پیارے بھائی، روزے پر جاپانی سائنسدان کی پوری بات تو سن لو

 جب 2016 میں جاپانی ماہر حیاتیات یوشی نوری اوشومی کو طب کا نوبل انعام دیا گیا، تو پاکستان میں لوگوں نے شور مچا دیا کہ دیکھو، اسلام نے یہ بات 1400 سال پہلے ہی بتا دی تھی کہ کس طرح مہینہ بھر روزہ رکھنے سے جسم میں موجود خطرناک وائرس اور بیکٹیریا ختم ہو جاتے ہیں۔ جسم کے اندرونی خلیات کے ڈھانچے میں سارا سال جو ٹوٹ پھوٹ ہوتی ہے، وہ ٹھیک ہو جاتی ہے۔ روزہ رکھنے سے نئے خلیات بنتے ہیں، صحت بہتر ہوتی ہے اور عمر دراز ہوتی ہے۔ اسی لیے صدیوں سے روزوں کو طویل عمری سے جوڑا جاتا رہا ہے۔ یہاں تک ہماری مطلب کی بات تھی، تو ہم نے خوب اس کا چرچا کیا۔ یوشی نوری نے اس سے آگے جو کہا، وہ ہم نظر انداز کر گئے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ روزے کا فائدہ اسی وقت ہوتا ہے جب ہم اس دوران معمول سے کم کھانا کھائیں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ کھا کھا کر پاگل ہو جائیں۔ یہی بات ہم سننا نہیں چاہتے۔ زیادہ کھانے سے جسم پر بوجھ پڑ جاتا ہے، نئے خلیات نہیں بن سکتے، پرانے خلیات جسم کے اندر گلتے سڑتے رہتے ہیں اور بیماریاں بناتے ہیں، کینسر بناتے ہیں۔ اسلام بھی یہی کہتا ہے کہ رمضان میں سادہ اور کم کھاؤ، لیکن ہمیں تو جیسے ہوس ہو جاتی ہے کھانے کی۔ اسی وجہ سے غریبوں کے بچے روزہ نہیں رکھ پاتے، وہ سمجھتے ہیں روزے کا مطلب ہے افطاری میں طرح طرح کے پکوان ہوں۔ تبھی روزہ ہوتا ہے۔ اب بیچارہ غریب آدمی کہاں سے لائے یہ سب روز روز؟ ہم اپنا زیادہ کھانے کا گناہ مٹانے کے لیے رمضان آتے ہی راشن تقسیم کرنا شروع کر دیتے ہیں، پوری زکوٰۃ رمضان میں نکالتے ہیں کہ جی 70 گنا ثواب ملے گا، پھر راشن بانٹتے ہیں، یہ نہیں سوچتے کہ جسے راشن دے رہے ہیں، اسے باقی 11 مہینے بھی بھوک لگتی ہے۔ ویسے تو زکوٰۃ پورے سال میں کبھی بھی نکالی جا سکتی ہے، لیکن جو لوگ رمضان میں ہی نکالنا چاہتے ہیں، وہ نکالیں، بس اسے پورے سال پر پھیلا دیں۔ اسی ثواب کے چکر میں یہ بیانیہ بھی بنایا گیا ہے کہ رمضان میں خرچہ بڑھ جاتا ہے، اس لیے غریبوں میں راشن تقسیم کیا جاتا ہے۔ حالانکہ دیکھا جائے تو رمضان میں باورچی خانے کا خرچہ نہ بڑھنا چاہیے، نہ کم ہونا چاہیے۔ سحری میں ناشتہ اور افطاری میں کھانا۔ خرچہ تو اس وقت بڑھے گا جب سحری اور افطاری کو لوگ دعوت سمجھیں گے، پارٹی سمجھیں گے۔ رمضان کا مہینہ زیادہ کھانے کا نہیں، کم کھانے کا مہینہ ہے، معمول سے کم کھانے کا مہینہ ہے۔ اس کا جسمانی، ذہنی اور روحانی فائدہ ہے۔ اسلام تو روزمرہ کے لیے بھی کہتا ہے کہ کھانے بیٹھو تو ایک تہائی پیٹ خالی رکھو۔ روزہ سکھاتا ہے کہ بھوک کیا ہوتی ہے۔ جب ہمیں پتہ ہی نہیں ہوگا کہ خالی پیٹ انسان کو کتنا مجبور بنا دیتا ہے، تب انسانیت کا احساس ہی ختم ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ اسی لیے آپ دیکھیں گے کہ کھاتے پیتے لوگوں کو ہی رمضان میں زیادہ غصہ آتا ہے۔ غریب آدمی کو رمضان میں غصہ نہیں آتا، اسے کھانا چھوڑنے کی، آدھا پیٹ کھانے کی عادت ہوتی ہے۔ اس زیادہ کھانے کی وجہ سے پوری دنیا میں صرف پاکستان میں رمضان کے دوران کھانے پینے کی چیزیں مہنگی کر دی جاتی ہیں۔ غریب اور کہیں کا نہیں رہتا۔ جب ان سے کہو کہ جو چیز مہنگی ہے، اس کا دو تین دن بائیکاٹ کرو، تو لوگ کہتے ہیں ایک یہی تو مہینہ ہے جس میں ہم پھل فروٹ کھاتے ہیں، یہ ہمارے بچے ضد کرتے ہیں۔ تو بھئی تمہارے اپنے ہی بچے ہیں نا، روکو انہیں، منع کرو، سمجھاؤ کہ سماجی بہتری کے لیے، بڑے فائدے کے لیے اگر دو چار دن پھل نہیں کھاؤ گے تو کچھ نہیں ہوگا، صحت ہی اچھی ہوگی۔ پھر یہ کہ رمضان میں یہ لوگ جو گھروں اور فیکٹریوں کے باہر قطاریں لگوا لگوا کر لوگوں کو راشن بانٹتے ہیں، یہ صرف غریبوں کو چھوٹا کرنے کی کوشش ہے کہ دیکھو ہم کتنے بڑے ہیں اور تم اتنے چھوٹے کہ ہمارے گھر ہو یا فیکٹریوں کے آگے لائن لگانے پر مجبور ہو۔ ہم نے تو سنا تھا زکوٰۃ صدقہ ایسے دو کہ دوسرے ہاتھ کو پتہ نہ چلے۔ یہاں تو مسجدوں سے اعلان ہوتا ہے، اخباروں میں تصویریں لگتی ہیں۔ ایسی حرکتیں سب سے زیادہ رمضان میں ہوتی ہیں، سب سے مبارک اور بابرکت مہینے میں۔ تو پلیز رمضان کو بتائے ہوئے طریقے سے گزاریں، سادہ بنائیں۔ دوسروں کے لیے نہ سہی، اپنے جسم کو ری سیٹ کرنے کے لیے، اپنی لمبی عمر کے لیے، روزوں کو عام معمول بنائیں۔