ ہوں۔مراقبہ سے اچھے گمان کا حصول ممکن ہے۔

سوال: کیا تصور اور یقین ایک ہی چیز ہے؟

جواب:تصور باب تفعل سے ہے یعنی بتکلف کسی چیز کو ذہن میں لانا اور یقین اس چیز کو کہتے ہیں کہ اس پر دل مطمئن ہوجاتا ہے۔پس کسی چیز کو عقلی طور پر دل میں جمانے کے لیے پہلا قدم تصور کا ہوتا ہے اور اس سے یقین حاصل ہوسکتا ہے۔ مثلاً اگر کوئی یہ تصور کرنا شروع کرے کہ اللہ تعالیٰ مجھے دیکھ رہا ہے تو آہستہ آہستہ اس کی ایسی کیفیت ہوجائے گی کہ وہ یہ محسوس کررہا ہوگا کہ اﷲ اس کو دیکھ رہا ہے۔آپ صلی اللہ علیہ والہ سلم نے” احسان کیا ہے؟” کے جواب میں فرمایا تھا کہ تو ایسی عبادت کر کہ گویا تو خدا کو دیکھ رہا ہے ورنہ اتنا تو سمجھ کہ خدا تجھے دیکھ رہا ہے۔ اس میں گویا اشارہ تصور سے حاصل شدہ یقین کی طرف ہے۔

سوال: کونسا مراقبہ سب کے لیے مفید ہے ؟

جواب:عمل سے پہلے نفس کی فہمائش کا مراقبہ کہ اس کو نیک اعمال کے لیے تیار کیا جائے اس کو مشارطہ کہتے ہیں۔عمل کے بعد اپنا محاسبہ کہ وہ عمل کیسے کیا ہے ؟ پس اگر اچھا کیا ہے تو اس کو اللہ کی طرف سے سمجھ کر اس پر شکر کرنا اوراگر اس میں کوئی غلطی سرزد ہوئی ہے تو اس پر استغفار کرنا۔یہ مراقبہ روزانہ سب کو کرنا چاہیئے۔نہایت مفید ہے۔

سوال: کیا مراقبہ قُرآن و حدیث سے ثابت ہے ؟

جواب:اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔ ” وَالْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَّاقَدَّمَتْ لِغَدْ ” یعنی چاہیئے کہ دیکھ بھال لے ہر شخص کہ اس نے کل قیامت کے لیے کیا چیزآگے بھیجی ہے ؟یہ مراقبہ ہے اور اس کا حکم ہے۔اور حدیث احسان میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ سلم نے فرمایا کہ احسان یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ایسی عبادت کرو جیسے کہ تم اس کو دیکھ رہے ہو اور اگر تم اس کو نہیں دیکھتے تو وہ تمہیں دیکھ ہی رہا ہے اور فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کا دھیان رکھو اس کو اپنے سامنے پاؤگے۔

سوال:مراقبہ کا نماز کے خشوع و خضوع کے حصول میں کیا کردار ہے؟

جواب:مراقبہ سے یکسوئی حاصل ہوتی ہے اور کسی خاص کیفیت کے حصول کے لئے اپنے جسم کے تمام قویٰ کو مرتگز کرنے کا ڈھنگ حاصل ہوتا ہے ۔یہی تجربہ خشوع و خضوع کے حصول میں بھی فائدہ دیتا ہے۔مثلا مراقبہ میں یہ تصور کررہا ہے کہ اللہ پاک میرے دل کو محبت کے ساتھ دیکھ رہے ہیں تو نماز میں بھی یہ کرے کہ میں اللہ پاک کے سامنے کھڑا ہوں۔ تو یہ مراقبہ اگر اس کا پکا ہوگیا تو اس کی نماز واقعی نماز ہوگئی ۔ خضوع و خشوع کا سب سے بہترین طریقہ یہ ہے کہ انسان یہ سوچے جیسے حدیث شریف میں بھی آیا ہے کہ ‘ان تعبدو اﷲ کانک تراہ و ان لم تکن تراہ فانہ یراک ‘جب یہ چیز کسی کو حاصل ہوگئی تو اس کی نماز بھی بہترین بن جائے گی ۔

سوال:مراقبات کا کیا دنیاوی زندگی میں بھی کوئی فائدہ ممکن ہے ؟

جواب: مرقبات ذکر کی ایک صورت ہے۔اس سے دل کا سکون ملتا ہی ہے اس لئے دل کا سکون جو اس کا دنیاوی فائدہ ہے مل سکتا ہے ۔اس طرح ایک سٹوڈنٹ ہے اور وہ پڑھ رہا ہے اور اس کو پڑھائی میں اس کی توجہ مرکوز  نہیں ہورہی اگر وہ مراقبے کا عادی ہے تو مطالعہ میں اس کو توجہ حا صل ہوسکتی ہے ۔ لیکن سالک کو یہ اس مقصد کے لئے یہ نہیں کرنا چاہیئے ورنہ اصل مقصد فوت ہوجائے گا۔

سوال: شغل کا نام بھی آپ نے لیا تھا ،یہ کیا ہوتا ہے؟

جواب:دل میں جب وساوس کی وجہ سے انتشار بڑھ جائے جس سے یکسوئی فوت ہوجائے جو مبتدی کے لیے بہت ضروری ہے تو اس انتشار کو ختم کرنے کے لیے مشائخ بعض ایسے طریقے تلقین کرتے ہیں جس سے یکسوئی حاصل ہوجاتی ہے۔ایسے طریقوں کو اشغال کہتے ہیں۔

سوال: جب یکسوئی حاصل ہو تو کیا پھر بھی شغل کرسکتے ہیں ؟

جواب:جیسا کہ تعریف میں غور کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ شغل مقصود بالذات نہیں بلکہ محض ایک مقصود کیفیت کو حاصل کرنے کا ذریعہ ہے اس لیے اگر وہ کیفیت حاصل ہو تو پھر شغل کرنے کی کیا ضرورت ہے اس لیے پھر نہیں کرنا چاہیئے۔البتہ وہ مشائخ جن کو کبھی شغل سے واسطہ نہيں پڑا وہ دوسروں کو سکھانے کے لیے اس کا تجربہ کرسکتے ہیں۔

سوال: آپ کوئی آسان سا شغل بتادیں گے؟

جواب:کتابوں میں کئی قسم کے اشغال لکھے گئے ہیں لیکن جیسا کہ کہا گیا کہ یہ فی نفسہ مقصود نہیں بلکہ یکسوئی کو حاصل کرنے کے لیے ہے اس لیے اس کی جب ضرورت ہوتی ہے تو شیخ خود ہی سالک کے لیے تجویز کردیتا ہے۔اس میں موقع محل اور سالک کی کیفیت کو پیش نظر رکھا جاتا ہے اس لیے اس کے انتخاب کا فیصلہ بھی شیخ پر چھوڑنا چاہیئے۔فقط علمی طور پر ایک دو شغل کے بارے میں بتاتا ہوں تاکہ پتہ چلے کہ شغل ہوتا کیسے ہے ؟ کسی کاغذ پر دل کی ایک خوبصورت تصویر بنایئے۔اس پر خوبصورت الفاظ سے لفظ اللہ لکھ دیجیئے۔پھر اس کو روزانہ کچھ وقت مقرر کرکے دیکھا کریں جس سے قلب پر اللہ کی تصویر کا تصور قائم ہوجائے جس سے یکسوئی حاصل ہوتی ہے۔اس طرح یہ تصور بھی کیا جاتا ہے کہ میرے ہر بال سے اللہ ھو کا ذکر ہورہا ہے۔اس کی تفصیل میری کتاب فھم التصوف میں ملاحظہ کی جاسکتی ہے۔

سوال: ذرائع کے بارے میں آپ نے بعض ایسے فاعلات کا ذکر کیا تھا جن میں نقصان کا اندیشہ ہوتا ہے وہ کونسے ہیں ؟

جواب:جن فاعلات میں نقصان کا اندیشہ ہے۔ان میں تصور شیخ ،سماع اور عشق مجازی ہیں۔

سوال: جب ان میں نقصان کا اندیشہ ہے تو پھر آخر ان کا استعمال کیوں کیا جاتا ہے؟

جواب:جی ہاں ان کے استعمال میں بہت احتیاط چاہیئے۔یہ الگ بات ہے کہ ان کو دواؤں کی فہرست سے نکال نہیں سکتے کیونکہ بعض صورتوں میں ان سے احتیاط کے ساتھ استفادے کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔عام دواؤں میں ان کی مثال سٹیرائڈز کی طرح ہے کہ ان کے استعمال کے لیے بہت اعلیٰ درجے کی مہارت کے حامل ڈاکٹر کی نگرانی کی ضرورت ہوتی ہے۔عام حالات میں تو ڈاکٹروں کوان سے پرہیز کا بتایا جاتا ہے لیکن بعض اشد صورتوں میں ان کی ضرورت چونکہ پڑ سکتی ہے اس لیے ان کے بارے میں جاننا بھی ضروری ہوتا ہے۔واللہ اعلم۔

سوال: تصور شیخ کیا ہوتا ہے ؟

جواب:جیسے اپنے شیخ کی مجلس میں بیٹھ کر انسان کو خدا یاد آتا ہے اور شیخ کی اچھی عادتیں خود بخود سالک میں سرایت کرتی جاتی ہیں پس اگر شیخ کی غیر موجودگی میں ان کے ساتھ بیٹھنے کا تصور کیا جائے تو ان فوائد کو حاصل کیا جاسکتا ہے۔

سوال: کیا تصور شیخ کے ان فوائد کو احسن طریقے سے حاصل کرنے کی کوئی صورت ہے؟

جواب:ہاں۔شیخ کے دیئے ہوئے معمولات کی پابندی۔شیخ کے ملفوظات ، مکتوبات ، کتابوں کا مطالعہ،اپنے پیر بھائیوں کی مجلس میں اپنے شیخ کا تذکرہ اور شیخ کے لئے دعا وغیرہ سے یہ فوائد تو حاصل ہوجاتے ہیں لیکن نقصان نہیں ہوتا۔

سوال: سماع اکثر صوفیاء کرام کے ہاں عام ہے کچھ اس کے بارے میں بتائیں گے؟

جواب:سماع کسی اچھے کلام کو اچھی آواز میں سننے کو کہتے ہیں۔

سوال: اس کے ساتھ موسیقی کے آلات بھی ہوسکتے ہیں ؟

جواب:نہیں۔آپ صلی اللہ علیہ والہ سلم نے جب فرمادیا کہ میں آلات موسیقی کو توڑنے کے لیے مبعوث ہوا ہوں تو پھر یہ کیسے جائز ہوسکتا ہے ؟

سوال: اخلاق سے کیا مراد ہے ؟

جواب:خُلق سیرت کو کہتے ہیں جس سے مراد کسی انسان کی باطنی حالت ہے اور اخلاق اس کی جمع ہے۔پس جس کے باطنی احوال اچھے ہوں ہم اس کو خلیق کہتے ہیں یعنی اچھے اخلاق والا، اور بد اخلاق وہ ہوتا ہے جس کے باطنی احوال اچھے نہ ہوں۔

سوال: لوگ تو مروت اور خوش مزاجی کو اچھے اخلاق کہتے ہیں۔آپ کا اس کے بارے میں کیا خیال ہے ؟

جواب:جی ہاں یہ غلط العام ہے۔عام لوگ ایسے لوگوں کو ہی اچھے اخلاق والا کہتے ہیں۔ لیکن حقیقتاً ایسا نہیں ہے۔ کیونکہ بعض دفعہ یہی خوش گفتاری اور شیریں زبانی بد اخلاقی بن جاتی ہے۔ مثلاً کوئی عورت کسی نامحرم سے نرم آواز میں مخاطب ہو تو اس عورت کو ہم بد اخلاق کہتے ہیں کیونکہ شریعت اس کو حکم دیتی ہے کہ وہ نامحرم سے سخت لہجے میں بات کرے۔

سوال: اخلاق کی تعریف کو ذرا اور واضح فرمادیجئے ؟ کیونکہ اس تعریف سے تشفی نہیں ہورہی؟

جواب:جی ہاں،آپ نے ٹھیک کہا۔اصل میں اچھا اخلاق ،قوت شہوت ،قوت عقل ، قوت غضب اور قوت علم کے اعتدال کا نام ہے۔ان میں سے کسی میں بھی بے اعتدالی انسان کو بد اخلاق بنا دیتی ہے۔

سوال: قوت شہوت سے کیا مراد ہے ؟کیا اس سے مراد جنسی قوت ہے ؟

جواب:نہیں ،بلکہ یہ ایک جامع لفظ ہے۔اصل میں شہوت ہر انسان کے اندر اپنے نفع کے حصول کی خواہش ہے۔اس میں افراط اور تفریط بد اخلاقی ہے اور اعتدال اچھا خلق۔اس میں افراط سے مراد خو د غرضی ہے جس سے حرص وجود میں آتا ہے، جس سے دوسرے کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنے ،چوری ،زنا اور دوسری قسم کی حرام کاریاں وجود میں آتی ہیں۔اس میں تفریط ڈپریشن(مایوسی) اور رہبانیت وغیرہ پیدا کرتی ہے۔

سوال: یہ تو آپ نے اچھی بات کی نشاندہی فرمائی۔بعض حضرات تو تصوف کو رہبانیت سمجھتے ہیں؟

جواب:جی ہاں جاہل صوفیوں اور معاند نقادوں دونوں کا یہی خیال ہے حالانکہ جیسا کہ بتایا گیا کہ تصوف شریعت پر دل سے عمل ہے اور رہبانیت اسلام میں نہیں تو پھر تصوف میں رہبانیت کیسے ہوسکتی ہے؟

سوال: لیکن کیا صوفی تارک الدنیا نہیں ہوتے ؟ راہب بھی تو تارک الدنیا ہوتے ہیں؟

جواب:جی ہاں صوفی تارک الدنیا ہوتا ہے لیکن کونسی دنیا کا ؟ وہ دنیا جو کہ مذموم ہے اور مذموم دنیا کے ترک کی ترغیب سے تو قُرآن اور حدیث بھرے ہوئے ہیں۔تو کیا قُرآن اور حدیث میں رہبانیت کی تعلیم ہے

سوال: قوت غضب کسے کہتے ہیں ؟

جواب:یہ اپنے سے شر کو دفع کرنے کا جذبہ ہے۔اگر یہ اعتدال سے تجاوز کرجا ۓ تو آدمی ظلم اور تہور کا شکار ہوجاتا ہے جس سے معاشرے میں تباہی آتی ہے اور تفریط بزدلی کو پیدا کرتی ہے۔اس کا اعتدال دلیری ،شجاعت ،بردباری اور استقلال کو پیدا کرتاہے۔

سوال: قوت علم سے کیا مراد ہے ؟

جواب:قوت علم سے انسان کسی چیز کے بارے میں جان سکتا ہے۔یہ انسان کا طرۂ امتیاز ہے کہ اس میں علم حاصل کرنے کی صلاحیت تمام مخلوقات سے زیادہ ہے۔یہ اور بات ہے کہ یہ اپنے علم کو پھر اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے استعمال کرتا ہے یا نفس کو خوش کرنے کے لئے۔

سوال: کیا ہر طرح کا علم مفید ہے؟

جواب:نہیں۔بعض علوم مقصود ہیں۔بعض مباح ہیں اور بعض کا حاصل کرنا حرام ہے۔

سوال: کیا کسی علم کا حاصل کرنا حرام بھی ہوسکتا ہے؟

جواب:کیوں نہیں۔ کیاجادو کا علم حاصل کرناحرام نہیں؟۔اس طرح موسیقی کا علم ہے۔نفس کو خوش کرنے کے اور بھی جدید و قدیم علوم ہیں جو حرام ہیں۔

سوال: لیکن ان میں بعض علوم تو فی نفسہ اچھے ہیں لیکن ان کا استعمال اگر برا ہو تو الگ بات ہوگی۔اس علم کو تو برا نہیں کہہ سکتے؟

جواب:جی ہاں۔بعض کے ساتھ ایسا ہی ہوتا ہے لیکن بعض علوم جو ایجاد ہی حرام کاموں کے لیے ہوتے ہیں ان کا حاصل کرنا تو جائز نہیں ہوگا مثلاً موسیقی کا علم۔جادو کا علم وغیرہ۔

سوال: قوت عقل سے آپ کی کیا مراد ہے ؟

جواب:یہ انسان کی وہ صلاحیت ہے جس کے ذریعے وہ باقی دوسری قوتوں کو استعمال کرسکتا ہے۔اگر اس میں کمی ہے تو انسان کند ذہن ،غبی اور احمق قرار پاتا ہے اور اس کی افراط انسان کو مکار ،چالاک اور فریبی بناتی ہے۔اس کا اعتدال انسان کو مدبّر،رمز شناس اور ذکی بناتا ہے مثلاً قوت شہوت کی افراط انسان کو حریص بناتی ہے اور اس کو دوسروں کا حق غصب کرنے پر اکساتی ہے لیکن عقل اس کو خبردار کرتی ہے کہ اگر تو نے ایسا کیا تو اس کے نتائج اچھے نہیں ہوں گے۔ہر حکومت جو قوانین وضع کرتی ہے اس میں عقلاء سے مدد لیتی ہے جو ان دوسری قوتوں کے استعمال پر پابندیاں لگاتے ہیں۔یعنی قوت عقل کے ذریعے معاشرے میں باقی قوتوں کا توازن قائم رکھتے ہیں۔نہیں تو کوئی معاشرہ چل ہی نہیں سکتا۔ اسلام نے بھی عقل کے استعمال پر بہت زور دیا ہے۔

سوال: عقل اور علم میں کیا فرق ہے ؟

جواب:عقل اور علم میں یہ فرق ہے کہ علم کسی چیز کے جاننے کا نام ہے۔اب دو شخص اگر ایک چیز کو جانتے ہوں تو ایک عقل کے بہتر استعمال سے اس سے بہتر فوائد حاصل کرسکتا ہے اور دوسرا عقل کے کم استعمال سے اس سے کم فوائد حاصل کر پائے گا۔

سوال: کیا قوت عقل کے استعمال میں بھی افراط تفریط ہوسکتی ہے؟

جواب: جی ہاں،اس کا افراط یہ ہے کہ اپنی عقل کو کامل سمجھ کر دوسرے اعقلاء کی تحقیقات سے فائدہ نہ اٹھایا جائے یہاں تک کہ عقل کو پیدا کرنے والی ذات کی بات سے بھی بغاوت کی جائے۔یونانی حکماء کو یہی غلطی لے ڈوبی تھی۔انہوں نے اپنے آپ کو انبیاء علیہم السلام کی تعلیم سے مستغنی سمجھ رکھا تھا۔غور سے دیکھا جائے تو ان کی عقل بھی ناقص تھی جو اتنی بات بھی نہ سمجھ سکی کہ اس کائنات کا کوئی پیدا کرنے والا ہے اور وہ ایک ہے اور ہم ہر چیز میں اس کے کرم کے محتاج ہیں۔اس کی تفریط یہ ہے کہ جہاں عقل کے استعمال کرنے کا حکم ہے وہاں بھی اس کو استعمال نہ کیا جائے۔ایسے لوگوں کو بے وقوف کہتے ہیں۔اللہ تعالیٰ قُرآن پاک میں زمین و آسمان اور رات دن کے اختلاف میں غور کرنے اور اس سے صحیح نتیجہ نکالنے کی دعوت دیتے ہیں۔اب اگر کوئی ان چیزوں میں عقل کو استعمال نہیں کرتا تو اپنا نقصان کرتا ہے۔

سوال: بہت سارے غیر مسلم سائنسدانوں نے اپنی زندگیاں ان میں غور کرنے کے لیے وقف کردیں لیکن ان کو فائدہ نہیں ہوا یعنی وہ مسلمان نہیں ہوئے حالانکہ وہ غور کرتے تھے؟

جواب:جی ہاں ،یہ ایک المیہ ہے۔شیطان انسان کو وہاں تک نہیں جانے دیتا اور درمیان کی چیزوں میں الجھا کر اس کو صحیح نتیجہ نہیں نکالنے دیتا۔حضرت تھانوی (رحمۃ اللہ علیہ) نے اس کی ایک عجیب مثال دی ہے کہ ایک گاڑی آرہی ہے اور ٹی ٹی نے سرخ جھنڈی ہلا کر روک دی اور گاڑی رک گئی۔اب ایک شخص کہتا ہے کہ گاڑی بریک نے روک دی۔وہ توٹھیک کہتا ہے۔ آگے ایک شخص کہتا ہے کہ گاڑی ڈرائیور نے روک دی۔وہ بھی ٹھیک کہتا ہے۔تیسرا شخص کہتا ہے کہ گاڑی ٹی ٹی کے سرخ جھنڈی نے روک دی۔ وہ بھی ٹھیک کہتا ہے۔چوتھا شخص کہتا ہے کہ گاڑی اس قانون نے روک دی جس میں یہ کہا گیا ہے کہ سرخ جھنڈی ہلائی جائے تو ڈرائیور کو گاڑی روکنی چاہیئے۔یہ بھی ٹھیک کہتا ہے۔فرق صرف یہ ہے کہ کسی کی نظر کہاں تک جاتی ہے اور کسی کی کہاں۔اب انبیاءعلیہم السلام کی تو مسبب الاسباب پر نظر ہوتی ہے اور سائنسدانوں کی اسباب پر۔اگر کسی سائنسدان پر اللہ کا فضل ہوجائے اور علوم نبوت سے بھی اس کا سینہ روشن ہوجائے تو اس کی نظر بھی مسبب الاسباب پر ہوجاتی ہے ورنہ کورے کا کورا ہی رہتا ہے۔اللہ تعالی نے جب یہ فرمایا ”اِنَّ فِیۡ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرْضِ وَاخْتِلَافِ الَّیۡلِ وَالنَّہَارِ لَاٰیٰتٍ لِّاُولِی الۡاَلْبَابِ تو آگے فرمایا “الَّذِیۡنَ یَذْكُرُوۡنَ اللہَ قِیٰمًا وَّقُعُوۡدًا ” اس کے بعد فرمایا ”وَیَتَفَکَّرُوۡنَ ” پس ذکر کے بغیر فکر صحیح نہیں چلتی اور صحیح فکر کے بغیر صحیح فہم نہیں ملتا۔

سوال: تو اخلاق کا مدار کیا ان ہی قوتوں پر ہے ؟

جواب:اچھے اخلاق لوگوں کو تب نصیب ہوتے ہیں کہ ان قوتوں کا اعتدال نصیب ہوجائے۔ایسے شخص کو خوب سیرت کہتے ہیں۔تصوف میں یہی ہوتا ہے کہ جتنا علم ،جتنی قوت شہوت و غضب و عقل کسی کو میسر ہے ان سب کو اعتدال کے ساتھ استعمال کرنے کا طریقہ سکھایا جائے۔گویا کہ ان کو منہاج نبوت پر اپنے تمام پیمانوں کو ناپنے کا ڈھنگ آجائے۔

قال قال مصطفےٰ ہو حال حال مصطفےٰ

سوال: اب آپ سے ذرا ایک تفصیلی سوال کررہا ہوں کہ وہ کون کونسے اعمال قلب ہیں جن کا حصول اصلاح قلب میں ضروری ہے ؟

جواب:ماشاء اللہ : بہت اچھا سوال ہے۔سالک کو صبر ،شکر، تواضع، اخلاص، تفویض، رضا، حب الہٰی، حب رسول، توحید، زہد، خشوع وغیرہ کا حصول ضروری ہے اور ان کی ضد سے چھٹکارا حاصل کرنا بھی ضروری ہے۔ان کے جو اضداد ہیں ان کو رذائل کہتے ہیں مثلاً بے صبری، ناشکری، تکبر، ریاء،خودرائی، حب دنیا، شرک، حرص اور انتشار قلبی، حسد، کینہ، عُجب وغیرہ رذائل ہیں۔ان سے بچنا ضروری ہے۔

سوال: صبر سے کیا مراد ہے اور اس کو کیسے حاصل کیا جائے ؟

جواب:انسان کے اندر دوقوتیں ہیں۔ایک دنیا کی طرف راغب کرتی ہے اور دوسری دین کی طرف۔پس دین کی طرف راغب کرنے والی قوت کو ساتھ لے کر دین سے دور کرنے والی قوت کا مقابلہ کیا جائے۔یہی صبر ہے۔پس اگر مصیبت آئے تو ایک قوت اس کو اللہ سے باغی کرکے جزع فزع پر مجبور کرتی ہے اور دوسری قوت اس کو رجوع الی اللہ کی تعلیم دیتی ہے جس کی تعلیم ” اِنَّا لِلہِ وَ اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ ” میں موجود ہے۔پس اس دوسری قوت کو ساتھ لے کر اپنے آپ کو جزع فزع (چیخ و پکار، بین وغیرہ )سے روکنا یہ صبر ہے۔ اس کو تو سب لوگ جانتے ہیں۔لیکن اگر کوئی دینی تقاضا ہو تو انسان کی طبیعت پہلی قوت سے متاثر ہوکر اس سے فرار چاہتی ہے لیکن دوسری قوت اس کو اس دینی تقاضے کو پورا کرنے پر مجبور کرتی ہے۔اس وقت اس کی مان کر پہلی قوت کا مقابلہ استقامت کہلاتا ہے۔ لیکن اصطلاح میں یہ بھی صبر ہی ہے۔مثلاً روزہ میں صبر ہے جو کہ استقامت کے حکم میں ہے۔ اس کو حاصل کرنے کے لیے اس کے بارے میں قُرآن و حدیث میں آئی ہوئی تعلیمات کو سامنے رکھنا چاہیئے اور شیخ کی نگرانی میں مجاہدات کے ذریعے نفس کی تہذیب کرنی چاہیئے ۔

سوال: شکر سے کیا مراد ہے اور اس کو کیسے حاصل کیا جائے؟

جواب: کسی بھی نعمت کو منجانب اللہ سمجھ کر اس کا ممنون ہونا اوراس نعمت کو منعم حقیقی کی مرضی کے مطابق استعمال کرنا شکر ہے۔اس کو حاصل کرنے کا طریقہ یہ مراقبہ ہے کہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کرتا ہے۔ وہی سب کچھ دیتا ہے اور جب تک چاہتا ہے اس کو برقرار رکھتا ہے۔ اس کی مرضی کے بغیر کسی کا بس نہیں کہ کسی چیز کو استعمال کرسکے۔ اس کے علاوہ دنیا میں اپنے سے کم پر نظر اور دین میں اپنے سے اوپر والوں پر نظر شکر پیدا کرتی ہے۔اپنے گناہوں کا استحضار انسان کو حقیقت شناس کردیتا ہے اور وہ یہ سمجھنے لگتا ہے کہ مجھے میرے رب نے جتنا کچھ دیا ہے وہ اس کا کرم ہے ورنہ میں تو اس قابل تھا کہ میرے اوپر پتھر برسائے جاتے۔ باقی تفصیل میری کتاب فہم التصوف میں دیکھیئے۔

سوال: فکر سے کیا مراد ہے؟

جواب: ذہن میں دو یا دو سے زیادہ حقائق کو رکھ کر ان حقائق تک رسائی حاصل کرنا جس تک پہلے رسائی نہیں تھی فکر کہلاتا ہے مثلاً ہمیں پہلے سے کچھ معلومات حاصل ہیں۔ان معلومات کے اندر غور کرکے کچھ نتائج کو اخذ کرنا ، اس کے لیے فکر کی ضرورت ہے۔اس کی قُرآن میں دعوت دی گئی ہے۔حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے روایت ہے کہ ایسے قُرآن مجید پڑھنے میں کوئی نفع نہیں جس میں فکر نہ ہو اور نہ ایسی عبادت میں جس میں معرفت نہ ہو۔

سوال: فکر کیسے کی جائے ؟

جواب:دنیا اور آخرت کی حقیقت اپنے ذہن میں رکھ کر مفید نتائج تک پہنچنے کی کوشش کی جائے اور ان نتائج کو پھر شریعت پر پرکھا جائے۔درست پائے جائیں تو ان پر عمل بھی کیا جاسکتا ہے۔مراقبات سے اس میں مزید ترقی ہوتی ہے۔

سوال: تواضع کیا ہے اور اس کا حاصل کرنا کیسے ممکن ہے ؟

جواب: اللہ تعالیٰ کی عظمت کے پیش نظر اپنے آپ کو کچھ نہ سمجھنا تواضع ہے۔اس کے حاصل کرنے کا طریقہ اس کی تعریف میں موجود ہے یعنی اللہ تعالیٰ کی عظمت کا استحضار کیا جائے اور اس کی مشق کی جائے۔

سوال: کیا تواضع اور احساس کمتری میں کچھ فرق ہے ؟نفسیاتی ماہرین تو احساس کمتری کو بہت بڑی بیماری سمجھتے ہیں؟

جواب:ان دونوں میں بہت بڑا فرق ہے۔تواضع میں انسان اپنے رب کی عظمت کے پیش نظر اپنے آپ کو مٹاتا ہے اور یہ نعمت عظیم ہے جبکہ احساس کمتری میں انسان مخلوق کو بڑا سمجھ کر اپنے کو اس سے محروم سمجھتا ہے جو کہ بہت بڑی بیماری ہے کیونکہ ظاہر ہے مخلوق کی عظمت کا دل میں ہونا ایک روگ ہی تو ہے۔

سوال: توکل کے بارے کچھ رہنمائی فرمایئے؟

جواب:اللہ تعالیٰ پر ہر چیز میں بھروسہ کرنا توکل کہلاتا ہے۔پس جاننے میں بھی اللہ پر بھروسہ ہو کہ اپنے علم و عقل کو اللہ کے علم کے مقابلے میں کچھ نہ سمجھے۔اسی طرح اللہ کی قدرت ،ربوبیت ،کرم اور فضل کو پیش نظر رکھ کر ہر وہ کام جس کا اللہ نے جس طرح کرنے کا حکم دیا ہے اس کو اپنے تمام مصالح کو بالائے طاق رکھ کربالکل اسی طرح کرنا جیسا کہ چاہا گیا عین توکل ہے۔

سوال: حضرت کیا توکل کی صورت میں اسباب کو ترک کرنا چاہیئے ؟

جواب:نہیں ،اسباب کو اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق استعمال کیا جائے گا۔تدبیر کو استعمال کرکے اس کا نتیجہ خدا کے حوالے کیا جائے۔ توکل کا یہ مطلب ہے کہ خنجر تیز رکھ ا پنا پھر انجام اس کی تیزی کا مقدر کے حوالے کر

سوال: بات ذرا مشکل ہوگئی ہے۔جو توکل اختیار نہیں کرتے وہ بھی اسباب اختیار کرتے ہیں اور جو توکل اختیار کرتے ہیں وہ بھی اسباب اختیار کرتے ہیں۔ان میں حضرت فرق کیا ہے؟

جواب: شریعت نے جن اسباب کو مستحسن کہا ہے وہاں اسباب کو نہ استعمال کرنا جہالت ہے۔ جیسے آپ صلی اللہ علیہ والہ سلم نے فرمایا کہ اونٹ کو باندھ کر توکل کرو۔فرق یہ ہے کہ غیر متوکل تو اپنی عقل کی رائے کو حتمی سمجھ کر اور خدا سے غافل ہوکر اسباب اختیار کررہا ہے دوسرے لفظوں میں اسباب کو مؤثر حقیقی سمجھ رہا ہے جبکہ متوکل شخص اسباب کو اللہ تعالیٰ کا حکم سمجھ کر استعمال کررہا ہے۔یہ اللہ تعالیٰ سے نہ تو غافل ہے نہ باغی بلکہ اللہ تعالیٰ کے استحضار کے ساتھ اس کا حکم سمجھتے ہوئے اسباب کو اختیار کررہاہے۔

سوال: اس میں عقل کا کردار کیا ہے ؟

جواب:متوکل شخص اپنی عقل کو بھی ایک سبب سمجھ سکتا ہے بشرطیکہ وہ اس کو شریعت کا تابع جانتا ہو۔عقل اللہ تعالیٰ کی ایک نعمت ہے لیکن اس کی حدود ہیں جو شریعت بتاتی ہے پس شریعت کے بتائے ہوئے حدود کے ا ندر عقل سے کام لینا سنت انبیاءعلیہم السلام ہے۔

سوال: تفویض کیا ہے ؟

جواب:اپنے کاموں کو اللہ تعالیٰ کے سپرد کرنا تفویض ہے۔جب کوئی شخص کسی کو اپنے سے بڑا سمجھتا ہے اور اس کو اپنا خیر خواہ بھی سمجھتا ہے تو یہی کہتا ہے کہ آپ میرے سب کچھ ہیں جو آپ کہیں گے میں وہی کروں گا۔پس اسی طرح اللہ تعالیٰ سب سے بڑا ہے اور سب سے زیادہ علم اور قدرت والا ہے نیز وہ ہمارا ہم سے زیادہ خیر خواہ ہے اس لیے ہم کیوں نہ سب کچھ اس پر چھوڑ دیں کہ وہ ہم میں جیسا تصرف کرنا چاہے کرے۔یعنی اس کے حکم پر بلاچوںو چرا عمل کرکے نتیجہ اس کے حوالے کریں۔اسی میں ہماری خیر ہے اور اسی میں ہمارا فائدہ۔ اس لیے اصحاب تفویض سب سے زیادہ خوش اور سب سے زیادہ کامیاب ہوتے ہیں۔ “وَ اُفَوِّضُ اَمْرِیۡۤ اِلَی اللہِ ؕ اِنَّ اللہَ بَصِیۡرٌۢ بِالْعِبَادِ ” میں اس کی تعلیم موجود ہے۔

سوال: تو کیا خود کچھ بھی نہ کیا جائے ؟

جواب:عجیب سوال ہے۔گزشتہ سوال کے جواب میں غور کریں تو اس کا جواب بھی اس میں مل جائے گا۔ہم کام تو کریں گے لیکن کام شریعت کے مطابق کریں گے۔ناجائز اسباب کو اختیار نہیں کریں گے اور جو نتیجہ سامنے آئے گا اس کو دل و جان سے رب کی طرف سے سمجھ کر مطمئن ہوجائیں گے۔

سوال: بالفرض ہم نے اسباب کو استعمال کرنے میں کوئی غلطی کی۔جس کا ایک نتیجہ نکلا جو کہ اچھا نہیں ہے۔اس کو بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے سمجھیں۔یہ بے ادبی نہیں ہوگی ؟

جواب:ماشاء اللہ بہت اچھا سوال ہے۔ہم نے جو غلطی کی ہے وہ یا تو شریعت کو سمجھنے میں کی یا اس پر عمل کرنے میں۔اس کا نتیجہ ایسا نکلا جو کہ اچھا نہیں۔اس میں ہم اپنی غلطی کی طرف نسبت کریں گے کہ اس غلطی کی وجہ سے ہوا البتہ ہوا پھر بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے کہ وہ فاعل حقیقی ہیں لیکن بات یہاں پر رکے گی نہیں بلکہ یہ بھی سوچا جائے گا کہ ایسا نتیجہ نکلنا ہی عین حکمت تھا اس لیے اس پر کوئی اعتراض نہیں کریں گے جیسے جو زہر کھائے گا تو لازمی نتیجہ اس کے نقصان کا نکلے گا۔اگر کسی وقت اس کا نتیجہ نقصان کی صورت میں نہ نکلے تو یہ اللہ تعالیٰ کے فضل اور عفو کی وجہ سے ہے۔ پس اگر ہم غلط کام کریں تو اس کا نتیجہ تو غلط ہی نکلنا چاہیئے لیکن اس سے اگر زیادہ نقصان نہ ہو تو یہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہوا۔جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا” وَیَعْفُوْا عَنْ کَثِیْرٍ”پس ہم اپنی غلطیوں کی استغفار سے تلافی کرکے پھر صحیح عمل کریں گے تاکہ اللہ تعالیٰ کے حکم پر عمل ہوجائے۔

سوال: خشوع کیا ہے اور اس کو حاصل کرنے کا طریقہ کیا ہے؟

جواب:کسی نیک عمل کے دوران دل میں صرف اللہ تعالیٰ کی رضا کا مقصود ہونا اور اس کے غیر کی طرف التفات نہ ہونا اوراس وجہ سے عاجزی ہونا خشوع کہلاتا ہے۔اس کو حاصل کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ خشوع کے منافی چیزوں کا اثر دل سے نکالا جائے۔

سوال: دل میں جو وسوسے آتے ہیں وہ بھی خشوع کے منافی ہیں؟

جواب:نہیں،چونکہ یہ غیر اختیاری ہیں اس لیے یہ خشوع کے منافی تو نہ ہوں گے البتہ اگر ان وساوس کی وجہ کوئی اختیاری عمل ہو تو پھر اس کا علاج کرنا پڑے گا۔ کیونکہ یہ اختیاری ہوگا۔ جیسا کہ فقہاء نے مسجد کی سامنے والی دیوار پر نقش و نگار کو خشوع کے منافی سمجھ کر مکروہ لکھا ہے اور آنکھیں بند کرکے نماز پڑھنے کو باوجود خلاف سنت ہونے کے اگر خشوع کے لیے مفید پایا جائے تو اس کو جائز بتایا ہے۔دوسری طرف اگر کچھ وسوسہ آیا اور اس وسوسے کی طرف متوجہ ہوکر خود کچھ باتیں ارادے سے سوچنے لگا تو یہ ا لبتہ خشوع کے منافی ہوگا۔

سوال: خشوع کے منافی چیزوں کو دل سے نکالنے کا کیاطریقہ ہے ؟

جواب:اپنے دنیاوی امور میں اتنا انہماک کہ جنون کا سا معاملہ ہوجائے درست نہیں۔ اس سے بچا جائے۔ ذکر کی کثرت کی جائے اور ذکر میں یکسوئی کے ذریعے دھیان جمانے کا طریقہ سیکھا جائے اور نماز میں مستحبات کی بھی رعایت کی جائے جن میں خشوع کی تحصیل کا خیال رکھا گیا ہے۔ یہ مراقبہ کہ مجھے اللہ تعالیٰ دیکھ رہا ہے بہت مفید ہے اور تصور کیا جائے کہ یہ میری آخری نماز ہے یا میں خانہ کعبہ کے سامنے نماز پڑھ رہا ہوں تو چونکہ خیال بیک وقت دو طرف نہیں جاسکتا اس لیے غلط خیالات خود بخود رفع ہوجائیں گے۔

سوال: اگر غلط خیال بار بار مراقبے میں بھی آئے تو بھی ؟

جواب:یہاں مراقبہ سے اصطلاحی مراقبہ نہیں بلکہ نماز میں یہ سوچنا کہ میں خانہ کعبہ کے سامنے ہوں یہ مراد ہے۔اس میں آہستہ آہستہ جب پختگی آجاتی ہے تو پھر غلط خیالات نہیں آتے۔

سوال: خوف سے کیا مراد ہے ؟

جواب:آئندہ یا موجودہ کسی واقعے یا چیز سے دل کا ڈر جانا خوف کہلاتا ہے۔اس کے دو درجے ہیں۔خوف عقلی جو ہر مسلمان کو حاصل ہے کیونکہ شرط ایمان ہے کہ دل میں یہ خوف رکھتا ہو کہ کہیں اس کو آخرت میں عذاب نہ ہو۔دوسرا درجہ اس خوف کا ہے کہ معصیت اور حرام سے بچنے کے لیے کافی ہوجائے یہ خوف فرض ہے۔اس کے نہ ہونے سے آدمی کافر تو نہیں ہوگا لیکن گناہ گار ہوگا۔ایک درجہ خوف کا یہ ہے کہ ہر وقت اللہ تعالیٰ کی ناراضگی سے ڈرتا رہے پس اگر یہ بالقصد ہو تو یہ مستحب ہے اور اگر خود بخود ہے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک نعمت ہے۔یہ بعض دفعہ اس حد تک بھی جاسکتا ہے کہ کوئی اس کو کم کرنا چاہے بھی تو نہیں کرسکتا۔ یہ بھی محض وہبی ہوتا ہے البتہ اس درجہ کا خوف کہ آدمی تعطل کا شکار ہوجائے، ٹھیک نہیں بلکہ اس کا علاج ضروری ہے کیونکہ مطلوب اعمال ہیں اور خوف اس کے لیے ذریعہ ہے۔ پس اگر اسی سے اعمال میں کمی آجائے تو پھر ایسے خوف کو کم کرنا لازمی ہوگا۔

سوال: ایسی حالت کب پیش آسکتی ہے؟

جواب:کوئی کمزور دل والا کوئی ایسی کتاب یا مضمون پڑھے جو قوی القلب لوگوں کے لیے ہو تو اس سے بعض اوقات ایسا ہوسکتا ہے۔اس لیے ہر شخص کے لیے مطالعہ کا انتخاب بھی مختلف ہوگا جس کا فیصلہ اس کے شیخ کو کرنا چاہیئے جیسا کہ حضرت تھانوی(رحمۃ اللہ علیہ) موجودہ دور میں حضرت امام غزالی (رحمۃ اللہ علیہ) کی کتاب الخوف کو پڑھنے سے منع فرماتے تھے۔

سوال: رجاء سے کیا مراد ہے ؟

جواب:اللہ تعالیٰ کی رحمت کا دل میں امیدوار ہونا رجا ء کہلاتا ہے۔اعمال میں پوری کوشش کی جائے کہ سستی نہ ہو اور اللہ تعالیٰ سے اس کی قبولیت کی امید ہو تو اللہ تعالیٰ ان اعمال کو قبول فرماتے ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ مجھ سے میرا بندہ جو گمان رکھے گا میں اس کے ساتھ ویسا برتاؤکروں گا۔اس لیے اللہ تعالیٰ سے قبولیت کی امید کرنی چاہیئے۔

سوال: اگر کوئی عمل نہ کرے اور کہے کہ اللہ تعالیٰ غفور الرحیم ہے۔اللہ تعالیٰ معاف فرمائیں گے تو کیا یہ بھی رجاء ہے؟

جواب:نہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ پر جرأت و غرّہ ہے جس کے لیے ارشاد فرمایا گیا ” مَا غَرَّکَ بِرَبِّکَ الْکَرِیْمِ ” یعنی کس نے تمہیں رب پر جرأت دلائی۔دلیل اس کی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کوئی حکم بے فائدہ نہیں دیا تو اگر بے عملی پر ڈھٹائی ہو اور پھر اللہ تعالیٰ سے معافی کی امید کو درست کہا جائے تو یہ قُرآن جو اعمال کی دعوت ہے اس کا مطلب پھر کیا ہوگا؟

سوال: فرماتے ہیں کہ ایمان خوف اور رجاء کے درمیان ہے اس کا کیا مطلب ہے؟

جواب:اس کا مطلب یہ ہے کہ اتنا خوف نہ ہو کہ خدا کی رحمت سے آدمی مایوس ہو کر کام کرنا چھوڑ دے۔اس کے لیے رجاء کی تعبیر ذہن میں رکھنا لازمی ہے۔اسی طرح اتنی رجاء کہ آدمی اللہ تعالیٰ سے بے خوف ہوکر کھلم کھلا اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرنے لگے ، یہ بھی ٹھیک نہیں اس کو خوف کی تعبیر ذہن میں رکھنی ہوگی۔ان دونوں کا جمع کرنا دونوں کا اعتدال ہے اور ان دونوں میں سے کسی ایک طرف جھکنا بے اعتدالی ہے۔

سوال: زہد سے کیا مراد ہے ؟اور کیا یہ ہر ایک کو حاصل ہونا چاہیئے ؟

جواب:زہد کے لغوی معنی تو تھوڑے پر قناعت ہے لیکن تصوف کی اصطلاح میں آخرت کی اعلیٰ نعمتوں کے مقابلے میں دنیا کی نعمتوں میں انہماک کا نہ ہونا زہدہے۔زہد کے کئی درجے ہیں۔ایک درجہ تو یہ ہے کہ نفس لذات کا طالب تو ہو لیکن زبردستی اس کو لذات سے روکا جائے۔یہ زہد نہیں بلکہ مجاہدہ ہے دوسرا درجہ یہ ہے کہ دل لذات سے اتنا متنفر ہوجائے کہ اس کی طرف مائل نہ ہو یہ زہد توہے لیکن حال کے درجہ میں۔تیسرا درجہ یہ ہے کہ دنیا کا وجود اور عدم برابر ہوجائے۔مل جائے تو شکر کرے اور نہ ملے تو پرواہ نہ ہو۔اس میں نفس نہ تو لذات سے متنفر ہوتا ہے اور نہ اس کا طالب۔ یہی زہد کے کمال کا درجہ ہے۔پس یوں سمجھ لیجئے کہ زہد حرص حرام کی ضد ہے۔چونکہ حرص ایک روحانی بلا ہے جس کی وجہ سے انسان کئی قسم کی دوسری روحانی بیماریوں کا شکار ہوجاتا ہے اس لیے اتنے زہد کا حاصل کرنا کہ انسان حرام حرص سے بچ جائے فرض عین ہے۔ البتہ اتنا زہد کہ ان مباحات سے بھی اجتناب ہو جن میں پڑ کر انسان کسی وقت مذموم حرص میں مبتلا ہوسکتا ہو یہ مستحب ہے اور ایسا زہد کہ انسان اس سے حرام میں مبتلا ہو حرام ہے اور جس سے مکروہ میں مبتلا ہوجائے وہ مکروہ ہے۔

سوال: حرص کا ذکر آیا یہ کیا چیز ہے؟

جواب: نفس کی دوسروں سے زیادہ حاصل کرنے کی کوشش حرص کہلاتی ہے۔اگر وہ چیز اچھی ہے تو یہ حرص بھی اچھی ہے بشرطیکہ کسی کا حق نہ مارا جائے اس کو تنافس کہتے ہیں۔اللہ تعالیٰ نے قُرآن میں اس کی دعوت دی ہے” وَفِیْ ذٰلِکَ فَلْیَتَنَافَسِ الْمُتَنَافِسُوْنَ ”اگ وہ چیز دنیاوی لذت ہے تو اس میں انہماک اور اس کے لیے آخرت کی چیزوں سے غفلت حرص حرام ہے۔اس سے بچنے کی تلقین کی گئی ہے۔

سوال: حرص حرام سے بچنے کا کیا طریقہ ہے ؟

جواب:آخرت کی نعمتوں پر یقین ،ذکر اللہ کی کثرت ،موت کی یاد اور شیخ کی نگرانی میں مجاہدہ ،یہ حرص کا علاج ہے۔

سوال: کتابوں میں انس کا بھی ذکر آتا ہے اور شوق کا بھی۔ ان میں کیا فرق ہے ؟کیا یہ دونوں مطلوب ہیں ؟

جواب:اپنے محبوب اور اس سے متعلقہ چیزوں کے دیکھنے اور ان کے بارے میں جاننے کی طبعی خواہش شوق کہلاتی ہے۔انس شوق کی ترقی یافتہ صورت ہے۔اس میں جوش اور ولولہ تو نہیں ہوتا جیسا کہ شوق میں ہوتا ہے لیکن محبوب کے ساتھ ایک مضبوط تعلق ایسا حاصل ہوجاتا ہے کہ محبوب سے جدا نہیں ہوسکتا اور نہ اس کو ناراض کرسکتا ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی حکمت ہے کہ ابتدا میں شوق کی چونکہ ضرورت ہوتی ہے کیونکہ غیر اﷲکے ساتھ مقابلے کی صورت ہوتی ہے جس کے لیے فوری قوت درکار ہوتی ہے۔ بعدمیں جب تعلق قائم ہوجاتا ہے تو اس کا صرف قائم رکھنا کافی ہوتا ہے۔اسے جوش اور ولولے کی ضرورت نہیں ہوتی۔پس محبوبِ حقیقی کے ساتھ تعلق میں ابتدا میں شوق مطلوب ہوتا ہے اور بعد میں انس۔

سوال: اخلاص کا ذکر کتابوں میں بہت آتا ہے۔ اس کے بارے میں کچھ بتایئے؟

جواب:اپنی طرف سے ہر عمل میں محض اللہ تعالیٰ کو راضی کرنے کی نیت کرنا اور اس میں کسی غیر کی خوشنودی یا اپنے نفس کی خواہش کو ملنے نہ دینا اخلاص ہے۔

سوال: کیا ریاء اخلاص کی ضد ہے ؟

جواب:ہاں لیکن جزوی طور پر۔کیونکہ غیر اللہ کے لیے کسی نیک عمل کا کرنا ریاء ہے لیکن جو عمل اپنے نفس کی خوشنودی کے لیے کیا جائے اس کو ریاء تو نہیں کہتے لیکن وہ اخلاص کے منافی ہے۔

سوال: کیا ہر عمل میں اخفاء یعنی اس کا چھپ کر کرنا اخلاص ہے ؟

جواب:جن اعمال میں اخفا سنت ہے ان میں اخفاء کرنا تو عین مطلوب ہے لیکن جن میں اخفاء ضروری نہیں ان میں ظاہراً اس عمل سے رک جانا بھی ریاء کے زمرہ میں آئے گا کیونکہ اس میں غیر اللہ سے تاثر لینا ہے۔اس وقت دل سے اس کو اللہ کے لیے کرنا چاہیئے چاہے اس کو پھر لوگ دیکھیں یا نہ دیکھیں۔مثلاً کوئی ذکر سے اس وجہ سے رک جائے کہ لوگ دیکھیں گے تو کیا کہیں گے۔اس وقت لوگوں کی پرواہ نہیں کرنی چاہیئے۔چاہے وہ کچھ بھی کہیں۔کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ والہ سلم نے ارشاد فرمایا ہے کہ اتنا ذکر کرو کہ لوگ تمہیں ریاء کار کہیں۔

سوال:اخلاص نہ ہونے کی کیا علامتیں ہیں؟

جواب:کئی قسم کی چیزوں میں اخلاص کی غیر موجودگی ہوسکتی ہے ۔ مثلاَ نماز میں اخلاص نہ ہونا ، تو وہ ریا ءہے ۔ اگر ایک آدمی لوگوں کے سامنے بہت اچھی طرح نماز پڑھے اور اندرسے نماز میں گڑ بڑ کرے تو یہ اخلاص نہ ہونے کی علامت ہے ۔اس کا مطلب ہے کہ وہ لوگوں کے لئے نماز پڑھ رہا ہے ۔ ایک دفعہ ایسا ہوا کہ ایک صاحب کی دعوت کی گئی تھی تو وہ پیر یا بزرگ مشہور ہونگے ۔ ساتھ میں ان کے گھر کا ایک بچہ بھی تھا ۔ تو ادھر اس نے کھانا بہت تھوڑا کھایا اور نماز بڑی لمبی پڑی ۔ جب گھر واپس آگئے تو اس نے اپنی بیوی کو کہا کہ کھانا دے دو ، بچے نے کہا کہ آپ کھانا تو کھا چکے ، تو اس نے جواب دیا کہ وہ تو لوگوں کے سامنے تھوڑا کھانا ہوتا ہے تاکہ لوگ ہمارے بارے میں اچھا خیال کریں ۔ تو بچے نے کہا کہ حضرت پھر نماز بھی دوبارہ پڑھیں ۔ وہ جو نماز آپ نے پڑھی وہ بھی تو لوگوں کے لئے پڑھی ۔ تو اللہ پاک نے ایک بچے کے ذریعے سے کہلوا دیا کہ وہ تو آپ نے لوگوں کے لئے پڑھی ہے ۔ تلاوت میں یہ بات ہے کہ جو لہجہ لوگوں کو پسند ہے اس لہجے کو قصداً لانا ، یہ اخلاص نہ ہونے کی علامت ہوسکتی ہے ۔ یعنی لوگوں کی مرضی کے مطابق کرنا ۔ نہیں جو صحیح ہے وہ کرنا چاہے لوگوں کو پسند ہو یا نہ ہو ۔ تمہیں لوگوں سے کیا غرض ہے ۔ مثلاَ تجوید کے قواعد کے مطابق ہو اصولی طور پر صحیح ہو ۔ اس طریقے سے بہت سارے کام ہوسکتے ہیں بہر حال ہر ایک کے اپنے علامات ہوتے ہیں ۔ دین کے کاموں کے ا ندر اخلاص ہونے کی سب سے بڑی علامت جو حضرت نے بتائی ہے کہ جب کوئی دین کا کام کررہا ہو اور کوئی اور آجائے اس کام کو کرنے کے لئے اور وہ اس سے زیادہ اہل ہو اس کام کے کرنے کا ، تو یہ سارا کام اس کے سامنے کردے کہ حضرت اب آپ تشریف لائے ہیں مجھے اپنا خادم سمجھیں میں بھی آپ کے ساتھ ہوں آپ یہ کام کرلیں ، اصل میں تو اہل آپ ہیں فرمایا یہ تو اخلاص ہے۔اور اگر کوئی اور دین کا کام کرنے کے لئے آجائے اور اس کے دل میں گڑ بڑ پیدا ہوجائے، اوہو یہ کیا ہوگیا ، یہ تو مسئلہ ہوگیا ، یہ اخلاص نہیں ہے ۔ یہ دنیاوی چیز ہے ۔ تو اس وجہ سے اس بارے میں قطعی بات ایک مجلس میں ممکن نہیں ہے کیونکہ ہر چیز کے اندر اخلاص کے ہونے یا نہ ہونے کے اپنی اپنی علامات ہوتی ہیں اور مشائخ اس کو بصیرت سے پہچانتے ہیں ۔ اس کے لئے کوئی قاعدہ یا کلیہ نہیں ہے ۔ کسی دینی کام میں دنیا کا فائدہ حاصل نہ ہونے پر رنجیدہ ہونا بھی عدم اخلاص کی علامت ہے۔

سوال: کتابوں میں ہم رضاء، بقاء، فناءاور عبدیت کے بارے میں پڑھتے ہیں۔ان کا مطلب کیا ہے؟

جواب:یہ اصل میں مقامات ہیں۔اللہ تعالیٰ کے کام پر راضی ہوناکیفیتِ رضا ہے اور یہ عین مطلوب ہے۔اس کے نہ ہونے سے بعض اوقات ایمان سلب ہوسکتا ہے۔یہ محبت الٰہی کے ذریعے حاصل ہوسکتی ہے چاہے محبت طبعی ہو یا عقلی۔رذائل کا ختم ہونا اور غیر اللہ کے تاثر سے دل کا پاک ہوجانا فناءکہلاتا ہے۔توحید اور تواضع اسی کی بدولت حاصل ہوتے ہیں۔ فضائل کا حاصل ہوجانا اور مخلوق کی طرف اللہ تعالیٰ کی رضا ءکے لیے واپس ہوجانا یہ بقاء کہلاتا ہے۔ان سب کالازمی نتیجہ محض اللہ کی بندگی ہے کہ اپنا عجز بھی ظاہر ہو اوراللہ کی عظمت بھی۔خدا کے حکم کی اہمیت بھی پیش نظر ہو اور اپنا فرض بھی اور اس فرض کی تکمیل کے لیے محض اللہ کی رضا کے لیے دم بدم کوشش جاری ہو۔یہ عبدیت ہے اور انسان کا سب سے اونچا مقام ہے۔

سوال:تصوف کی محنتیں کرنے کے باوجود بھی اگر کسی کو اخلاص نہ ملے تو کس چیز میں مسئلہ ہے؟

جواب: اصول پر نہ چلنے کی وجہ سے اکثر ایسا ہوتا ہے مثلاً تربیت میں شیخ کی بات کو اپنی بات پر فوقیت دینا لازم ہے اور کوئی اس میں اپنے اجتہاد کو دخل دے تو محرومی ہوسکتی ہے۔تربیت کے کسی مسئلے میں شیخ کے ساتھ قلبی اعراض اس کا بڑا سبب ہوتا ہے۔ایسا شخص یہ سمجھتا ہے کہ شیخ نے میری صلاحیتوں کو نہیں پہچانا یا اس کو مجھے یہ بتانا چاہیئے تھا وغیرہ وغیرہ یہی قلبی اعراض مرید کا ستیا ناس کردیتا ہے ۔اس مسئلے کی جس کو جتنا جلدی سمجھ آئے خوش نصیب ہے کیونکہ بزرگوں کا قول ہے کہ مرید کے بارے میں شیخ کو بوقت تعلیم ضرورت کے درجے کا کشف ہوجاتا ہے اس لئے اس سوچ کو میرا شیخ سمجھا نہیں کبھی نہیں ماننا چاہیئے اس وقت یہ یاد کیا کرے کہ بزرگوں کی الٹی بھی سیدھی ہوتی ہے کہ اﷲ مرید کے لئے اس کے شیخ کی الٹی بھی سیدھی کردیتے ہیں۔

سوال:آج کل کے دور میں فناء کا کس طرح پتہ چلتا ہے ؟

جواب:طبیعت پر شریعت کو غالب کرنے کا جذبہ نمایا ں ہو تو یہ فناء ہے اور اگر کسی کو یہ حاصل ہو لیکن اس کا عزم اس سے بھی زیادہ کا ہو جس کی وجہ سے اس کو لاحاصل سمجھتا ہو تو یہ فناء الفنا ءہے اور یہی حقیقی فناء ہے کیونکہ جس فناء کا کسی کو پتہ چلے وہ فناء نہیں تکبر ہے ۔

سوال: کیفیت رضا سلب ہونے سے ایمان کیسے سلب ہوسکتا ہے ؟ وضاحت کریں؟

جواب:اگر کیفیت رضا حاصل نہ ہو تو کسی مصیبت کے آنے پر ممکن ہے کوئی ایسا کلمہ زبان سے نکل جائے جس سے ایمان سلب ہوتا ہے۔اس لیے کیفیت رضا ہر وقت مطلوب ہے۔

سوال: شہوت کسے کہتے ہیں؟

جواب:نفسانی خواہشات کو شہوت کہتے ہیں۔

سوال: شہوت کا شریعت میں کیا حکم ہے؟

جواب:نفس امارہ انسان کو اللہ تعالیٰ سے باغی بناتا ہے کیونکہ یہ پابند نہیں ہونا چاہتا اور اللہ تعالیٰ نے ہمارے لیے اور ہمارے فائدے کے لیے قوانین بنائے ہیں جن کو شریعت کہتے ہیں۔پس اگر شہوت کی اتنی پیروی کی جائے کہ کفر و شرک کا ارتکاب ہو جائے تو یہ کفر و شرک کہلائے گا ورنہ شہوت جس درجے کے گناہ میں مبتلا کرے گی تو اس کا وہی حکم ہوگا اور اگر اس کی مخالفت کی جائے اور نفس پر پتھر رکھ کر دین پر ثابت قدمی اختیار کرے تو پھر یہی شہوت ایک عظیم اجر کا باعث بنے گی۔تبھی تو مولانا روم (رحمۃ اللہ علیہ) نے فرمایا۔ شہوت دنیا مثل گلخن است

سوال: عُجب کسے کہتے ہیں ؟

جواب:کسی کمال کا اپنی طرف نسبت کرنا اور اِس کا خوف نہ ہونا کہ کہیں اللہ تعالیٰ اِس کو سلب نہ کردے اس کو عجب کہتے ہیں۔ اس سے انسان کے اس جذبے کی تسکین ہوتی ہے کہ ہر انسان ممتاز ہونا چاہتا ہے اور اس میں اس کو حظ (مزا) آتا ہے۔ حدیث شریف میں آدمی کا اپنی نظروں میں اچھا ہونے کو شدید ہلاکت بتایا گیا ہے اور جس وقت انسان اپنی نظروں میں اچھا ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ کی نظروں میں گرا ہوا ہوتا ہے۔

سوال: اس کا علاج کیا ہے؟

جواب:نعمتوں کو محض اللہ تعالیٰ کی طرف سے سمجھیں اور اللہ تعالیٰ کی بے نیازی کو نظروں کے سامنے رکھیں اور یہ سمجھیں کہ ہماری کوئی اللہ تعالیٰ سے رشتہ داری تو نہیں کہ ہمیں دوسروں سے ممتاز کرے گا پس جتنا دیا ہے یہ اسی کا کرم ہے اور ان نعمتوں کی بقاء صرف اس کے فضل پر موقوف ہے۔ چاہے تو ایک آن میں کچھ سے کچھ کردے۔یہی سوچ اس کا علاج ہے۔

سوال: کیا عُجب اور خود رائی ایک ہی چیز ہے؟

جواب:خود رائی اپنی خوبیوں پر نظر رکھنے کو کہتے ہیں۔یہ بھی ایک عیب ہے جس کا علاج کافی مشکل ہے۔ ایسا آدمی جس خوبی کے بارے میں سنتا ہے تو سمجھتا ہے کہ یہ مجھ میں ہے۔ اصل میں ایسے شخص کی اپنی عاقبت پر نظر نہیں ہوتی۔ کیونکہ جس شخص کی اپنی عاقبت پر نظر ہوتی ہے اس کو خود میں کوئی خوبی نہیں بلکہ عیب ہی زیادہ نظر آتے ہیں۔جیسا کہ کوئی طب کی کتابیں پڑھتا ہے تو اس میں جن بیماریوں کے بارے میں پڑھتا ہے تو سمجھتا ہے کہ یہ بیماریاں تو مجھ میں ہی ہیں کیونکہ اس کو اپنی صحت کی فکر ہوتی ہے او ر نہیں چاہتا کہ وہ بیمار ہو۔ دوسری طرف آخرت سے غفلت اس کو اپنے عیوب سے غافل کرتی ہے اور شیطان اس کو اپنے محاسن یاد دلاتا ہے۔ اس لیے یہ شخص محنت نہیں کرتا اور خیال ہی خیال میں اپنے آپ کو اچھا سمجھ کر خوش ہورہا ہوتا ہے۔ عُجب میں انسان اپنے محاسن کو اپنا کمال سمجھ رہا ہوتا ہے اور خود رائی میں اپنے عیوب کو بھی اپنے محاسن سمجھنے لگتا ہے۔عجب میں اللہ تعالیٰ کے ارادے سے نظر ہٹ جاتی ہے اور خود رائی میں اپنے عیوب سے۔اس لیے دونوں دھوکہ اور سراب ہیں۔اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس سے بچائے۔آمین

سوال: تکبر کیا ہے کیا یہ عجب ہی کی ایک صورت نہیں ہے ؟

جواب:اپنے آپ کو صفات وکمالات میں دوسروں سے بڑا سمجھنا تکبر ہے۔عجب اور تکبر میں یہ فرق ہے کہ عجب میں انسان خود کو اچھا سمجھتا ہے لیکن دوسروں کی تحقیر دل میں نہیں ہوتی لیکن تکبر میں دوسروں کی تحقیر دل میں ہوتی ہے۔

سوال: اگر عُجب کو شدید مہلکات میں سے قرار دیا گیا ہے تو تکبر کی پھر کیا بات ہوگی؟

جواب:جی ہاں تکبر کی بات عُجب سے زیادہ سخت ہے۔حدیث شریف میں آیا ہے کہ کسی کے دل میں رائی برابربھی تکبر ہوگا تو جنت میں نہیں جائے گا۔لیکن عجب کو بھی کم نہیں سمجھنا چاہیئے کیونکہ جس میں عُجب ہوگا وہ بہت جلد تکبر کا بھی شکار ہوسکتا ہے۔اس لیے کہ جو شخص اپنے آپ کو اچھا سمجھتا ہے توجب اسے کسی اور کے ساتھ اپنا موازنہ کرنے کی صورت پیش آئے گی تو اس کو کم سمجھے گا اور اس طرح وہ متکبر ہوجائے گا۔اور بذات خود عجب میں بھی یہ بات ہے کہ جس وقت آدمی خود کو اپنی نظروں میں اچھا سمجھتا ہے اس وقت وہ اللہ تعالیٰ کی نظروں میں گرا ہوتا ہے۔

سوال:آج کل کے دور میں تکبر کو دور کرنے کے لئے کیا ہوسکتا ہے؟

جواب:اصل میں تکبر کو دور کرنے کے لئے ہی سارا کچھ ہوتا ہے ۔ سلوک جس کو ہم کہتے ہیں اس کو طے کرنے کے لئے اس میں سب سے مشکل چیز تکبر کو دور کرنا ہوتا ہے۔ جو شیخ سے انسان بیعت ہوتا ہے ۔ اصل میں یہ انسان کی انانیت پر سب سے پہلی چوٹ ہوتی ہے۔ انسان اپنی انانیت کو چھوڑ نہیں سکتا ۔ بعض لوگو تصوف میں جو نہیں آپاتے ۔ یا کسی شیخ سے بیعت نہیں ہوتے ۔ ان میں سب سے بڑی رکاوٹ یہی ہوتی ہے اپنی انانیت کو چھوڑنے کی ۔ جب کوئی اپنی انانیت کو چھوڑنے کا فیصلہ کرلیتا ہے اور کسی شیخ سے بیعت ہوجاتا ہے تو ان کی اچھی خاصی اصلاح اسی چیز سے ہی ہوجاتی ہے ۔ مطلب یہ ہے کسی ایک کے سامنے کم از کم اپنے آپ کو چھوٹا سمجھنے سے ۔ ورنہ انسان کا نفس کسی کے سامنے بھی چھوٹا سمجھنے کے لئے تیار نہیں ہوتا ۔ بے شک زبان سے بڑا ہی کہہ دے ، عاجز اور غریب اور پتہ نہیں کیا اور بدترین ، یہ ساری باتیں ہوتی ہیں ۔ جب تک انسان اپنے آپ کو حقیقی معنوں میں کسی کے سامنے چھوٹا نہ سمجھے اس وقت تک اس کے تکبر کا علاج نہیں ہوسکتا ۔ یہ کام چونکہ شیخ کے لئے کرنا آسان ہوتا ہے کہ شیخ کے لئے انسان اپنے آپ کو چھوٹا سمجھ سکتا ہے ۔ لہٰذا اسی کی بنیاد پر اس کا جو نفس ہے اس کی فہمائش ہورہی ہوتی ہے ۔ کبھی ایک بات میں ڈانٹ کھائی کبھی ایک میں بات نہیں مانی گئی ، کبھی ایک میں پیچھے ڈال دیا گیا کبھی کیا کبھی کیا ، یعنی مختلف طریقوں سے وہ چیزیں ہورہی ہوتی ہیں ۔ تو یہ تکبر کو دور کرنے کا بہت بڑا علاج ہوتا ہے ۔ تو سب سے بڑا مجاہدہ تو اس کے لئے یہی ہے ۔ ہاں شیخ جس کے لئے زیادہ ضرورت سمجھے بعض کے لئے حالات ایسے ہوتے ہیں کہ اس کو دور کرنے کیلئے کچھ سپیشل کرنا پڑتا ہے مثلا لوگوں کے سامنے ڈانٹ دیا یا کوئی کام اس کو ایسا دیا جو کہ اس کی شان کے لوگ نہیں کیا کرتے ۔ مثلا کسی کو سودا سلف لانے کے لے بھیج دیا بازار کی طرف اور اس کی عادت نہیں ہے۔ ظاہر ہے پھر اس میں نفس پر زد تو پڑے گی۔ لوگوں کے سامنے حساب لے لیا وغیرہ ۔ تو یہ مختلف چیزیں ہوتی ہیں ۔ ان کا کوئی حد نہیں۔تکبر کا اصل علاج تویہ ہے کہ دل میں اللہ تعالیٰ کی بڑائی اور عظمت بٹھائی جائے۔دل میں اللہ تعالیٰ کی عظمت کو بٹھانے کیلئے ذکر الٰہی اکسیر ہے بشرطیکہ کسی شیخ کی نگرانی میں ہو اور مجاہدہ کے ساتھ ہو ورنہ اس سے بھی دل میں اپنی بزرگی پیدا ہوسکتی ہے جو کہ تکبر ہی کا ایک شعبہ ہے۔

سوال: کیا ذکر سے بھی تکبر پیدا ہوسکتا ہے؟

جواب:جی ہاں۔کسی بھی نیک عمل سے یہ ممکن ہے اگر اپنا احتساب نہ کیا جائے۔شیطان جس راستے سے خود گمراہ ہوا ہے انسان کو بھی اس راستے سے گمراہ کرسکتا ہے۔شیطان کے داؤ پیچ کو سمجھنا آسان کام نہیں اس کے لیے کسی شیخ کامل کی نگرانی ضروری ہے۔

سوال: کیا یہ علم کہ اللہ تعالیٰ بڑا ہے اس کے لیے کافی نہیں ؟

جواب:کیا شیطان کو یہ معلوم نہیں تھا کہ اللہ تعالیٰ بڑا ہے پھر اس نے کیوں سرکشی کی؟ کیوں بغاوت پر اتر آیا ؟ دراصل شیطان کی نظر اپنے پر گئی اللہ تعالیٰ کی طرف نہیں گئی۔ پس یہی کچھ کسی انسان کے ساتھ بھی ہوسکتا ہے۔اس لیے ہر وقت ڈرتے رہنا چاہیئے کہ کہیں سارے کئے کرائے پر پانی نہ پھر جائے۔

سوال:اگر شیخ کے کسی بات پر اشکال پیدا ہو یا طبعیت اس کے ساتھ نہ ہو تو کیا یہ تکبر کی وجہ سے ہوتا ہے یا مناسبت کی کمی کی وجہ سے ؟

جواب:اگر وہ علمی بات ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے ۔ علمی بات میں اشکال ہوسکتا ہے۔ لیکن اگر وہ تربیت کے اندر ہے ۔ تو پھر وہ خطرناک بات ہے ۔ کیونکہ ڈاکٹر کے ساتھ اگر کسی کو اپنے علا ج میں اشکال ہوجا ئے تو اس کا علاج نہیں ہوگا ۔کتابوں میں اس کے بارے میں لکھا ہے کہ مرید شیخ کے سامنے” کل میت فی ید الغسال ”بن جائے ۔یعنی ایسا ہو جیسا کہ غسل دینے والے کے ہاتھ میں میت کی حالت ہوتی ہے ۔ ہمارے پاس بعض ساتھی آتے ہیں ، وہ ہم سے مشروط اصلاح چاہتے ہیں ، کہ ان ان باتوں میں تو ہمیں کچھ نہ کہیں باقی باتیں ہم مان لیں گے ۔ اگر شیخ نے ان کے ساتھ ایسا وعدہ کرلیا کہ ہاں صحیح ہے تو ٹھیک ہے ان کی اتنی ہی اصلاح ہوگی جتنی کے لئے وہ تیار ہیں ، یعنی اس کا منتہا وہی ہوگا۔ مثلاً کسی نے تیس فیصد کو اصلاح سے خارج کردیا کہ یہاں پر تو میری بات اپنی ہوگی۔ باقی ستر فیصد میں، میں مانوں گا ۔ تو اس کی زیادہ سے زیادہ ستر فیصد ہی اصلاح ہوگی۔اس تیس فیصد میں نہیں ہوگی ۔ اب سو فیصد اصلاح تب ہی ہوسکتی ہے جب سو فیصد اصلاح کے لئے تیار ہوجائے گویا کہ اس میں میں وہ ایک مخفی دعویٰ کرتا ہے کہ اتنے میں شیخ کی رائے معتبر نہیں تو جس چیز میں انسان دعویٰ کرے گا تو اس میں ہی پیچھے رہ جائے گا ۔ ایسا عموماًناسمجھی کی وجہ سے ہوتا ہے ۔ اس کو سمجھ نہیں ، اس کو ابھی پتہ نہیں لگا ۔ بعد میں وہ مان لیتا ہے ۔ لیکن وقت گزرنے کے بعد ۔ کاکا صاحب (رحمۃ اللہ علیہ) کے پاس ایک صاحب آئے ہوئے تھے ۔ تو حضرت کی توجہ کی نظر ہوتی تھی اس میں بہت کچھ مل جاتا تھا ۔ تو اب ظاہر ہے کسی کو بہت کچھ آپ دیں اور اس کے لئے اس کا جسم تیار نہ ہو تو تکلیف تو ہوتی ہے مثلاً اچھا خاصا ٹانک کھلا دیں کسی کو ۔ اس کا بھی تو کچھ وقتی اثر ہوتا ہے ۔ انسان گڑ بڑ ہوجاتا ہے ۔ پھر ڈاکٹر اس کو کہتا ہے کوئی بات نہیں ایڈجسٹ ہوجائے گا ۔ اب وہ بات اس کو سمجھ نہیں آتی کہتا ہے ڈاکٹر صاحب کیا ہے ۔ ڈاکٹر صاحب کو کہتا کہ اس کو نکالیں ۔ اب وہ اس کا معدہ واش کرلیں یا کچھ اور کرلیں تو وہ بوجھ بھی ختم ہوجائے گا لیکن ساتھ میں وہ چیز بھی ختم ہوجائے گی ۔ وہ چیز تو نہیں رہے گی ، تو ان پر کاکا صاحب (رحمۃ اللہ علیہ) نے توجہ کرلی تو اس وجہ سے اس کو ایک نعمت حاصل ہوگئی ۔ جو اس کی سمجھ میں اس کی برداشت سے باہر تھا ۔ حضرت نے ان سے فرمایا کہ برداشت ہوجائے گا ۔ تھوڑا سا صبر کرو ۔ اس نے کہا نہیں حضرت اس کو ختم کریں ۔ حضرت نے فرمایا نہیں بھئی برداشت کرلو سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا۔ جب اس نے بالکل کہا کہ جی اب برداشت نہیں ہورہا ۔ تو حضرت نے اس پر ہاتھ پھیر لیا ، تو وہ ساری چیز سلب ہوگئی ۔ اب جب سلب ہوگئی تو اس کو پھر احساس ہوگیا کہ او ہو یہ تو ایک نعمت ملی تھی۔ کہا حضرت دوبارہ دے دیں ، حضرت نے فرمایا نہیں یہ بار بار نہیں ملتی ۔ اسی طرح یہ چیزیں ہوا کرتی ہیں ، تو بعد میں لوگوں کو پتہ چل جاتا ہے تو اکثر ایسا ناسمجھی کی وجہ سے ہوتا ہے ۔ بعض دفعہ تکبر کی وجہ سے بھی ہوسکتا ہے ۔ مثال کے طور پر آدمی نیا نیا آیا ہے تو ا بھی اس نے اپنے نفس کو ذلیل نہیں کیا تو نتیجتاً اس کی اپنی شرارت موجود ہوتی ہے ۔ تو وہ سوچ سکتا ہے کہ بھئی یہ بات ٹھیک نہیں ہے ۔ تو کبھی کبھی تکبر کی وجہ سے بھی ایسا ہوتا ہے ۔ حضرت بایزید بسطامی (رحمۃ اللہ علیہ) کے پاس ایک شخص آئے ،تو حضرت نے ان کو ایک طریقہ بتایا تکبر کو دور کرنے کیلئے ، کیونکہ اس میں تکبر بہت تھا ۔ انہوں نے کہا کہ اخروٹ لے لو ٹوکرا بھر کر اور باہر جاکر کہہ دو کہ جو مجھے ایک دھول مارے اس کو ایک اخروٹ ملے گا ۔ تو اس نے کہا لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ ایسا تو میں کبھی نہیں کرسکتا ۔ تو حضرت نے فرمایا خدا کے بندے اتنا بڑا کلمہ ہے کہ کافر پڑھ لے تو مسلمان ہوجائے ، تو اس کو پڑھ کر کافر طریقت ہوگیا ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس نے کلمہ اس وقت تکبر کے لئے استعمال کیا ۔ کہ گویا اس سے میری شان گھٹ رہی ہے تو میں ایسا کام کروں گا جس سے میری شان گھٹ جائے ۔ تو اس نے بات تو صحیح کی لیکن موقع غلط تھا ۔ موقع اس چیز کا نہیں تھا ۔ اس وقت اس کو بات ماننی چاہیے تھی ۔ تو بعض دفعہ ایسا تکبر کی وجہ سے بھی ہوجاتا ہے ۔

سوال: تصوف کی کتابوں میں بار بار احوال اور مقامات کا ذکر آتا ہے یہ کیا ہوتے ہیں؟

جواب:اللہ تعالیٰ نے ہمارے دل کو اپنے لیے بنایا اور اس میں ہمیں اختیار دے دیا کہ ہم اپنے دل کو اللہ کے لیے مختص کردیں یا اس میں غیر کو بسائیں۔پس جنہوں نے اس کو غیر کے لیے چھوڑا تو وہ ناکام اور نامراد ہوئے اور جنہوں نے اسے اللہ کے لیے فارغ کیا وہ کامیاب ہوئے۔ایسے دل کو سلیم دل کہتے ہیں جس کے لیے ارشاد ہے ” اِلَّا مَنْ اَتَی اللہَ بِقَلْبٍ سَلِیۡمٍ ” یعنی جو اﷲ کے پاس سلیم دل لے آیا ،اب سلیم دل کے اندر کچھ صفات ہونی چاھئییں، جو ان کی اضداد کے دفع ہونے سے حاصل ہوتی ہیں۔ان صفات کو جن کے دل میں ہونے سے دل سلیم بنتا ہے مقامات کہتے ہیں اور یہ اختیاری ہوتے ہیں اس لیے ان کو کسبی بھی کہتے ہیں۔ طریق میں سالک کو بعض دفعہ عجیب و غریب تجربے حاصل ہوتے ہیں۔اس کے دل میں مختلف قسم کی کیفیات پیدا اور ختم ہوتی رہتی ہیں۔ ان کے پیدا ہونے اور ختم ہونے یا بقاء ء پر سالک کو کوئی اختیار نہیں ہوتا ان کیفیات کو احوال کہتے ہیں۔اگر یہ مقامات کے لیے معاون بن جائیں تو محمود ہیں اور اگر مقامات کے لیے نقصان دہ ہوں تو مذموم ہیں۔ بعض احوال میں بالکل ضرر نہیں ہوتا اور بعض سے ضرر ہوسکتا ہے۔ جن سے ضرر نہیں ہوتا ان میں دعا کی قبولیت،الہا م، رویائے صالحہ ،فراست صادقہ ،فناء و بقاء،وحدۃ الوجود مگر ہوش کے ساتھ اور وجد وغیرہ شامل ہیں اور جن سے نقصان ہونے کا اندیشہ ہے ان میں استغراق، تصرف،سکر ،قبض و بسط،مشاہدہ ،کرامت اور کشف وغیرہ شامل ہیں۔

سوال:دل کی اصلاح اور نفس کی اصلاح میں کیا فرق ہے ؟

جواب:دل کا ذکر سے منور کرنا تاکہ اس کا عالم بالا سے تعلق بمقابلہ سفلی دنیا کے زیادہ ہوجائے ،دل کی اصلاح کہلاتا ہے ۔نفس کا فجور کی طرف جو میلان ہے اس کومجاہدے سے اتنا دبانا کہ وہ کالعدم ہوجائے نفس کی اصلاح کہلاتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں ذکر کے ذریعے دل منور کرکے اس کا آئینہ ا تنا صاف کیا جائے کہ اس میں حق حق اور باطل باطل نظر آئے اس کے ساتھ ا پنے نفس کی کمزوریوں کو جاننے لگے ،یہ دل کی اصلاح ہے اس صورت میں دل قلب سلیم بن جائے گا جس کا رب تعالیٰ نے تقاضا کیا ہے اور نفس امّارہ کی شدت کو مجاہدہ کے ذریعے توڑ کر اس کو ندامت آشنا کرتے کرتے اس کو شریعت پر چلنے پر اس طرح آمادہ کیا جائے کہ بالآخر نفس کو شریعت پر چلنے میں مزہ آئے یہ نفس کی اصلاح ہے۔اس صورت میں نفس نفسِ مطمئنہ کہلائے گا۔

سوال:لطائف اور مراقبات کا دل کی اصلاح میں کیا کردار ہے ؟

جواب:اچھا سوال ہے ۔ لطائف اور مراقبات ِ فاعلہ ہیں یعنی انسان کے اندر جو چھپی ہوئی صلاحیتیں ہیں ان کو بیدار کرنے کے لئے جو قوتیں ہیں وہ فاعلہ کہلاتی ہیں ۔ ذکر، مراقبہ، شغل تینوں چیزیں اس میں آجاتی ہیں تو فاعلہ سے دل کی اصلاح ہوتی ہے لہٰذا مراقبات سے بھی دل کی اصلاح ہوتی ہے ۔ لطائف کے مشق سے دل ذکر کا خوگر ہوجاتا ہے اور اﷲ تعالیٰ کو ہر وقت یاد رکھنے کا سلیقہ حاصل کرلیتا ہے اور مراقبات کے ذریعے دل کے سوچ کو مثبت امور کے طرف موڑ دیا جاتا ہے۔آخر میں جب مراقبے کی مشق اتنی ہوجائے کہ اس کے لئے ماحول بنانا ضروری نہ ہو بلکہ یہ ماحول پرغالب آجائے تو ہم کہیں گے دل قلب سلیم بن گیا۔

سوال:ہم کب کہہ سکتے ہیں کہ دل کی اصلاح ضرورت کے درجے میں ہوگئی ہے؟

جواب: جب دل اس پرہر دم راضی رہے جو آپ صلی اللہ علیہ والہ سلم اﷲتعالیٰ کی طرف سے لائے ہیں یعنی شریعت پر۔توہم کہتے ہیں کہ ضرورت کے درجے میں دل کی اصلاح ہوگئی ہے ۔ پس ضرورت کا درجہ یہ ہے کہ انسان گناہ سے بچے ۔ اگر دل اتنا طاقتور ہوگیا ہے کہ انسان کو گناہ سے بچائے ۔ یعنی اس کے اندر ظلمت اور نور کا ادارک ہونا شروع ہوگیا مثلاً ایک آدمی گناہ کی طرف جاتا ہے تو اس کا ظلمت کا احساس ہوجائے اور اس سے رک جائے یا ایک انسان اچھا کام کرے تو اس کو نور کا احساس ہوجائے اور اس پر جم جائے تو اس کا مطلب ہے کہ ضرورت کے درجے کی اصلاح اس کی ہوگئی اب وہ اس کو استعمال میں لاکر اپنے آپ کو گناہ سے بچائے اور اچھے کاموں پر استقامت اختیار کرے۔اس وقت اس کو کہا جائے گا ” اِسْتَفْتِ قَلْبَکْ ” یعنی اپنے دل سے فتویٰ لے کیونکہ قلب سلیم اپنی حالت کو اچھی طرح جانتا ہے اور صحیح بات کا ادراک رکھتا ہے اس لئے صحیح فتویٰ وہی دے گا۔

سوال: دعا کی قبولیت تو ہم جانتے ہیں ،الہام سے کیا مراد ہے ؟

جواب: جب کسی کا دل رذائل سے صاف ہوجاتا ہے تو اس میں مختلف حقائق منعکس ہوتے رہتے ہیں۔ ایسے لوگوں کی منجانب اللہ پھر رہنمائی ہوتی رہتی ہے۔کبھی خواب کے ذریعے کبھی کسی کے بتانے سے اور کبھی بغیر کسی کوشش اور سبب کے۔بس دل میں کوئی بات آجاتی ہے جس میں اس کے لیے اشارہ ہوتا ہے۔آخر الذکر کو الہام کہتے ہیں۔

سوال: کیا الہام پر عمل کرنا لازمی ہے؟

جواب:جس کو الہام ہوا ہے اگر شریعت کے مخالف نہیں تو اس کو اس پر عمل کرنا چاہیئے۔

سوال: دل میں تو طرح طرح کے خیالات آتے ہیں۔ان میں سے الہام کا پتہ کیسے چلے گا؟

جواب:الہام استخارہ کی طرح دل پر وارد ہوتا ہے بس ان میں فرق یہ ہوتا ہے کہ استخارہ میں مسنون طریقے پر باقاعدہ اس کو طلب کیا جاتا ہے اور الہام میں یہ خود بخود منجانب اللہ وارد ہوتا ہے۔ ایک بات البتہ اس میں ہوتی ہے کہ جن کو اﷲ کی طرف سے الھام ہوتا ہے، ان کا دل اللہ تعالیٰ کی طرف مسلسل متوجہ رہتا ہے۔ یہ بھی طلب ہی کی ایک صورت ہوتی ہے۔ جن کو الہام ہوتا ہے ان کو اللہ تعالیٰ وہ علم بھی ساتھ دے دیتا ہے کہ جس سے اس کو دوسروں سے جدا کیا جاسکتا ہے اور وہ علم بھی الہامی ہوتا ہے تاہم بار بار اس کو اس کا تجربہ کرایا جاتا ہے جس سے اس کو اسکا طریقہ سمجھ میں آجاتا ہے۔یہ دوسری بات کہ اس کے الہام کو دوسرے لوگ کیا اہمیت دیتے ہیں؟ تو اس کے لیے یہ کافی ہوتا ہے کہ وہ باقی امور میں کیسا ہے اور اہل اللہ کا اس کے ساتھ کیامعاملہ ہے۔

سوال: اگر اس پر عمل نہ کیا تو کیا اس کو گناہ ہو گا؟

جواب:نہیں گناہ تو نہیں ہوگا کیونکہ یہ ظنی ہے البتہ اس سے دنیا کا نقصان ہوسکتا ہے۔

سوال: کس قسم کا دنیا کا نقصان؟

جواب:مثلاً کبھی اس کو کوئی جسمانی تکلیف پیش آتی ہے ،کبھی کوئی اور پریشانی ہوتی ہے، زیادہ تر یہ ہوتا ہے کہ اعمال میں ذوق و شوق جاتا رہتا ہے۔

سوال: ذوق و شوق کا جاتے رہنا تو دین کا نقصان ہوا؟

جواب:نہیں۔ذوق وشوق دین نہیں دنیا ہے لیکن دین کے لیے معین بن سکتا ہے۔پس اس کے جاتے رہنے سے دین کا نقصان بھی ہوسکتا ہے لیکن اگر سالک بغیر ذوق و شوق کے کام چلائے رکھے تو دین کے نقصان سے بچ جائے گا۔

سوال: رویائے صالحہ سے کیا مراد ہے؟

جواب:اس سے مراد اچھے خواب ہیں۔سالکین کی ان کے ذریعے رہنمائی ہوتی ہے۔ لیکن یہ چونکہ بذات خود مقصود نہیں اور نہ یہ اختیاری ہیں اس لیے اس کے درپے نہیں ہونا چاہیئے۔ حدیث شریف میں خوابوں کی تین قسمیں بیان کی گئی ہیں۔ان میں کچھ خیالات ہوتے ہیں، کچھ شیطان کے اثر سے ہوتے ہیں اور کچھ مبشرات۔ان مبشرات سے مراد اچھے خواب ہیں۔

سوال: کوئی اچھا خواب نظر آئے تو کیا کرنا چاہیئے؟

جواب:کسی خیر خواہ تعبیر دینے والے کو بتانا چاہیئے۔کسی کا مرید ہو تو اپنے شیخ کو بتانا چاہیئے۔اس پر ناز نہیں کرنا چاہیئے نہ ہی اس کو بزرگی کی نشانی سمجھنی چاہیئے۔اس پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہیئے۔

سوال: برا خواب نظر آئے تو کیا کرنا چاہیئے؟

جواب:بائیں طرف تین بار تھتکار کر ” اَعُوْذَ بِاللہِ مِنَ الشَّیۡطٰنِ الرَّجِیۡمِ ” پڑھنی چاہیئے۔

سوال: کسی کو بہت زیادہ خواب نظرآتے ہوں تواس کا کیامطلب ہے ؟

جواب:بعض دفعہ یہ ایک ذہنی بیماری سے بھی آتے ہیں اس کے لیے کسی ڈاکٹر سے رجوع کریں یا پرواہ نہ کریں۔

سوال: خواب کی تعبیر کیسے دیتے ہیں؟

جواب:اس کا بتانا ممکن نہیں۔یہ ایک خدا داد نعمت ہے جس کو ملتی ہے بس وہی صحیح تعبیر د ے سکتا ہے۔اصل میں خواب اور اس کی تعبیر دو آدمیوں کا کشف ہے ،ایک خواب دیکھنے والے کا اور ایک تعبیر دینے والے کا۔یہ دونوں غیر اختیاری اور وہبی ہیں۔ اس لیے جس کو خوابوں کے ساتھ مناسبت نہ ہوچاہے وہ کتنا ہی بڑا عالم ہو خواب کی صحیح تعبیر نہیں دے سکتا۔ البتہ شیخ کا معاملہ مختلف ہے شیخ کو اللہ تعالیٰ اپنے مرید کے لیے اس وقت کشف دے دیتے ہیں چاہے اس کو اس کا پتہ نہ ہو واللہ اعلم۔

سوال: فراست صادقہ کسے کہتے ہیں؟

جواب:یہ دانائی کی ایک خاص قسم ہے جس میں کشف کا پہلو پایا جاتا ہے اور یہ اللہ والوں کو عطا کی جاتی ہے اور اونچے درجے کے احوال میں سے ہے۔ جن لوگوں کے دل صاف ہوتے ہیں ان میں حقائق القاء ہونے لگتے ہیں جس سے ان کو اصل صورت حال کا پتہ چل جاتا ہے۔علوم میں شرح صدر اسی قبیل سے ہے۔صحابہ کرام(رضی اللہ عنہ) کے دور میں ان کی بنائی ہوئی مساجد کا قبلہ درست نکلتا ہے حالانکہ اس وقت قطب نما نہیں تھے۔جو اللہ تعالیٰ کے بن جاتے ہیں اللہ تعالیٰ بھی ان کے ہوجاتے ہیں۔ پھر ان کے ساتھ جو کچھ نہ ہو اس کے بارے میں سوچنا چاہیئے جو ہورہا ہے اس میں کیا سوچنا ؟ کیونکہ اللہ تعالیٰ تو سب چیزوں پر قادر ہیں۔

سوال: وجد کن کو ہوتا ہے اور کیسے ہوتا ہے؟

جواب:وجد صاحب حال حضرات کو ہوتا ہے۔حال جتنا اونچا ہوگا وجد اتنا ہی زیادہ ہوگا۔ لیکن دوسری طرف یہ صاحب وجد کی قوت پر بھی منحصر ہے پس اگر اس کی قوت زیادہ ہوگی تو اس کو تغیر کم ہوگا اور اس کی قوت کم ہوگی تو تغیر زیادہ ہوگا۔اس لیے کاملین اور اسلاف کو زیادہ تغیر نہیں ہوتا تھا۔ اگر وہی احوال موجودہ لوگوں کو پیش آتے تو مرجاتے۔

سوال: وحدۃ الوجود کے بارے میں کچھ بتایئے کیونکہ بعض لوگ اس لفظ سے لوگوں کے دلوں میں عجیب عجیب وسوسے پیدا کرتے ہیں؟

جواب:وحدت کا مطلب ایک ہے اور وجود کا مطلب موجود ہونا ہے پس اس کا لفظی مطلب یہ ہے کہ ایک ہی کا موجود ہونا جس کو ہمہ اوست بھی کہتے ہیں کہ سب کچھ وہی ہے۔ اب اگر ذا ت باری تعالیٰ کے علاوہ کوئی اور موجود ہی نہیں تو قُرآن کس پر نازل ہوا کس کے لیے نازل ہوا ،شریعت کن کے لیے ہے۔مخلوق کون ہے کا جواب نہیں دیا جاسکے گا۔ لیکن اگر اس کا مطلب یہ لیا جائے کہ اللہ تعالیٰ کا تصرف حقیقی ہے اور باقی کا ظلی یعنی ہم جو کچھ بھی کررہے ہیں اس کی فاعل حقیقی اللہ تعالیٰ کی ذات ہے، اس لیے جس کے قلب پر اللہ تعالیٰ کا تصور ایسا چھا جائے کہ باقی کالعدم ہوجائیں تو اس وقت اس کو ہر چیز میں صرف وہی نظر آئیں گے اور کچھ بھی نظر نہیں آئے گا۔الغرض یہ ایک حال ہے اور غلبہ کی ایک کیفیت ہے اصل چیز قُرآن وحدیث ہے اس کے مطابق عمل کرنا ہوتا ہے۔پس اگر اس کو حال کے درجے میں رکھا جائے اور شریعت سے انحراف نہ ہو تو ٹھیک ہے اور اگر اس کو فلسفہ بنایا جائے تو غلط ہے۔

سوال: کیا وحدت الوجود اور وحدت الشہود ایک ہی چیز ہے؟

جواب:جی ہاں یہ ایک ہی چیز کے دو نام ہیں۔پہلی اصطلاح پہلے بزرگوں کے ہاں رہی ہے اور اس کا مفہوم وہی تھا جو بیان کیا گیا لیکن غلط کار لوگوں نے جب اس کو غلط معنی پہنانا شروع کئے تو حضرت مجدد صاحب (رحمۃ اللہ علیہ) نے اس کی تشریح وحدت الشہود کے نام سے کی جس میں غلط معنی کی طرف جانا کم ممکن ہے اس لیے وحدت الشہود کا مطلب بھی وہی ہے جو صحیح وحدت الوجود کا ہے۔

سوال: استغراق سے کیا مراد ہے ؟

جواب:کسی حال میں ایسا غرق ہوجانا کہ موجود حقائق کا پتہ نہ چلے حالت استغراق کہلاتا ہے۔یہ محمود ہے اگر اس سے کوئی شرعی عیب پیدا نہ ہو۔ہمارے اکابر میں جن کو استغراق ہوتا وہ کسی کے ذمے ڈیوٹی لگاتے کہ نماز کے لیے ان کو اس حالت سے نکالاجائے۔ پس حضرت شیخ عبد القدوس گنگوہی (رحمۃ اللہ علیہ) کو نماز کے لیے ان کے کان میں حق حق کے نعرے لگا کر جگایا جاتا۔عام لوگ اس کو بڑا کمال سمجھتے ہیں لیکن اگر یہ کوئی بڑی بات ہوتی تو آپ صلی اللہ علیہ والہ سلم یہ نہ ارشاد فرماتے کہ میرا دل چاہتا ہے کہ نماز کو طول دوں لیکن نماز میں کسی بچے کی آواز کو سن کر تخفیف کردیتا ہوں کہ اس کی ماں پریشان نہ ہو۔اس کی تشریح بھی وہی ہے جو وجد کی صورت میں گزرگئی۔

سوال: اگر کسی امام کو استغراق ہو تو اس کو کیسے جگایا جائے؟

جواب:ایسا شخص جس کو ایسا ہوتا ہو امام نہ بنے۔ہاں اگر اتفاق سے ایسا کبھی ہوجائے تو مقتدی اس کو لقمہ دے سکتے ہیں۔اگر لقمہ سے بھی کام نہ بنے تو پھر نماز دوبارہ کسی اورسے پڑھوانی ہوگی۔

سوال: کیا ایک انسان دوسرے انسان میں تصرف کرسکتا ہے ؟ جیسا کہ بعض سمجھتے ہیں؟

جواب: اپنے ارادے اور ہمت کو کسی خارجی جسم میں خاص کام پر مرکوز کرکے کوئی کام اس سے کروانا یا اس میں کوئی تبدیلی لانا تصرف کہلاتا ہے۔ایسا ہوسکتا ہے ، جیسا کہ مسمریزم وغیرہ میں ایک انسان دوسرے انسان کومتاثر کرتا ہے۔جس سے بعض دفعہ عجیب عجیب چیزیں وجود میں آتی ہیں۔اس طرح شیخ مرید کے اندر اپنے قوت خیالیہ سے تاثر پیدا کرسکتا ہے۔پس مسمریزم اور روحانی تصرف ایک ہی قوت سے آتے ہیں لیکن ایک کا استعمال غلط جگہ ہے دوسرے کا صحیح جگہ۔

سوال: تو کیا بزرگ بھی توجہ دیتے ہیں ؟نیز کیا ان کی توجہ سے کام ہوجاتے ہیں؟

جواب: جی ہاں ۔توجہ دیتے ہیں ۔اکثر نقشبندی حضرات اس سے کام لیتے ہیں۔قلبی ذکر چلانے کیلئے وہ عموماً توجہ سے کام لیتے ہیں

سوال: سکر کے بارے میں ہمارے اکابر کی کیا تحقیق ہے ؟

جواب:کسی حال کے غلبہ سے ظاہری او رباطنی احکام میں تمیز کا اٹھ جانا سکر ہے اور اس امتیاز کا واپس آنا صحو ہے۔حضرت عمر (رضی اللہ عنہ) کا آپ صلی اللہ علیہ والہ سلم سے یہ کہنا کہ آپ عبدللہ بن ابی پر نماز جنازہ پڑھتے ہیں حالانکہ آپ کو اللہ تعالیٰ نے اس سے منع فرمایا ہے۔یہ بغض فی اللہ کے غلبہ سے سکر کی وجہ سے تھا کیونکہ بعد میں جب اس سے افاقہ ہوا تو خود فرماتے ہیں کہ مجھے اپنی اس جرأت پر تعجب ہوا۔ ناقصین کو یہ حالت زیادہ پیش آتی ہے لیکن کبھی کبھی حال کے بہت قوی ہونے کی وجہ سے کاملین کو بھی پیش آسکتی ہے جیسا کہ حضرت عمر (رضی اللہ عنہ) کے ساتھ پیش آئی۔

سوال: اگر کسی سالک سے سکر کی حالت میں کوئی کلمہ ایسا نکل جائے جو شریعت کے مطابق نہیں تو جب اس کو افاقہ ہوجائے تو اس کو کیا کرنا چاہیئے؟

جواب:صحو کی حالت میں اس کو اشک ندامت اور استغفار سے ا س کی تلافی کرنی چاہیئے۔ ہوش کی حالت میں ضبط لازم ہے۔اگر چہ حالت سکر میں یہ الفاظ گناہ میں نہیں آتے کیونکہ اس وقت وہ ہوش میں نہیں ہوتے۔ لیکن چونکہ صحو کا بالکل نہ ہونا ثابت کرنا بہت مشکل ہے اس لیے استغفار لازم ہے تاکہ کسی ممکنہ غلطی کی تلافی ہوجائے۔

سوال: قبض اور بسط کیا ہوتے ہیں ؟

جواب:واردات کا انقطاع جو کسی مصلحت سے ہوتا ہے قبض کہلاتا ہے اور ان واردات کا حاصل ہونا بسط۔جب محبوب کی تجلی جلالی سالک کے قلب پر پڑتی ہے تو اس سے سالک دہشت میں آجاتا ہے اور عالم خوف میں دل گرفتہ ہوجاتا ہے جس سے اس کے دل کا سرور اور اطمینان تہس نہس ہوجاتا ہے اور سالک اپنے آپ کو مردود خیال کرکے زندگی سے بیزار ہوجاتا ہے کیونکہ جس کے لیے اس نے سب کو چھوڑا تو اب بظاہر اس کو یہ محسوس ہوتا ہے کہ اس محبوب نے مجھے چھوڑدیا۔اس سے غموں کا پہاڑ اس کے دل پر آجاتا ہے جس سے بعض اوقات خود کشی تک کی نوبت آسکتی ہے۔اس وقت شیخ کامل کی بڑی ضرورت ہوتی ہے جو اس کی تسلی اور توجہ سے مدد کرتے رہتے ہیں جب تک کہ وہ اس حالت سے نکل نہ جائے۔

سوال: کیاقبض میں بھی کوئی مصلحت ہوسکتی ہے؟

جواب:اس میں بہت ساری مصلحتیں ہوسکتی ہیں جن کی تفصیل یہاں ممکن نہیں البتہ مختصراً یہ سمجھنا چاھئیے کہ ہم یہاں پر آزمائش کے لیے آئے ہیں اور اللہ تعالیٰ ہمیں ہر طرح آزما سکتے ہیں۔ دوسرا اچھے اعمال کرتے کرتے سالک عجب میں مبتلا ہوسکتا ہے جس کی وجہ اپنے پر نظر ہوتی ہے۔ قبض میں اس کی نظر محبوب کے جلا ل اور استغناء کی طرف کر دی جاتی ہے جس سے عجب اور تکبر کی جڑ کٹ جاتی ہے۔حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی (رحمۃ اللہ علیہ) قبض کو لطف بصورت قہر کہتے تھے۔

سوال: کیا ہمیشہ قبض ان ہی وجوہات سے ہوتا ہے ؟

جواب:نہیں کبھی کبھی اس قسم کے حالات سوء اعمال ،رزق حرام یا کسی اخلاقی غلطی کی وجہ سے بھی ہوتے ہیں۔اس وقت استغفار ہی اس کا علاج ہے۔

سوال: اس کا پتہ کیسے چلے گا کہ یہ قبض ہے یا سزا ؟

جواب:شیخ کامل اسی لیے تو ہوتا ہے۔اس کے ساتھ رابطہ رکھا جائے۔قبض سمجھ کر صبر کرنا اور سزا کے امکان سے استغفار کرنا مناسب علاج معلوم ہوتا ہے۔

سوال: مشاہدہ سے کیا مراد ہے ؟

جواب:کسی امر کے استحضار کا دل پر غالب ہوجانا اصطلاحاً مشاہدہ کہلاتا ہے۔اللہ تعالیٰ کا استحضار اگر نصیب ہوجائے تو مشاہدہ کہلائے گا۔اس کو کیفیت حضوری بھی کہتے ہیں۔بندہ اس کے دوام کا متحمل نہیں ہوتا اس لیے دوسرے اعمال میں مشغول کردیا جاتا ہے۔ حضرت حنظلہ (رضی اللہ عنہ) سے ایک لمبی حدیث میں روایت ہے۔میں نے کہا کہ ہم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ سلم کی خدمت میں موجود ہوتے ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ والہ سلم ہم کو دوزخ اور بہشت کی یاد دلاتے ہیں تو اس وقت ایسے ہوتے ہیں گویا کھلی آنکھوں سے ان کو دیکھ رہے ہیں۔

سوال: کرامت کسے کہتے ہیں؟

جواب:اگر نبی کے کسی متبع کے ہاتھ پر کوئی ایسا کام صادر ہوجائے جو کہ عام لوگ نہیں کرسکتے وہ کرامت کہلاتا ہے۔ہر عجیب کام کو کرامت نہیں کہتے پس اگر کوئی فاسق و فاجر ، بدعتی یا غیر مسلم ہے تو اس کے ہاتھ پر کوئی عجیب کام واقع ہو تو وہ استدراج کہلائے گا۔

سوال: معجزہ اور کرامت میں کیا فرق ہے ؟

جواب:معجزہ اور کرامت میں کمیت اور کیفیت کا فرق نہیں ہوتا کیونکہ دونوں اللہ تعالیٰ کے فعل ہیں ،صرف بندے کے ہاتھ پر اس کا ظہور ہوتا ہے لیکن معجزہ نبی کی نبوت کی نشانی اور کرامت ولی کی تائید الٰہی ہوتی ہے۔

سوال: کیا اصحاب کرامت ان حضرات سے جن کے ہاتھ پر کرامت واقع نہیں ہوتی افضل ہوتے ہیں ؟

جواب:بالکل نہیں،ورنہ وہ صحابہ جن کے ہاتھ پر کرامت واقع نہیں ہوئی وہ ان اولیاء سے کم تر قرار پائیں گے جن کے ہاتھ پر کثیر تعداد میں کرامات واقع ہوتی رہی ہیں۔

سوال: اگر ایسا ہے تو کرامت پھر کس لیے ہوتی ہے ؟

جواب:جیسا کہ کہا گیا ہے کہ کرامت تائید الٰہی کے اظہارکے لیے ہوتی ہے۔بعض کو اس کے ظہور کی ضرورت نہیں ہوتی سو ان کے ہاتھ پر کرامات واقع نہیں ہوتیں۔جہاں تک قرب کی بات ہے اس میں کرامت کو دخل نہیں کیونکہ اس کا مرتبہ ذکر لسانی سے بھی کم ہے۔ ایک شخص ہے اس کے ہاتھ پر بڑی کرامت واقع ہوئی اور دوسرے شخص کو اس وقت ایک دفعہ سبحان اللہ کہنے کی توفیق ملی۔تو پہلے صاحب کے قرب میں کرامت سے کوئی اضافہ نہیں ہوا جبکہ دوسرے شخص کے قرب میں سبحان اللہ کہنے سے اضافہ ہوا۔

سوال: کیا کرامت ولی کے ارادے پر ہوتی ہے؟

جواب:ضروری نہیں۔بعض دفعہ خود اس ولی کو بھی پتہ نہیں ہوتا۔بعض دفعہ پتہ چل جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ جب چاہے کسی کے ہاتھ پر بھی کرامت کا اظہار کر دے۔

سوال: کشف کسے کہتے ہیں ؟ کیا اس کو حاصل کرنے کے لیے محنت کرنی چاہیئے؟

جواب: کشف کسی پردے والی چیز کے ظاہر ہونے کو کہتے ہیں۔اللہ تعالیٰ نے بہت ساری چیزیں پیدا کی ہیں جن پر پردے پڑے ہوئے ہیں یا بہت سارے واقعات ہوئے ہیں، ہورہے ہیں یا ہوں گے اور ان پر پردے پڑے ہوئے ہیں اگر اللہ تعالیٰ ان کو کسی پر ظاہر کردیں تو یہ کشف کونی کہلاتا ہے۔اس میں کافر و مسلمان کی بھی تخصیص نہیں۔کیونکہ یہ دنیا کی چیزیں ہیں جس طرح اللہ تعالیٰ بعض کی نظر تیز اور بعض کی کم رکھتے ہیں اسی طرح کسی پر زیادہ چیزوں اورواقعات کو ظاہر کرتے ہیں کسی پر کم۔ اس طرح بہت سے علوم و معارف اور اسرار ہیں جو عام لوگوں کی دسترس سے باہر ہیں اور بعض خوش قسمتوں کو ان میں سے کچھ عطا فرمادیتے ہیں۔اس کو کشف الٰہی کہتے ہیں۔ یہ البتہ ایک عظیم نعمت ہے لیکن غیراختیاری ہونے کی وجہ سے کوئی اس کے بھی درپے نہ ہو کیونکہ قبولیت کا دارومدار معلوم چیزوں میں خدا کی مرضی کے مطابق زندگی گزارنے پر ہے۔ پس جتنا علم ضروری ہے اس کا تو حاصل کرنا ضروری ہے اور وہ کسبی اور اختیاری ہے اور جو غیر اختیاری ہے اس کے بارے میں فیصلہ اللہ پر چھوڑ دینا چاہیئے۔

سوال: جو بات کشف سے معلوم ہو کیا اس پر عمل ہوسکتا ہے ؟

جواب: عمل شریعت کے مطابق ہونا چاہیئے، چاہے اس کو کشف ہو یا نہ ہو کیونکہ شریعت وحی سے ہے اور ہمارے کشف کا کوئی اعتبار نہیں۔ٹھیک بھی ہوسکتا ہے اور غلط بھی ۔پس یقینی کے مقابلے میں ظنی کی کیا حیثیت ہے!

سوال: کیا کشف میں اپنے اختیار کو دخل ہے ؟

جواب:ضروری نہیں۔اللہ تعالیٰ کسی وقت اختیار دے سکتا ہے ورنہ بعض اوقات صاحب کشف کو بھی اسی وقت پتہ چلتا ہے جس وقت وہ کام ہورہا ہو۔حضرت عمر (رضی اللہ عنہ) اور حضرت ساریہ (رضی اللہ عنہ) کا واقعہ اس کی دلیل ہے۔

سوال: اگر کشف شریعت کے مطابق تو ہے لیکن دو کشفوں میں اختلاف ہے تو کس کو ترجیح حاصل ہے؟

جواب:اگر وہ دونوں کشف ایک شخص کے ہیں تو آخری کشف کو ترجیح ہوگی اور اگر مختلف شخصوں کے ہیں تو جو ہوش میں ہے اس کے کشف کو ترجیح ہے اور اگر دونوں ہوش میں ہیں تو جس کا کشف اکثر شرع کے مطابق ہو اس کے کشف کو ترجیح ہے اور اگر اس میں برابر ہیں تو جس میں آثار قبولیت زیادہ نمایاں ہیں اس کو ترجیح ہوگی اور اگر اس میں بھی برابر ہیں تو جس کو دل زیادہ قبول کرے۔ اور اگر ایک کشف ایک شخص کا ہے اور دوسرا جماعت کا، تو جماعت کو ترجیح ہے لیکن اگر وہ اکیلا تنہا زیادہ اکمل ہے تو پھر تنہا اسی کا کشف زیادہ قابل اعتبار ہوگا۔واللہ اعلم۔

سوال: کسی کے دل میں اگر حقائق و معارف نزول کریں تو اس کے ساتھ کیا معاملہ کرنا چاہیے؟

جواب:جیسا کہ سیریہ میں ابو سلیمان دارانی کا قول ہے کہ اس کو دو گواہوں پر پیش کرنا چاہیے ایک کتاب اللہ اور دوسری سنت رسول صلی اللہ علیہ والہ سلم۔اگر یہ تائید کریں تو قبول ہے ورنہ رد۔

سوال: یہ حقائق و معارف کیسے حاصل ہوسکتے ہیں؟

جواب:اللہ تعالیٰ اور رسول صلی اللہ علیہ والہ سلم کی اطاعت میں لگ جائے تو خود ہی سب حقائق و معارف منکشف ہونے شروع ہوجائیں گے۔

سوال: ولی سے کیا مراد ہے؟

جواب: ولی سے مراد اللہ تعالیٰ کا دوست ہے۔

سوال: اولیاء اللہ کی کتنی قسمیں ہیں ؟

جواب: دو قسم کے ہوتے ہیں۔تشریعی اولیاء اور تکوینی اولیاء۔تشریعی اولیاء انبیاءعلیہم السلام کے نائب ہوتے ہیں اور لوگوں کی ہدایت پرمامور ہوتے ہیں۔ان میں سب سے بڑے کو قطب ارشاد کہتے ہیں۔تکوینی اولیاء فرشتوں کی طرح ہوتے ہیں۔ان کے ذمّے جو کام ہوتے ہیں وہ کرتے رہتے ہیں۔یہ عموماً خستہ حال ہوتے ہیں اس لیے عام لوگ ان کو پہچان نہیں سکتے۔ان میں سب سے بڑے کو قطب تکوین کہتے ہیں۔ بعض اولیاء اللہ تعالیٰ نے صرف اپنے لیے پیدا کئے ہوتے ہیں۔وہ اللہ کی محبت میں مست ہوتے ہیں۔ان کو کسی اور چیز کی پرواہ نہیں ہوتی اور ان میں سے بعض کو اللہ تعالیٰ نے مخلوق کی نظر سے چھپایا ہوتا ہے اس لیے ان کو کوئی اور شخص نہیں جانتا۔

سوال:کہتے ہیں کہ اولیاء میں بعض مجذوب بھی ہوتے ہیں۔یہ مجذوب کون ہوتے ہیں؟

جواب:عوام مجذوب ان کو سمجھتے ہیں جو شریعت پر نہیں چلتے لیکن ان کا مرتبہ بہت بڑا ہوتا ہے اس لیے لوگ ان کے پیچھے پیچھے ہوتے ہیں۔اس بات کی اصلاح ہونی چاہیئے۔ مجذوب اصل میں ان کو کہتے ہیں جن کو اللہ تعالیٰ اپنی طرف کھینچے۔ان میں سے بعض کا ہوش و حواس بالکل ختم ہوجاتا ہے۔ جس سے وہ مرفوع القلم ہوجاتے ہیں اس لیے ان پر شریعت کے احکام لاگو نہیں ہوتے۔ان حضرات کا مقام اللہ تعالیٰ کے نزدیک ہوتا ہے لیکن لوگوں کے لیے قابل تقلید نہیں ہوتے۔اللہ تعالیٰ کے محبوب ہونے کی وجہ سے ان کی بے ادبی نہیں کرنی چاہیئے۔اس لیے اگر کبھی سامنے آئیں تو اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کی خاطر ان کی خدمت بھی کرنی چاہیئے لیکن ان کی تقلید بالکل نہیں کرنی چاہیئے۔ کیونکہ اس سے حضورصلی اللہ علیہ والہ سلم کی شریعت کی توہین ہوگی جس کی قطعی اجازت نہیں۔بعض کا ہوش و حواس تو ختم نہیں ہوتا لیکن چونکہ راستہ ایک ہی جست میں طے کیا ہوتا ہے اس لیے یہ حضرات عموماً دوسروں کی اصلاح نہیں کرسکتے۔ البتہ ان میں سے بعض کو بعد میں اصلاح کے طریقوں سے گزارا جاتا ہے جس سے ان کوبھی راستہ نظر آجاتا ہے۔ یعنی ان کو باقاعدہ سلوک طے کرایا جاتا ہے۔ایسے حضرات کو مجذوب سالک کہتے ہیں اور ان کی تقلید میں بڑی برکت ہوتی ہے کیونکہ یہ مقبول بھی ہوتے ہیں اور عارف بھی۔

سوال: کیا سلوک طے کرنے کے بعد بھی جذب ہوسکتا ہے؟

جواب:جی ہاں۔بعض لوگ باقاعدہ سلوک طے کرتے ہیں اور جب رذائل سے ان کو چھٹکارا مل جاتا ہے اور فضائل سے ان کا قلب آراستہ ہوجاتا ہے تو اللہ تعالیٰ کی تجلی ِجذب ان کو کہیں سے کہیں پہنچا دیتی ہے۔ایسے لوگوں کو سالک مجذوب کہتے ہیں۔یہ بھی مقتدا بن سکتے ہیں اور اکثر لوگ اسی طریقہ پر چلتے ہیں۔

سوال: کیا مجذوب بننے کے لیے کوئی کوشش کرسکتا ہے یعنی کیا وہ اس کی طلب کرسکتا ہے؟

جواب:مجذوب سالک تو اللہ تعالیٰ کے چناؤپر ہے اس لیے ان کو تو پتہ ہی اس وقت چلتاہے جب ان کو کھینچا گیا ہوتا ہے۔سالک مجذوب میں بھی محنت سلوک کی ہوتی ہے بعد میں اللہ تعالیٰ اپنی فضل سے کھینچتے ہیں کسی کو جلدی کسی کو دیر سے۔ہمارا کام تو آپ صلی اللہ علیہ والہ سلم کی اتباع کرنا ہے۔اس میں قُرآن پاک کے ارشاد” قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ ” کے مطابق خود بخود جذب ہے۔

سوال: کیا مجذوب کو غیب کی باتیں معلوم ہوجاتی ہیں؟ کیا اس سے دعا کے لیے کہا جاسکتا ہے ؟

جواب: غیب کی باتوں کا پتہ تو صرف اللہ تعالیٰ کو ہے البتہ جس وقت اللہ تعالیٰ جس کو بھی کسی بات کا علم دے تو اس کو اس بات کا پتہ چل جاتا ہے۔ان کو غیب کی خبریں کہتے ہیں اور یہ کشف کی قبیل سے ہیں۔ تو جن مجاذیب میں عقل نہیں ہوتی اکثر ان کو کشف زیادہ ہوتا ہے۔ان سے دعا کی درخواست کرنا عبث ہے کیونکہ ان میں عقل نہیں ہوتی کچھ بھی کردے کوئی پتہ نہیں۔بلکہ بعض اوقات ان کو کشف ہوجاتا ہے تو اس کے خلاف تو یہ دعا کرنے سے رہے البتہ اپنا کشف بتادیتے ہیں۔

سوال: اس سے یہ فائدہ تو ہوا نا کہ اپنے بارے میں پتہ چلا؟

جواب:ہاں پتہ تو چل سکتا ہے لیکن پتہ لگنے سے کیا فائدہ اگر اچھا ہو اتو اچھا بتائیں گے اور برا ہوا تو برا بتائیں گے۔اس میں تبدیلی تو ہونے سے رہی۔البتہ جو اولیاء ہوش میں ہوتے ہیں۔ ان کے پاس جانے سے فائدہ ہوتا ہے کہ وہ دعا بھی کرتے ہیں اور تربیت بھی۔

سوال: اعمال قلب کو تو ہم جانتے ہیں۔یہ اعمال قالب کیاہوتے ہیں ؟/strong>

جواب:اعمال قالب سے مراد ظاہر شریعت کے اعمال مثلا ً نماز روزہ زکوٰۃ ،صدقات وغیرہ ہیں۔ پس قلندر ظاہر اعمال جیسے ظاہر کے نوافل وغیرہ کا بمقابلہ اعمال قلب کے اہتمام کم کرتا ہے۔یہ بھی ممکن ہے کہ اعمال ظاہرہ کے اہتمام میں عام اولیاء کی طرح ہو لیکن اعمال قلب میں خاص اولیاء میں ہو۔اس کے بارے میں زیادہ تفصیل حضرت مولانا اشرف علی تھانوی (رحمۃ اللہ علیہ) کے وعظ ”طریق قلندر” میں دیکھیئے۔

سوال: کتابوں میں مبتدی، متوسط اور منتہی کے الفاظ آتے ہیں ان کا کیامطلب ہے؟

جواب:مبتدی وہ ہیں جو سلوک کی راہ پر ابھی چلے ہیں۔یہ طالب تو ہوتے ہیں لیکن راستے سے ناواقف ہوتے ہیں۔متوسط وہ طالبین ہیں جو کچھ سلوک طے کرچکے ہیں۔یہ عموماً کیفیات آشنا ہوتے ہیں لیکن بے اعتدالی کے ساتھ۔عوام ان ہی کو کامل سمجھتے ہیں کیونکہ ان کی مثال ہرے بھرے کھیت کی ہوتی ہے۔چونکہ ان کے اعمال میں رنگ زیادہ ہوتا ہے اس لیے لوگوں کے لیے جاذب ہوتے ہیں۔ منتہی کاملین ہوتے ہیں۔ان میں کیفیات اعتدال کے ساتھ ہوتی ہیں۔یہ ابوالحال ہوتے ہیں، اخفاءبھی جانتے ہیں اوراظہار بھی۔عوام میں ان کی پذیرائی عموماً کم ہوتی ہے کیونکہ ان کے بعض احوال مبتدیوں کی طرح ہوتے ہیں۔ان کی مثال پکی ہوئی فصل کی طرح ہوتی ہے کہ کام کی تو وہی حالت ہوتی ہے لیکن جاذب نظر نہیں ہوتی۔

سوال: نسبت کا کیا مطلب ہے؟

جواب:نسبت کا مطلب ہے لگاؤ اور تعلق۔بندے کا حق تعالیٰ کے ساتھ ایک خاص لگاؤ جیسا کہ عاشقِ مطیع اور وفادا رمعشوق میں ہوتا ہے۔بندے کی طرف سے سنت پر چلنے کا اہتمام اور رب کی طرف سے دم بدم قبولیت ،یہ نسبت کہلاتی ہے۔اس کا اندازہ کاملین کو ہوجاتا ہے ورنہ صاحب نسبت تو خود کو ہیچ در ہیچ سمجھتا ہے۔وہ تو اپنے آپ کو مبتدیوں کی فہرست میں بھی نہیں سمجھتا البتہ امتثال امر کے طور پرڈیوٹی سے منہ نہیں موڑتے۔

سوال: نفس کسے کہتے ہیں؟

جواب:یہ عربی کا وہ لفظ ہے جس کا مفہوم کافی وسیع ہے۔ یہ انسان کے اندر ایک ایسی حیوانی قوت ہے جسکے ذریعے خواہش کی جاتی ہے۔یعنی اس کو مبداء خواہش کہنا چاہیئے۔

سوال: سلوک میں کن چیزوں سے بچنا بہت ضروری ہے ؟

جواب:چند چیزیں جو کہ سلوک کیلیے زہر قاتل ہیں ان میں تصنع ،تعجیل ،حسن پرستی ،مخالفت سنت اور مخالفت شیخ آتے ہیں۔ان سے بچنا ازحد ضروری ہے ورنہ سارے کئے کرائے پر پانی پھر جاتا ہے۔

سوال: تصنع سے کیا مراد ہے؟

جواب:مصنوعی طور سے اپنے آپ کو صاحب حال یا بزرگ ظاہر کرنا تصنع ہے۔اس سے وہ امور مستثنیٰ ہیں جن کی شریعت میں اجازت یا حکم ہے۔

سوال: کیا تصنع میں کچھ چیزیں جائز بھی ہیں؟

جواب: جی ہاں۔مثلاً دعا میں رونے کے بارے میں ارشاد ہے کہ رونا نہ آئے تو رونے کی شکل بنائے۔ یہ گو کہ تصنع ہے لیکن مطلوب ہے اور مراد اس سے بتکلف عاجزی کا اظہار ہے۔

سوال: اگر کسی کو خلافت نہ ملی ہو لیکن وہ مرید کرنا شروع کردے تو کیا یہ بھی تصنع ہے؟

جواب:کیوں نہیں یہ تو تصنع کی انتہا ہے۔حدیث شریف میں ہے کہ جو شخص ایسے امر کا اظہار کرے جو اس کو نہیں ملا تو اس کی مثال ایسی ہے جیسے کسی نے دونوں کپڑے جھوٹ کے پہن لئے۔ پس بلا خلافت مرید کرنا توصریح دھوکہ ہے اللہ تعالیٰ اس سے ہر مسلمان کو بچائے۔

سوال: اگر اس سے اس کے مریدوں کو دینی نفع ہو تو کیا پھر بھی ناجائز ہے ؟

جواب:جی ہاں پھر بھی ناجائز ہے۔حدیث شریف میں کہ بعض اوقات اللہ تعالیٰ کسی فاسق کے ذریعے اپنے دین کی نصرت کراتا ہے۔پس مریدوں کو نفع ہونا ناممکن نہیں۔عین ممکن ہے کہ ان کے اخلاص کی برکت سے اللہ تعالیٰ پیر کو نوازدے لیکن خود یہ پیر توپکڑا جائے گا کہ اس نے لوگوں کے ساتھ دھوکہ کیا۔ دین کی خدمت صرف پیری میں تو نہیں کوئی بھی دین کا کام کیا جاسکتا ہے۔ اگر کسی کو دین کے کام کا شوق ہے تو علماء کرام کے ساتھ رابطہ قائم کرے وہ اس کو اس کے مناسب، دین کا کوئی کام سمجھا دیں گے۔اور نہیں تو موجودہ تبلیغی جماعت کے ساتھ مل کر دین کا کام کرسکتے ہیں۔

سوال: کتابوں میں لکھا ہے کہ بعض لوگ ابولحال ہوتے ہیں یعنی کوئی بھی حال اپنے اوپر طاری کرسکتے ہیں اور ان کو کاملین میں سے بتایا جاتا ہے تو کیا یہ تصنع میں داخل نہیں؟

جواب: نہیں۔کیونکہ تصنع کی تعریف یہ ہے کہ کسی کو کوئی حال نصیب نہ ہو اور وہ اس کو ظاہر کرے۔یہاں تو ان کو وہ حال نصیب ہوتا ہے اگر چہ اس وقت ہوتا ہے جس وقت ان کی مرضی ہوتی ہے پس اس وقت وہ صاحب حال ہوتے ہیں اس لیے ان کو ابو الحال کہا گیا۔

سوال: تعجیل سے آپ کا کیا مطلب ہے ؟

جواب:تعجیل جلدی کرنے کو کہتے ہیں۔ یہاں جو لوگ ثمرات کی جلدی کے طالب ہوتے ہیں ان کے اس عمل کو تعجیل کہتے ہیں۔

سوال: یہ بات تو سمجھ میں آگئی کہ تعجیل نہیں کرنی چاہیئے لیکن اگر تعجیل کسی نے کرلی تو اس سے نقصان کیا ہوا؟

جواب:ایسا شخص اپنے شیخ پر بد اعتقاد ہوجاتا ہے جس سے اس کے فیض سے محروم ہوجاتا ہے۔ اس وجہ سے وہ بعض اوقات اپنا حال کسی اور پر ظاہر کردیتا ہے جس سے اس کو روحانی نقصان ہوسکتا ہے۔ہرجائی بن جاتا ہے اور کسی جگہ قابل اعتماد نہیں ٹھہرتا۔ ہوتے ہوتے یہ اللہ تعالیٰ سے بھی ناراض ہوجاتا ہے اورخسر الدنیا والآخرۃ کا مصداق بن جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ سب کو برے انجام سے بچائے۔

سوال:کچھ لوگوں کی اصلاح جلدی ہوجاتی ہے اور کچھ کی بہت دیر میں ۔وہ کونسے عوامل ہیں جو کہ کسی کی اصلاح میں رکاؤٹ بنتے ہیں مثلاً بعض لوگ برابر خانقاہ میں آتے ہیں اور ایک ہی جیسے معمولات ہوتے ہیں پھر بھی اصلاح کی رفتار میں فرق ہوتا ہے۔

جواب:بعض دفع نیت کا فتور ہوتا ہے مثلاً کوئی محض اپنی اصلاح کے لئے آتا ہے اس سے اس کا کوئی اور غرض مطلوب نہیں ہوتا جبکہ بعض پیر بننے کے لئے کوشش کرتے ہیں۔معمولات کے علاوہ بعض لوگ پیر کے ساتھ ایسی محبت رکھتے ہیں کہ ان کو اپنی ہستی پیر کے سامنے نظر ہی نہیں آتی گویا وہ پیر میں فناء ہوجاتا ہے پس اگر اس کا پیر صحیح ہے تو اس کی اصلاح اس رفتار سے ہوتی ہے کہ جو سمجھ میں آنا والا نہیں ہوتا جبکہ دوسرے مانتے تو کسی حد تک ہیں لیکن وہ فناء نہیں ہوتے تواس سے فرق تو پڑے گا ۔اسی طرح کچھ اور عوامل بھی ہوسکتے ہیں۔وجہ کچھ بھی ہو اس کی وجہ سے اس کو اس دوسرے مرید سے حسد نہیں ہونا چاہیئے اور پیر پر بدگمان نہیں ہونا چاہیئے ۔اگر یہ دو باتیں نہ ہوں اور وہ مرید اپنی کوتاہیوں پر نظر رکھے تو اﷲ تعالیٰ اس کی مدد کرکے اصل تک پہنچا ہی دیتے ہیں چاہے تھوڑی دیر بھی ہوجائے بصورت دیگر سارا معاملہ ہی چوپٹ ہوجاتا ہے۔اﷲ تعالیٰ ایسی حالت سے بچائے ۔

سوال: اگر کوئی بدنظری میں مبتلا ہو تو اس کا آسان علاج کیا ہے؟

جواب:اللہ والوں کے ساتھ تعلق قائم کرے۔جیسا وہ بتائیں اسی طرح کرے۔یہ تو ہے اصل علاج۔باقی یہ سوچ کہ جن کو میں گھور رہا ہوں تو اگر ان کے بڑوں کو خبر ہوئی تو کتنا برا ہوگا۔سب سے بڑھ کر کہ اللہ تعالیٰ مجھے دیکھ رہا ہے۔اگر مجھے اس وقت موت آجائے تو یہ کیسی موت ہوگی۔اللہ بچائے۔یہ بدنظری ایسی بری بلا ہے کہ ہفتوں کی روحانیت کو آن کی آن میں ختم کردیتی ہے۔اس سے بچنا چاہیئے۔

سوال:تصوف میں بعض طریقے سنت سے ثابت نہیں تو کیا یہ بھی مخالفت ِ سنت میں آئیں گے؟

جواب:اگر وہ طریقے سنت کے ساتھ ٹکرائیں تو پھر تو مخالف ِسنت ہیں ہی البتہ جو طریقے سنت کے مطابق تو نہیں لیکن مخالف بھی نہیں یعنی شرعاً ممنوع نہیں یعنی ان کو ذرائع کے طور پر متعارف کیا گیا ہے تو جب تک ان کو ذرائع سمجھا جارہا ہے اور ان کو مقاصد نہیں سمجھا جارہا تو اس سے سنت کی مخالفت نہیں ہوگی۔

سوال: مشکل ہے ،سمجھ میں نہیں آرہا۔کیا آپ مثالوں سے اپنے جواب کو واضح کرسکتے ہیں؟

جواب: جی ہاں۔کوشش کرسکتے ہیں۔مثلاً کوئی شخص داڑھی نہیں رکھتا یا ایک مشت سے کم رکھتا ہے یہ مخالفت سنت ہے اور موانع میں سے ہے۔کوئی کم داڑھی رکھ کر اپنی روحانی ترقی کی اس لگائے تو یہ اپنے آپ کو دھوکہ دینا ہے لیکن ذکر بالجہر یا مراقبات کے جو طریقے سنت سے ثابت نہیں لیکن ان کو تعلق مع اللہ کے حاصل کرنے کا ذریعہ بنایا جائے تو یہ سنت کی مخالفت نہیں بلکہ علاج ہے اور علاج میں اجتہاد جاری ہے۔

سوال: ایک صوفی کو کیا کرنا چاہیے؟

جواب: ایک صوفی کو صحابہ کے نقش قدم پر چلنا چاہیے کہ صحابہ صحیح متبع سنت تھے۔اس سے ذرا بھی نہیں ہٹنا چاہیئے۔نہ صرف ظاہر میں بلکہ باطن میں بھی۔جس طرح صحابہ اپنے ظاہر کے ساتھ باطن کا بھی احتساب کرتے تھے اس طرح صوفی کو بھی کرنا چاہیئے۔اتباع سنت میں ہی ترقی ہے۔حضرت نوری (رحمۃ اللہ علیہ) فرماتے ہیں کہ جس کو دیکھو کہ اللہ تعالیٰ کی قربت اور معیت کا ایسی حالت میں دعویٰ کرتا ہے کہ جو حد شرعی سے خارج ہے اس کے قریب بھی نہ پھٹکو۔

سوال: آپ نے کہا تھا کہ شیخ کی مخالفت سے بھی طریقت میں ترقی رک جاتی ہے اس کا کیا مطلب ہے؟

جواب:شیخ کی اتباع تو تربیت باطنی کا بنیادی نقطہ ہے پس مخالفت شیخ کے ہوتے ہوئے روحانی ترقی کی آس کیسے لگائی جاسکتی ہے؟ حالانکہ طب ظاہر میں جس ڈاکٹر/ حکیم سے علاج کیا جاتا ہے اس کے بارے میں سارے اعقلاء کہتے ہیں کہ جب تک اس کی بات پر عمل نہیں کیا جائے گا تو صحت کی امید فضول ہے۔ تو باطنی صحت جو کہ اس سے زیادہ لطیف اور خفی ہے، میں کیسے اپنے معالج کی مخالفت کے ہوتے ہوئے فائدہ ہوگا۔

سوال: کیا شیخ کی مخالفت سے آخرت میں مواخذہ ہوگا؟

جواب: شیخ کی قصداً مخالفت سے تو روحانی ترقی رک جاتی ہے اس لیے جو اس راہ میں مطلوب ہے اس سے محرومی ہوجاتی ہے۔ پس باطنی امراض کا علاج نہ ہونے سے آخرت کا بھی نقصان ہوسکتا ہے البتہ اگر قصداً مخالفت نہ ہو اپنی کسی غلطی کی وجہ شیخ کے دل کو مکدر کرے تو اس سے دنیا کا نقصان تو ہو ہی جاتا ہے یعنی کیفیات وغیرہ میں کمی ہوجاتی ہے جو آگے چل کر دینی نقصان کا بھی ذریعہ ہوسکتی ہے۔

سوال: شیخ کی تعلیمات پر عمل میں سستی کرلے یا شیخ کے علم میں لائے بغیر اپنے لیے کوئی مجاہدہ تجویز کرے اس سے کیا ہوتا ہے؟

جواب:شیخ کی تعلیمات پر عمل کرنے میں سستی سے پھر وہ نتائج برآمد نہیں ہوں گے جو مطلوب ہیں۔اگر شیخ کو اس سستی کی اطلاع نہ کرے تو عین ممکن ہے کہ تربیت میں زیادہ نقصان ہوجائے کیونکہ شیخ تو یہ سمجھتا ہوگا کہ میں نے جو بتایا تھا اس سے فائدہ نہ ہوا تو ممکن ہے وہ تشخیص میں غلطی کرے اور آئندہ عدم واقفیت سے مزید نقصان ہو۔ شیخ کے علم میں لائے بغیر کوئی مجاہدہ کرنا ،ممکن ہے اس کو عدم صلاحیت کی وجہ سے اس کم مجاہدہ کی برکات سے بھی محروم کردے کیونکہ استعداد کی کمی کی وجہ سے مجاہدہ ٹوٹ سکتا ہے جس سے ہمت پست ہوکر مجاہدہ کی صلاحیت پر کاری ضرب لگ سکتی ہے۔

سوال: اگر کوئی غلطی سے غلط پیر سے بیعت کرلے تو اس کی مخالفت سے بھی یہ نقصانات ہوسکتے ہیں؟

جواب:ایسے پیر سے تو بیعت ہونا حرام ہے اور اگر کرلے تو اس کا باقی رکھنا حرام ہے۔اس لیے غلط پیر سے بیعت کا فسخ کرنا لازمی ہے۔

سوال:لیکن ہم نے تو سنا ہے کہ

“پیر من خس است اعتقاد من بس ا ست

جواب:اس کا مطلب یہ نہیں کہ غلط کار پیر سے بھی فائدہ ہوگا۔بلکہ اس کا مطلب ہے کہ صحیح السلسلہ اور صحیح العقیدہ پیر اگر بہت زیادہ کامل نہ بھی ہو تو اس کے ساتھ حسن عقیدت اس مرید کے لیے اس کو کامل بنادیتی ہے نہ کہ بد عقیدہ یا گمراہ پیر کے لیے بھی یہ قول ہے۔

سوال: تحریروں میں تو یہ بھی ہے کہ ڈاکو پیر سے لوگ بیعت ہوئے لیکن مرید کے اخلاص کی برکت سے مرید کو بھی فائدہ ہو ا اور اس کے پیر کو بھی؟

جواب:لیکن ایسے واقعات شاذونادر ہوتے ہیں اور النادر کالمعدوم کے مصداق قابل تقلید نہیں ہوتے۔ ایسے ہی واقعات کی غلط تاویلات سے ہی تو بد عقیدہ لوگوں کی دال گلتی ہے۔ اس لیے ان واقعات کا صحیح مفہوم لینا ضروری ہے جو اوپر بیان ہوا۔

سوال: اگر اپنا شیخ فوت ہوجائے تو کیا کسی دوسرے شیخ سے بیعت ہونا ضروری ہے؟

جواب:نہیں۔اس کی ضرورت نہیں۔لیکن بعض حضرات کے نزدیک کسی اور شیخ کے ہاتھ پر جس کے ساتھ مناسبت ہو بیعت کرنا بہتر ہے۔جیسا کہ پہلے بتایا گیا ہے کہ خود بیعت ضروری نہیں تربیت ضروری ہے اس لیے اگر کسی کی تکمیل ابھی نہ ہوئی ہو تو اس کو البتہ کسی اور شیخ کی طرف تربیت کے لیے رجوع کرنا چاہیئے تاکہ اس سے اپنی تکمیل کرائے۔

سوال: بعض لوگ کہتے ہیں کہ فلاں واصل ہوگیا اس سے کیا مراد ہے؟

جواب:غیر اللہ سے دل جب منقطع ہوتا ہے اور اس میں حق کی محبت ایسی آجائے کہ ہر معاملے میں اللہ کی طرف دوڑے ،ہر مسئلے میں اسی کی طرف ذہن جائے تو اس کو واصل ہونا کہتے ہیں۔ مختصر یہ کہ جس کی سورۃ فاتحہ حال بن جائے وہ واصل ہوتا ہے۔اس کا یہ مطلب نہیں کہ ایسا واصل ہونا کہ جیسے قطرہ سمندر میں مل جاتا ہے کیونکہ ایسا ممکن ہی نہیں۔ یہ تو جسم کا خاصہ ہے اور جسم سے اللہ تعالیٰ پاک ہے۔خالق خالق ہے اور مخلوق مخلوق۔اس کا خیال رکھنا ضروری ہے ورنہ اس کے نتائج بہت خطرناک ہیں۔

سوال: بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہم واصل ہوگئے ہیں۔ اب ہمیں عبادات وغیرہ کی ضرورت نہیں؟

جواب:ایسے لوگ ملحد ہیں اور اسلامی حکومت میں گردن زدنی ہیں۔حضرت جنید بغدادی (رحمۃ اللہ علیہ) سے کسی نے ایسے لوگوں کے بارے میں پوچھا تو فرمایا “صدقوا فی الوصول ولٰکن الی السقر” یعنی ان کا وصول توسچ ہے لیکن وہ سقر یعنی جہنم کے ساتھ واصل ہوگئے۔مراد یہ ہے کہ جہنمی ہوگئے۔

سوال: بعض حضرات کو مجتبائین کہتے ہیں۔کیا یہ اولیاء کرام کی ایک قسم ہے؟

جواب:جن حضرات کو کسی مجاہدہ اور کسب کے بغیر احوال باطنی حاصل ہوجائیں یعنی ان کو رب تعالیٰ فقط اپنے فضل سے چن لیں، ان کو مجتبائین کہتے ہیں۔ ایسے لوگ اپنے آپ کو کچھ بھی نہیں سمجھتے لیکن ان کو سب کچھ حاصل ہوجاتا ہے۔

سوال: تجلی کیا ہوتی ہے ؟

جواب:تجلی جلاء سے ہے۔ یعنی تجلی ظہور کو کہتے ہیں۔اس کے مقابلے میں استتار ہے یعنی پوشیدگی۔تجلی کی کئی قسمیں ہیں اور ہر ایک کے آثار جدا ہیں۔ایک تجلی ذاتی ہے۔یعنی حق تعالیٰ کی ذات کی تجلی جو وجود عنصری کے ساتھ جمع نہیں ہوتی پس اگر وجود عنصری کے آثار باقی ہوں تو اس سے سالک بے ہوش ہوجاتا ہے جیسے موسیٰ علیہ السلام بے ہوش ہوئے لیکن آپ صلی اللہ علیہ والہ سلم چونکہ لامکان تشریف لے گئے تھے لہٰذا قبل الموت آپ صلی اللہ علیہ والہ سلم کو یہ خلعت عطا ہوئی۔ موت کے بعد سب مؤمنین کو جنت میں یہ نعمت نصیب ہوگی۔ “اللّٰھم اجعلنا منھم”۔ دوسری تجلی صفاتی ہے اور یہ دو قسموں پر ہے صفات جلالی کی تجلی اور صفات جمالی کی تجلی۔ اگر یہ صفات جلالی کی تجلی سالک پر ہوجائے تو اس پر خشوع و خضوع کا غلبہ ہوجاتا ہے اور اگر اس پر صفات جمالی تجلی ہوجائے تو اس کو انس و سرور حاصل ہوتا ہے۔ تیسری تجلی افعالی ہے یعنی اللہ تعالیٰ کی ذات کو ہر کام میں مؤثر جاننا۔اس کی علامت یہ ہے کہ سالک کی نظر مدح و ذم (اپنی تعریف اور مذمت )اور قبول و رَد (یعنی کوئی عمل قبول ہوا یا نہیں)پر نہیں ہوتی کیونکہ قبول ہونا غیر اختیاری ہے۔ چوتھی قسم کی تجلی روح کی ہے۔اس کا اثر یہ ہوتا ہے کہ سالک کے اندر عجب و پندار ہوتا ہے یعنی اس کو اپنی خوبیاں نظر آتی ہیں۔

سوال: تجلی حق کا اثر کیا ہوتا ہے؟

جواب:تجلی حق میں سالک کو فناءاور عجز کا مشاہدہ ہوتا ہے مگر خود سالک پر عجز و فناءطاری نہیں ہوتا۔

سوال: قلب کے اندر ظلمت اور نور کا کیا مطلب ہوتا ہے ؟

جواب:ذکر و طاعت سے دل خیر و شر میں تمیز کرسکتا ہے۔اس کو اچھی باتیں اچھی لگتی ہیں اور بری باتیں بری۔گویا کہ علم لدنی حاصل ہوجاتا ہے۔اس کیفیت کو نور سے تشبیہ دی گئی ہے۔ کیونکہ روشنی میں انسان چیزوں کے اندر فرق کرسکتا ہے۔اس کے برعکس غفلت اور معصیت سے دل سخت ہوجاتا ہے۔ اپنے خیر و شر کو نہیں پہچانتا۔ حدیث شریف میں گناہ سے دل پر سیاہ نقطہ لگنے کا پتہ چلتا ہے جس کا استغفار سے دھلنا بھی فرمایا گیا ہے۔یہ یہی ظلمت ہے۔باقی جو دل کے انوارات بعض کو بعض اوقات محسوس ہوتے ہیں وہ کشف سے تعلق رکھتے ہیں وہ مقصود نہیں۔

سوال: کیا اس نور کا حاصل ہونا ضروری ہے ؟

جواب:جی ہاں۔یہ حاصل کرنا ضروری ہے کیونکہ اسی سے راستے کی رہنمائی ہوتی ہے۔ جب تک یہ حاصل نہ ہو تو کسی ایسے شخص کے پیچھے چلنا ضروری ہے جس کو یہ نور حاصل ہے۔ انسان کو راستہ دیکھنے کے لیے دو نوروں کی ضرورت ہے۔ایک خارجی روشنی جیسے دن کی روشنی اور ایک اندر کی روشنی جیسے آنکھوں کی روشنی۔ان دو نوروں میں سے کوئی بھی ایک نور نہ ہو تو کام نہیں چلتا۔اسی طرح دین کا راستہ نظر آنے کے لیے ایک علم کی روشنی کی ضرورت ہے یہ خارجی روشنی کی طرح ہے اور دوسرے دل کی روشنی کی ضرورت ہے۔ زیر نظر نور ہی دل کا نور ہے۔پس کسی کے پاس علم نہ ہو لیکن دل کی روشنی ہو تو اس کو علم کی حاجت رہے گی اور جس کے پاس علم ہے لیکن دل کی روشنی نہیں اس کو دل کی روشنی کی ضرورت ہے۔

سوال: کیا صوفی ملکی سیاست میں حصّہ لے سکتا ہے ؟

جواب:کیوں نہیں بلکہ بعض کے لیے تو یہی سب سے اہم بات ہوتی ہے۔اسلام میں سیاست سے مراد ملک میں اسلامی شریعت کے نفاذ کی کوششیں ہوتی ہیں تو کیا کوئی اس کو غلط کہہ سکتا ہے ؟ ملکی سیاست میں حصّہ لینے سے پہلے اپنی اصلاح لازمی ہے کیونکہ اس میں بڑے خطرات ہوتے ہیں ظاہر ہے اپنی اصلاح کے لیے اس کو صوفی بننا ہوگا۔پس دینی سیاست اصل میں صوفیوں ہی کا کام ہے۔حضرت مجدد الف ثانی (رحمۃ اللہ علیہ) ،حضرت شیخ الہند (رحمۃ اللہ علیہ) ،حضرت مولانا حسین احمد مدنی (رحمۃ اللہ علیہ) اور مفتی محمود(رحمۃ اللہ علیہ) صاحب یہ سب حضرات اور اس طرح کئی اوربہت سارے صوفیاء تھے اور اپنے وقت کے بڑے سیاسی راہنما بھی تھے۔

سوال: عالم خلق ،عالم مثال اور عالم امر سے کیا مراد ہے؟

جواب:اللہ تعالیٰ نے بعض مخلوقات کو مادی اور بعض کو مقداری پیدا کیا ہے۔ان کو مادیات کہتے ہیں۔تمام اجسام مادی ہیں۔بعض مخلوقات کو اللہ تعالیٰ نے مادہ اور مقدار سے پاک پیدا کیا ہے ان کو مجردات کہتے ہیں جن میں ارواح انسانیہ ،لطائف وغیرہ آتے ہیں۔مادیات کو عالم خلق اور مجردات کو عالم امر کہتے ہیں۔عالمِ مثال ان دونوں کے درمیان ہے کہ غیر مادی ہونے میں عالمِ امر کی طرح ہے اور مقداری ہونے میں عالمِ خلق کی طرح۔عالمِ امر چونکہ مقداری نہیں اس لیے غیر محدود ہے اور یہ مادی بھی نہیں اس لیے مادیت کے ضعف سے پاک ہے اور اس لیے اس میں زیادہ قوت ہوتی ہے۔

سوال: صوفیاء کے بارے میں مشہور ہے کہ یہ مدارات کرتے ہیں جبکہ دوسرے لوگ ان پر مداہنت کا الزام لگاتے ہیں۔مدارات اور مداہنت میں اصلاً کیا فرق ہے اور صوفیا ءاس میں کس طرف مائل ہیں؟

جواب:جواب سمجھنے کے لیے پہلے مدارات اور مداہنت کا فرق سمجھیں۔جہلاء کے ساتھ اس لیے نرمی کرنا کہ وہ دین کی طرف آئیں یا اہل شر سے اس لیے صرف نظر کرنا کہ ان کے شر سے محفوظ رہیں یہ مدارات کہلاتا ہے اور یہ صوفیاء کے خاص اخلاق میں سے ہے۔ کیونکہ صوفیاء اسباب کے معاملے میں تجربے کو زیادہ سامنے رکھتے ہیں کہ فائدہ کس چیز سے ہوتا ہے اس لیے بعض لوگ جو خوا مخواہ مسئلہ پہنچانے کے جوش میں بے وقت کی مصیبت سر لیتے ہیں اس سے نہ تو ان کو فائدہ ہوتا ہے جن کو وہ مسئلہ بتاتے ہیں اور نہ مسئلہ بتانے والے کو کہ طریقہ غلط ہونے کی وجہ سے الٹا مخاطب کے بگڑنے کا وبال ان پر آسکتا ہے۔ صوفیاء موقع کی تاک میں ہوتے ہیں جب دیکھتے ہیں کہ لوہا گرم ہے تو چوٹ لگاتے ہیں ورنہ انتظار کرتے ہیں۔عنوان دوستی کا رکھتے ہیں اور مسئلے کا حل آسان کرکے پیش کرتے ہیں۔آپ صلی اللہ علیہ والہ سلم نے فرمایا کہ میرا دل چاہتا ہے کہ کعبہ کی تعمیر حضرت ابراہیم علیہ السلام کے طرز پر ہو لیکن لوگوں کی ناسمجھی کے وجہ سے چھوڑ دیا ہے تو یہ نرمی چونکہ لوگوں کے دین کے لیے تھی لہٰذا مدارات کے حکم میں تھی۔اس کے مقابلے میں کوئی شخص اپنے ذاتی مفادات کے لیے حق بات کرنے سے پیچھے ہوجائے یا غیر حق کو حق کہے تو یہ مداہنت ہے، صحیح صوفیاء اس سے بری ہیں کیونکہ تصوف کا پہلا قدم للّٰہیت ہے۔یہ نہ ہو تو پھر تصوف کیسا؟

سوال: ہمت کسے کہتے ہیں؟

جواب:قلب کو کسی طرف اس طرح مجتمع اور یکسو کرنا کہ کسی دوسری چیز کا خطرہ نہ آئے۔ اس کو توجہ اور تصرف بھی کہتے ہیں اور اس سے بڑے بڑے کام لیے جاسکتے ہیں۔

سوال:توجہ سے کس قسم کے کام لئے جاسکتے ہیں؟

جواب:اگر کسی کی گاڑی کھڈے میں پھنس جائے تو اس کو نکالنے کے لئے لوگ آکر زور لگاتے ہیں اور جب وہ کھڈے سے نکل جاتی ہے تو پھر گاڑی خوبخود چل پڑتی ہے بالکل اسی طرح اگر کوئی بالکل چل نہ سکتا ہو تو اس کو شروع کرانے کے لئے شیخ توجہ سے کام لے سکتا ہے اور جب وہ خود چلنا شروع کرتا ہے تو اس کو چھوڑ دیا جاتا ہے ۔

سوال: کیا عملیات کا تصوف کے ساتھ کوئی تعلق ہے ؟

جواب:نہیں۔کوئی تعلق نہیں۔یہ عوام کی غلط فہمی ہے کہ عاملوں کو پیر سمجھ لیتے ہیں اور پیر کو عامل سمجھتے ہیں۔

سوال: لیکن ہم تو دیکھتے ہیں کہ بہت سارے پیر لوگوں کو تعویذ وغیرہ دیتے ہیں تو یہ کیسے؟

جواب:اگر ایک مولوی صاحب علم دین کے ساتھ طب کا علم بھی حاصل کریں تو کیا آپ کہہ سکتے ہیں کہ ہر مولوی کو طب کا علم حاصل کرنا ضروری ہے ؟ پس بعض مشائخ نے اگر چند عملیات بھی سیکھے ہوں اور ان کو مخلوق خدا کی خدمت کے لیے استعمال کرتے ہیں تو اس میں نہ تو ان کے تصوف پر کوئی حرف آتاہے اور نہ ہی یہ تصوف کا جزوِ لازم ٹھہرتا ہے۔

سوال:خانقاہ میں وقت لگانے کی نیت کیا ہونی چاہیئے؟اس کی کیا ضرورت ہے ؟اس کو کس طرح لگانا چاہیئے ؟ نیز اس کے کیا فوائد ہیں؟

جواب:آدمی جب کٹ کٹا کر ایک مقصد کے لئے یکسو ہوجاتا ہے تو صلاحیتوں میں بے پناہ اضافہ ہوجاتا ہے ۔خانقاہ روحانی بیماریوں کا ہسپتا ل ہے جہاں وہ ماحول بنایا جاتا ہے جو اصلاح نفس اور اصلاح قلب کے لئے ضروری ہوتا ہے یعنی اس میں فاعلہ یعنی ذکر اذکار اور مجاہدہ دونوں کا انتظام ہوتا ہے ۔باہر کی کثافتوں سے پاک کسی درجے کی خلوت بھی اس میں میسر ہوتی ہے اور اس سے بھی اچھی چیز صحبت شیخ جو کہ طریق کا اصل الاصول ہے ، بھی میسر ہوتا ہے ۔اس میں وقت لگانے کی نیت محض اصلاح نفس کی ہونی چاہیئے اور اس کی ضرورت یہ ہے کہ جیسے انسان بیمار ہوتا ہے تو بعض دفعہ گھر میں علاج ہوسکتا ہے ، بعض دفعہ گھر میں علاج نہیں ہوسکتا تو اس کو ہسپتال میں رہنا پڑتا ہے تو ایسی صورت میں خانقاہ روحانی ہسپتال کا درجہ رکھتا ہے ۔اس میں پھر شیخ جو ترتیب کسی مریدکے لئے تجویز کرے، مرید اپنی تمام تجاویز کو لپیٹ کر اس کے مطابق اپنے آپ کو ڈھال لے ۔اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ مرید اس ماحول سے روحانی طاقت پاکر خانقاہ سے باہر کی زندگی میں نسبتاً کم مجاہدے کے ساتھ زیادہ بہتر اصلاحی نتائج حاصل کرسکتا ہے۔

سوال: تلوین کسے کہتے ہیں؟

جواب:ابتدا میں سالک کے قلب کے احوال بدلتے رہتے ہیں۔کبھی قبض ہوتا ہے کبھی بسط۔ کبھی سکر کبھی صحو۔یہ لوازم سلوک میں سے ہے اور سب کے ساتھ یہ پیش آتا ہے اس لیے اس سے پریشان بالکل نہیں ہونا چاہیئے۔ اپنے شیخ کے ساتھ رابطہ ہو اور شریعت پر عمل ہو تو کوئی خطر ہ نہیں

بر صراط مستقیم ہر گز کسے گمراہ نیست۔ یعنی اگر کوئی صراط مستقیم پر چل رہا ہو تو کبھی بھی گمراہ نہیں ہو سکتا۔

سوال: تمکین کسے کہتے ہیں؟

جواب:ہمیشگی کے ساتھ طاعت اور کثرتِ ذکر پر جب استقامت نصیب ہوجاتی ہے تو کسی حالتِ محمود پر سالک کو قرار آجاتا ہے جس کو اصطلاح تصوف میں تمکین کہتے ہیں۔اس کے بعد ماشاء اللہ تمام حقوق پورے ہوتے رہتے ہیں۔اسی کا نام اعتدال ہے اسی توسط کی وجہ سے اس امت کا نام امت وسط ہے۔

سوال: کتابوں میں حجابات کا ذکر آتا ہے۔اس سے کیا مراد ہے؟

جواب:اہل کشف نے فرمایا ہے کہ ہر لطیفہ میں دس دس ہزار حجابات ہیں۔اور لطیفہ قالبیہ کو ملا کر کل سات لطائف ہیں۔اس طرح ستر ہزار حجابات ہوگئے۔ذکر سے ظلمت دفع ہوتی ہے اور سالک کو لطیفے کا نور نظر آجاتا ہے جو علامت ہے اس کے حجاب کے اٹھ جانے کی۔ مثلاً شہوت اور لذت نفس کا حجاب ہے اور دل کا حجاب غیر حق پر نظر کرنا ،عقل کا حجاب فلسفہ وغیرہ میں غور کرنا اور روح کا حجاب عالم مثال کے مکاشفات میں غور کرنا ہے۔ان سب سے آدمی مستغنی رہے۔مقصود حقیقی کی طرف متوجہ رہنا چاہیئے اور غیر مقصود کی نفی کرتا رہے۔لا کی تلوار سے غیر اللہ کو قطع کرتے ہوئے اللہ تک پہنچنا ہے۔ حجابات کے چار مرتبے بتائے جاتے ہیں مرتبہ لاہوت ،مرتبہ جبروت ،مرتبہ ملکوت اور مرتبہ ناسوت۔اس میں مرتبہ لاہوت اور جبروت تو غیر مخلوق ہیں جبکہ مرتبہ ملکوت اور مرتبہ ناسوت حجابات ہیں۔ان میں مرتبہ ناسوت جو عالم انسان ہے،اس کے حجابات کو حجابات ظلماتی بھی کہتے ہیں یہ حقیر ہوتے ہیں،اس کی طرف زیادہ توجہ نہیں ہوتی اس لیے سالک کو ان سے زیادہ نقصان نہیں ہوتا لیکن مرتبہ ملکوت جو کہ حجابات نورانی کہلاتے ہیں سالک کے لیے زیادہ امتحان ہوتے ہیں۔اس سے بچنا شیخ کامل کے بغیر بہت مشکل ہے۔

سوال: شجرہ کیا ہوتا ہے؟

جواب:اﷲ تعالیٰ نے اپنی مخلوق کی ہدایت کے لیے دو عظیم سلسلے جاری فرمائے۔ایک کتاب اﷲ اور دوسرا رسول اﷲصلی اللہ علیہ والہ سلم۔قُرآن کی حفاظت کا خود وعدہ فرمایا اور رسول اﷲصلی اللہ علیہ والہ سلم کے طریقے کی حفاظت کے لیے دو نظام جاری فرمائے۔علمی حفاظت کے لیے احادیث مبارکہ کا سلسلہ جاری ہوا اور عملی حفاظت کے لیے صحابہ کرام(رضی اللہ عنہ) کی تربیت فرمائی۔صحابہ (رضی اللہ عنہ) نے تابعین کی تربیت فرمائی۔انہوں نے تبع تابعین کی اور انہوں نے پھر ان کے بعد آنے والوں کی اور یہ سلسلہ اب تک چل رہا ہے۔جس طرح محدثین کرام اپنی سلسلہ حدیث کی حفاظت کا اہتمام فرماتے ہیں اسی طرح مشائخ کرام اپنی تربیت کے سلسلہ کی حفاظت فرماتے ہیں۔اسی کا نام شجرہ ہے۔

سوال: لوگ شجرہ پڑھتے ہیں اس کی کیا حقیقت ہے؟

جواب:جس طرح تما م مخلوقات میں شیخ سالک کے لیے سب سے زیادہ مفید ہوتا ہے اس طرح اپنا وہ سلسلہ جس کے ذریعے وہ آپ صلی اللہ علیہ والہ سلم کے ساتھ ملتا ہے سالک کے لیے انتہائی مفید ہوتا ہے۔کیونکہ شیخ کا محسن اس کا شیخ اور پھر اس کا محسن اس کا شیخ ہوتا ہے۔تو جب سالک اپنا شجرہ پڑھتا ہے تو اس کے ذریعے اپنے رب سے محبت اور نسبت طلب کرتا ہے جو انتہائی مقبول دعا بن جاتی ہے۔دوسرے لفظوں میں یہ سلسلہ اس کے لیے ہدایت کا وسیلہ ہے تو یہی سلسلہ اس کے لیے رب سے مانگنے کا بھی وسیلہ ہوسکتا ہے۔

سوال:کسی کو مختصر انداز میں تصوف کے بارے میں کوئی بتانا چاہے تو اس کوکیا بتانا چاہیئے؟

جواب:تصوف امراض قلب کو دور کرنے کا طریقہ ہے جس کا بنیادی مقصد اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنا ہے۔ اس کے لیے شریعت کے ظاہر پر عمل کرنا ایک لازمی امر ہے۔اس میں کچھ فضائل حاصل کرنے ہوتے ہیں مثلاً صبر، شکر ،رضا ،توکل ،اخلاص تفویض، خدا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ والہ سلم کی محبت وغیرہ اوررذائل جیسے تکبر عجب ،ریا،دنیا کی محبت ،حسد ،کینہ، بدگمانی وغیرہ کو دور کرنا ہوتا ہے۔اس سے بندہ بندگی کو حاصل کرلیتا ہے اور حق اس کو قبول کرلیتا ہے جس کو نسبت اور وصول کہتے ہیں۔اس کے دو قسم کے ذرائع ہیں۔ایک مجاہدہ ہے جس میں نفس کی خواہشات کو کوشش کے ساتھ کنٹرول کرنا ہوتا ہے جس میں کم کھانا ،کم سونا ،کم بولنا اورجن سے ملنے جلنے سے نقصان ہوان سے کم ملنا جلنا زیادہ مشہور ہیں۔دوسرا فاعلہ ہے جس میں کچھ ایسی ترکیبیں ہیں جس سے انسان کے اندر چھپی قوتیں ظاہر ہوجاتی ہیں۔ان میں ذکر ،مراقبہ اور شغل سر فہرست ہیں۔ان کے علاوہ کچھ ذرائع ہیں جن سے فائدہ بھی ہوسکتا ہے لیکن ان میں نقصان کا احتمال زیادہ ہے۔ان میں عشق مجازی اور سماع کا ذکر آتا ہے۔تصوف میں بعض ایسی چیزوں سے واسطہ پڑتا ہے جن کے حاصل کرنے اور حاصل نہ ہونے پر اختیار نہیں ہوتا لیکن ان میں بعض میں ضرر ہوسکتا ہے اور بعض میں ضرر نہیں ہوتا۔جن میں ضرر کا احتمال ہے۔ان میں سکر کے ساتھ وحدۃ الوجود، کشف ،استغراق ،تصرف ،قبض و بسط کرامت اور مشاہدہ کے بارے میں لکھا گیا ہے اور جن میں ضرر نہیں ان میں وجد ،رویائے صالحہ ،اجابت دعا ،الہام ،فناء و بقاء، سکر کے بغیر وحدت الوجود اور فراست صادقہ کے بارے میں لکھا گیا ہے۔کچھ ایسی چیزیں ہیں جن سے ساری محنت پر پانی پھر سکتا ہے۔ان میں حسن پرستی ،ثمرات کو حاصل کرنے میں جلدی کرنا ،تصنع ،سنت کی مخالفت اور شیخ کی مخالفت بتایا جاتا ہے۔اللہ تعالیٰ ہمیں ان امور سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین۔