تصوف وسلوک کو عملی طور پر اختیار کرنے والے کا نام صوفی وسالک رکھا گیا ہے ۔ صوفیا ھی دراصل اولیااللہ ھیں اور اللہ کی بارگاہ میں مقبول و معروف  اور بڑےدرجات ر ؓؓ کھتےھیں

 حضرت ابوعمروبن النجیدعلیہ الرحمتہ فرماتے ہیں کہ صوفی وہ ہے جس کو جانوروں کی آوازمیں…… ہر ایک سوزوساز میں…… چڑیوں کی چہک میں…… پھولوں کی مہک میں…… سبزے کی لہک میں…… جواہرات کی دمک میں…… سورج کی روشنی میں…… سماء و سمک کی بلندی میں…… درختوں کے رنگ میں……شیشہ وسنگ میں …… آہنگ ورباب وچنگ میں…… پتھر کی سختی میں…… خوشحالی اور تنگ دستی میں …… زمین کی وسعت ونرمی میں…… آگ کی گرمی میں…… دریا کی روانی میں…… آسمانی ستاروں کی چمک میں …… پہاڑ کے اُبھاروبلندی میں…… بیابان ومرغزارمیں…… خزاں وبہار میں ایک نادیدہ وعظیم ہستی (اﷲ جل شانہ) کا جلوہ نظر آئے۔

 کس قدرافسوس کی بات ہے کہ آج کا مسلمان اصلی اور نقلی گھی کی پہچان تو کر لیتا ہے مگر اصلی ولی کی پہچان کرنے سے قاصر ہے۔ خالص اور ملاوٹی دودھ کی پہچان تو کر لیتا ہے مگراصلی اور مصنوعی پیر کی پہچان میں فرق نہیں کر سکتا، بے وفا اور وفادار دوست کی تو شناخت کر لیتاہے مگر بے دین اور دیندار مرشد کے معاملے میں فرق نہیں کر سکتا تو آیئے قرآن وحدیث کی روشنی میں اور اولیاء کرام کے اقوال و احوال سے معلوم کرتے ہیں کہ اﷲ کے ولی(دوست) کی کیاپہچان اورکیامقام ہے۔

 قرآن مجید میں ارشادِ باری تعالیٰ اپنے ولیوں کی شان اور مقام اس طرح بیان فرمارہاہے:

 ترجمہ: ’’ بلاشبہ اﷲ کے ولیوں پر نہ کوئی خوف ہے اور وہ غمگین ہوں گے اور (اﷲ کے ولی وہ ہیں) جوایمان لائے اور پرہیز گاری اختیار کی‘‘۔

 (سورۂ یونس:آیت62-63)

 اﷲ تعالیٰ نے قرآن پاک میں اولیاء اﷲ کی پہچان اس طرح بیان فرمائی کہ اﷲ کا ولی (اصلی دوست)وہ ہو تا ہے جو صاحب ایمان ہونے کے ساتھ ساتھ متقی و پرہیز گار بھی ہو۔ قرآن وسنت کے احکامات وتعلیمات کا پابند ہو۔ اﷲ اور اس کے رسول ﷺکا اطاعت گزارو فرمانبردار ہو اور اﷲ کے ولی وہ ہوتے ہیں جو ساری ساری رات اﷲ کی عبادت وبندگی اورتوبہ واستغفارمیں گزار دیتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ جتنے بھی اولیائے کاملین اور مشائخ کرام گزرے ہیں اورجوحیات ہیں ان کے مزارات، آستانوں ،خانقاہوں اوررہائش گاہوں کے ساتھ مساجدضرور ہیں جو اس حقیقت اسلام کو واضح اورآشکارکررہی ہیں اوراس بات کا ثبوت اوردلیل ہیں کہ اﷲ کے ولی اوردوست ہر حال میں صوم وصلوٰۃ کی نہ صرف پابندی کرتے ہیں بلکہ ان کے شب وروزمسجداور مدرسہ میں بسرہوتے ہیں۔

 اولیاء اﷲ کی علامت……عبادت وریاضت

قرآن پاک میں اولیاء اﷲ کی پہچان اورمقام کے بارے میں مزید ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

ترجمہ: ’’اور رحمن کے (مقرب)بندے وہ ہیں کہ جو زمین پر(عاجزی سے) آہستہ چلتے ہیں اور جب کوئی جاہل اُن سے ( کوئی ناگوار بات) کرتے ہیں تو کہتے ہیں (تمھیں) سلام اور وہ جو اپنے رب کیلئے سجدے اور قیام میں راتیں گزار دیتے ہیں‘‘۔

(سورۃالفرقان:آیت ۶۴۔۶۳)

اولیاء اﷲ کامقام اورشان یہ ہے کہ وہ نہ صرف عاجزی اورانکسارکے پیکرہوتے ہیں بلکہ جب ان سے کوئی جاہل نارواگفتگوکرتا ہے یا ناشائستہ طرزعمل اختیار کرتا ہے توبھی رحمٰن کے بندے ان سے حسن اخلاق اور خندہ پیشانی سے پیش آتے ہیں اوروہ راتوں کواﷲ تعالیٰ کی خوب عبادت وبندگی کرتے ہیں۔

ایک حدیث شریف میں حضور اکرم ﷺنے اولیاء اﷲ کی پہچان اورشان بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ:

﴿اذا رء وا ذکر اﷲ۔ ﴾

ترجمہ: ’’ (اﷲ والوں کی پہچان یہ ہے کہ) ’’جب کوئی اُنھیں دیکھ لیتاہے توانھیں خدا یادآجاتا ہے‘‘۔الحدیث

حضرت شیخ ابو علی رودباری رحمۃ اللہ علیہ کار ارشاد ہے

”صوفی وہ ہے جو قلب کی صفائی کے ساتھ صوف پوش (سادہ لباس) ہو اور نفسانی خواہشات کو (زہد کی) سختی دیتا ہو اور شریعت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کو لازم پکڑتا ہو اور دنیا کو پسِ پشت (غیر مقصود) ڈال دیتا ہو۔“

حضرت شیخ جنید بغدادی علیہ الرحمۃ نے فرمایا ”صوفی فانی ز خویش اور باقی بحق ہوتا ہے۔“ حضرت عمر بن عثمان مکی رحمۃ اللہ علیہ کا ارشاد ہے

”صوفی وہ ہے جو ہر وقت اسی کا ہوکر رہتا ہے جس کا وہ بندہ ہے۔“

حضرت سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی علیہ الرحمۃ نے ارشاد فرمای

”صوفی پرسکون جسم، دل مطمئن، منور چہرہ، سینہ کشادہ، باطن آباد اور تعلق مع اللہ کی وجہ سے دنیا کی تمام اشیاء سے بے پرواہ ہوتا ہے۔“

حضرت شیخ شبلی رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں کہ

”صوفی مخلوق سے آزاد اور خدا سے مربوط ہوتا ہے۔“

حضرت ذوالنون مصری علیہ الرحمۃ نے فرمای

”صوفیاء کرام وہ ہیں جو ہر چیز سے زیادہ اللہ کی رضا کو ترجیح دیتے ہیں۔“

حضرت امام غزالی علیہ الرحمۃ اپنی کتاب ”المنقذ من الضلال“ میں پوری امت مسلمہ کو خطاب کرتے ہوئے فرماتے ہیں

و علمت ان طریقتھم انما تتم بعلم و عمل و کان حاصل علمھم قطع عقبات النفس عن اخلاقھا المذمومۃ و صفاتھا الخبیثۃ حتیٰ یتوسل بھا الیٰ تخلیۃ القلب عن غیر اللہ تعالیٰ و تخلیۃ بذکر اللہ۔

”صوفیاء کرام کا طریقہ علم اور عمل کے ذریعہ مکمل ہوتا ہے اور ان کے علم کا حاصل یہ ہے کہ نفس اخلاق مذمومہ اور صفات خبیثہ سے پاک ہوجائے تاکہ دل غیراللہ سے خالی ہوکر اللہ کے ذکر سے مزین ہوجائے۔“

صوفیائے کرام کے متعلق حضرت امام غزالی علیہ الرحمۃ کی فیصلہ کن رائے

    صوفیاء کرام کا ذکر کرتے ہوئے حضرت امام غزالی ”المنقذ من الضلال“ میں فرماتے ہیں

انی علمت یقینا ان الصوفیۃ ھم السالکون بطریق اللہ تعالیٰ خاصۃ و ان سیرتھم احسن السیر و طریقھم اصوب الطرق و اخلاقھم ازکی الاخلاق بل لو جمع عقل العقلاء و حکم الحکماء و علم الواقفین علیٰ اسرار الشرع من العلماء لیغیروا شیئا من سیرھم و اخلاقھم و یبدلوہ بما ھو خیر منہ لم یجدوا الیہ سبیلا فان جمیع حرکاتھم و سکناتھم فی ظاھرھم و باطنھم مقتبسۃ من نور مشکوٰۃ النبوۃ و لیس وراء نور النبوۃ علیٰ وجہ الارض نور یستضاء بہ۔

    ”مجھے یہ بات پورے یقین سے معلوم ہوئی کہ صوفیاء کرام ہی اللہ کے راستہ پر چلنے والے ہیں، ان کی سیرت تمام سیرتوں سے بہتر ہے، ان کا طریقہ تمام طریقوں سے سیدھا ہے، ان کا اخلاق تمام لوگوں کے اخلاق سے زیادہ پاک ہے، بلکہ اگر تمام تمام عقلاء کی عقل کو اکٹھے کیا جائے، تمام حکماء کی حکمت کو جمع کیا جائے، علماء کے علم کو یکجا کیا جائے تاکہ صوفیاء کرام کے طریقہ کے متبادل کوئی طریقہ تلاش کیا جاسکے جو ان سے بہتر ہو تو لم یجدوا الیہ سبیلا یعنی اس طرح ہوہی نہیں سکتا، کیونکہ ان کی تمام حرکات و سکنات ظاہری ہوں یا باطنی نبوت کے نور سے لی ہوئی ہیں اور پورے کرۂ ارض پر نور نبوت کے علاوہ کوئی ایسا نور نہیں جس سے روشنی حاصل کی جاسکے۔“

اولیاء اﷲ کے مقام ومرتبہ کے حوالے سے علمائے کرام نے مذکورہ آیت واحادیث حدیث سے مندرجہ ذیل نکات اخذکئے ہیں۔

 جن بندگانِ خداکواﷲ تعالیٰ کی معرفت وقرب اور مقامِ ولایت حاصل ہوتا ہے، انھیں ہر طرح کے رنج وغم سے آزادی کا پروانہ مل جاتا ہے جو کہ دنیاوآخرت میں کامیابی وکامرانی کی بشارت ونویدکی صورت میں ہو تا ہے۔

اﷲ تعالیٰ کے ولیوں سے (بغض وحسدکی بناء پر)عدوات ودشمنی رکھنے والوں سے اﷲ تعالیٰ کا اعلانِ جنگ ہے۔

تقاضائے محبوبیت اورقرب کی بنا پراﷲ تعالیٰ اپنے ولیوں اوردوستوں کو اپنی بعض صفات کا مظہر کامل بنا دیتاہے اور انھیں اپنے رنگ میں رنگ دیتا ہے،تب ہی ان سے کرامات کا ظہور ہوتا ہے ،جس سے مسلمانوں کاایمان ویقین تقویت پاتاہے۔

اولیاء اﷲ جب درجہ قرب اورمحبوبیت پر فائز ہوجاتے ہیں تو اﷲ تعالیٰ ان کے کسی سوال اور دعا کورد نہیں فرماتابلکہ ان کاہرسوال اوردعاکو قبول فرمالیتا ہے۔

قدرت الٰہی ہروقت انھیں اپنے حفظ وامان میں رکھتی ہے۔

 اولیاء اﷲ کو بارگاہِ خداوند قدوس میں اتنا قرب حاصل ہو جاتا ہے کہ اﷲ تعالیٰ ان کے کان،ان کی آنکھیں، ان کے ہاتھ اور ان کے پاؤں بن جاتا ہے اور اگر وہ اﷲ کی بارگاہ میں کسی چیز کا سوال کرتے ہیں تو اﷲ تعالیٰ انہیں کبھی مایوس نہیں فرماتا۔

علم و عمل کے فروغ میں صوفیاء کرام کا کردار

صوفی،شیخ اورپیرومرشد کیلئے صاحب ِعلم ہونابہت ضروری ہے اورعلم وعمل دونوں آپس میں لازم وملزوم ہیں۔صوفی(پیرومرشد)کوکتاب وسنت کاعالم وعامل ہونا چاہئے تاکہ وہ شریعت وطریقت کی روشنی میں لوگوں کی صحیح راہنمائی کرسکے کیونکہ علم وعمل کے بغیرشریعت وطریقت کی مسند پر بیٹھنے والا لوگوں کی صحیح رہنمائی نہیں کرسکتا۔ اس لئے صوفیاء کرام نے علم ظاہری وباطنی کے حصول میں اپنی زندگیاں وقف فرمائیں اور ساری زندگی علم وعمل اور شریعت وطریقت پر نہ صرف خودگامزن رہے بلکہ لوگوں کو بھی شریعت و طریقت کاراستہ دکھایااورانھیں سیدھے راستے کی ہدایت فرمائی۔

صوفیاء کرام نے ہردور میں رشدو ہدایت ،شریعت وطریقت اور علم وعرفاں کے وہ چراغ روشن کئے کہ جن کی ضیاء پاشیوں سے اکناف عالم اور قلوبِ بنی آدم روشن سے روشن ترہو گئے اور ہزاروں لوگوں نے ایمان وایقان اورعلم وعرفاں کی لازوال دولت حاصل کی۔ صرف چندمثالیں پیش خدمت کررہاہوں۔

 حضرت سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رحمتہ ۱ﷲعلیہ 488 ہجری/ 1095ء میں 18؍ برس کی عمر میں تحصیل علم و معرفت کی غرض سے بغداد شریف میں جلوہ گر ہوئے اور تادمِ وفات یہی شہر آپ کی علمی و روحانی سر گرمیوں کامرکزبنا رہا ۔ آپ نے اپنے وقت کے جید علماء و مشائخ کرام سے علوم ظاہری و باطنی حاصل کئے اورحضرت ابو سعید مبارک مخزومی رحمتہ اﷲ علیہ کے ہاتھ پربیعت کا شرف حاصل کیااور علوم و ظاہری و باطنی کی تکمیل کے بعد اصلا ح و تبلیغ کی طرف متوجہ ہوئے اور مسند شر یعت اور مسند طر یقت دونوں کو بہ یک وقت زینت بخشی اورساری زندگی مخلوقِ خدا کورشدوہدایت کاراستہ دکھاتے رہے۔

 سلطان الہندحضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمتہ اﷲ علیہ نے مقتدائے زمانہ ہستیوں سے علومِ دینیہ ( علم قرآن،علم حدیث،علم تفسیر،علم فقہ) کی تعلیم حاصل کی۔ آپ نے علم ظاہری کی تحصیل میں تقریباً چونتیس(34)برس صرف کئے اورعلم معرفت وسلوک کے حصول کے لئے آپ حضرت خواجہ شیخ عثمان ہاروَنی رحمتہ اﷲ علیہ ایسے عظیم المرتبت اورجلیل القدر بزرگ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ کے دست مبارک پرشرف ِبیعت سے فیض یاب ہوئے اورروایات میں آتا ہے کہ اسی سلسلہ رشدوہدایت کو قائم رکھتے ہوئے آپ نے نوے(90) لاکھ غیر مسلموں کو کلمہ طیبہ پڑھا کر اسلام کی دولت سے نوازا۔

 روایات میں آتا ہے کہ حضور سیدناشیخ عبدالقادرجیلانی رضی اﷲ عنہ نے چالیس سال تک عشاء کے وضو سے نمازِ فجر ادا کی اور حضورامام اعظم ابوحنیفہ رضی اﷲ عنہ نے بھی چالیس سال تک عشاء کے وضو سے نمازِ فجر ادا کی اورامام اعظم کوقرآن کریم سے اتنی محبت تھی کہ ماہ رمضان المبارک میں۶۱(اکسٹھ)قرآن پاک ختم کرتے۔ ایک قرآن پاک دن میں،ایک قرآن قیام اللیل میں اور ایک قرآن پاک نمازِتراویح میں پڑھتے تھے۔

 امام المحدثین امام محمد بن اسماعیل بخاری رضی اﷲ عنہ اپنی مایہ نازتصنیف’’ صحیح بخاری‘‘ میں ایک ایک حدیث کو درج کرتے وقت تازہ غسل فرماتے اور خوشبو لگا کر پھر حدیث شریف لکھتے تھے۔۔۔ اسی طرح امام مالک رضی اﷲ عنہ کودرس حدیث دیتے وقت بچھو نے بارہ مرتبہ ڈسا لیکن آپ نے درس حدیث کو پھر بھی نہیں چھوڑا اور اسی وجہ سے آپ کی موت واقع ہو گئی۔(تذکرۃ المحدثین،فریدبک اسٹال لاہور)

 حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمتہ اﷲ علیہ کی حیاتِ مبارکہ قرآن و سنت کا قابل رشک نمونہ تھی ۔آپ کی تمام زندگی تبلیغ اسلام ، عبادت و ریاضت اور سادگی و قناعت سے عبارت تھی۔آپ ہمیشہ دن کو روزہ رکھتے اور رات کو قیام میں گزارتے تھے ۔ آپ مکارمِ اخلاق اور محاسن اخلاق کے عظیم پیکر اوراخلاقِ نبوی ﷺ کے مکمل نمونہ تھے ۔

حضورخواجہ غریب نوازعلیہ الرحمۃ فرماتے ہیں کہ : ’’جب اﷲ تعالیٰ اپنے کسی بندے کو اپنا دوست بناتا ہے تو اس کو اپنی محبت عطا فرماتا ہے اور وہ بندہ اپنے آپ کو ہمہ تن اور ہمہ وقت اس کی رضا وخوشنودی کے لیے وقف کر دیتا ہے تو خداوند قدوس اس کو اپنی طرف کھینچ لیتا ہے، تاکہ وہ اﷲ تعالیٰ کی ذات کا مظہر بن جائے‘‘۔

صوفی کی وجۂ تسمیہ

صوفی کی وجہ تسمیہ میں چند اقوال ہیں

۱۔ صوفی صفا سے مشتق ہے اور صفا سے مراد قلب کی صفائی ہے۔ صوفی کو صوفی اس لیے کہا گیا ہے کہ اس کا قلب باطنی بیماریوں سے صاف ہوتا ہے۔

۲۔ صوفی صف سے مشتق ہے۔ صف سے مراد صف اول ہے۔ چونکہ صوفیاء کرام خدا تعالیٰ کے نزدیک صف اول کے بندے ہیں اس وجہ سے ان کو صوفی کہا جاتا ہے۔

۳۔ صوفی صفہ سے مشتق ہے۔ صفہ سے مراد مسجد نبوی صلّی اللہ علیہ وسلم کا صفہ ہے۔ یہ لفظ اہل صفہ کی طرف منسوب ہے۔ اہل صفہ وہ چند صحابہ کرام تھے جنہوں نے اپنے آپ کو دنیوی معاملات سے علیحدہ کرکے رسول اللہ کی بارگاہ کے لئے وقف کردیا تھا، گویا یہ بارگاہ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے خاص طالب علم تھے۔ یہ لوگ سادہ لباس پہنتے تھے اور غذا بھی سادہ استعمال فرماتے تھے۔ چونکہ صوفیاء کرام کی زندگی میں اصحاب صفہ کی زندگی کی جھلک موجود ہوتی ہے، اس وجہ سے ان کو صوفی کہا جاتا ہے۔

فائدہ: حضرت علامہ ابن تیمیہ علیہ الرحمۃ کی تحقیق کے مطابق یہ آخری وجہ ہی صحیح ہے، کیونکہ اوپر کے اشتقاقوں میں اصولا کچھ صرفی اور نحوی کمزوریاں ہیں۔ لہٰذا آخری وجہ ہی زیادہ معتمد ہے۔

امام الصوفیاء حضرت ابوالحسن سید علی بن عثمان ہجویری رحمہ اللہ تعالیٰ کا سلسلۂ نسب حضرت امام حسن کے توسط سے امام الاولیاء و امیرالمؤمنین حضرت علی رضی اللہ عنہ سے جاملتاہے۔ آپ کاعہد مشہور روایات کے مطابق 400ھ تا 465ھ ہے، آپ کا مزارِ پرانوار 24 گھنٹے مرجعِ خلائق رہتاہے۔ تصوف بنیادی طور پر صفائے قلب اور روح کی جِلا کا نام ہے۔ اسے قرآن وحدیث میں تزکیہ، احسان اور عرفان سے تعبیر کیاگیا ہے۔ حضرت سید علی ہجویری نے صوفیاء کی تین قسمیں بیان کی ہیں: (1)صوفی (2) متصوف(3) مُسْتَصْوِفْ، وہ لکھتے ہیں:

(1) صوفی وہ ہے جو اپنے وجود سے فانی ہوکر حق کے ساتھ باقی ہوگیا ہو، نفسانی خواہشات اور ان کے تصرف سے آزاد ہوکر حقیقت الحقائق یعنی اللہ عزّوجلّ کے ساتھ واصل ہو گیا ہو۔ (2)متصوف وہ ہے جو مجاہدے اور ریاضت کے ذریعے اِس مقام کے حصول کے لئے کوشاں ہے اور راہِ حقیقت کی تلاش میں اپنے آپ کو صوفیاء کے طریقے پر کاربند رکھتا ہے۔ (3) مُسْتَصْوِفْ وہ ہے جو دنیوی منفعت کے حصول اور جاہ و مرتبے کی لالچ میں صوفیا ء کی نقالی کررہا ہو، اسے نہ تو اوپر والے دونوں گروہوں سے کوئی تعلق ہوتاہے اور نہ ہی اسے طریقت کے بارے میں کوئی ادنیٰ سی آگاہی حاصل ہوتی ہے۔ مشایخ کرام نے ایسے لوگوں کے بارے میں فرمایا ہے: ’’مُسْتَصْوِفْ صوفیاء کے نزدیک مکھی کی مانند ہے اور غیر صوفیاء (عوام) کے لئے بھیڑیا ہے‘‘۔ صوفیاءِ کرام مُسْتَصْوِفْ کو مکھی سے اس لئے تشبیہ دیتے ہیں کہ یہ لوگ صوفیاء کی نقّالی ہوا وہوس کی خاطر کرتے ہیں جیسے مکھی کسی چیز پر بھنکتی رہتی ہے اور عوام کے حق میں اس لیے بھیڑیے ہیں کہ بھیڑیے کاکام بھی چیرنا پھاڑنا اور مردار کھانا ہے، یعنی ناجائزطریقے، حیلے اور مکروفریب سے مفادات سمیٹنا ہے۔ الغرض صوفی صاحبِ وصول ہوتا ہے اور متصوف واصل باللہ ہوتاہے اور مُسْتَصْوِفْ صاحبِ فصول یعنی ذاتِ حقِ تعالیٰ اور راہِ حق سے دور ہوتاہے، وہ مزید لکھتے ہیں:

’’صوفیا سے متعلق آج کل یہ مصیبت عام ہوگئی ہے، ملحدین کے ایک گروہ نے جب حقیقی صوفیاکی شان اور قدر ومنزلت دیکھی، تو اپنے آپ کو بھی ان کا ہم شکل بنالیااور کہنا شروع کردیا کہ طاعات وعبادات کی تکلیف اس وقت تک ہے، جب تک معرفت حاصل نہیں ہوجاتی۔ جب معرفت حاصل ہوگئی تو عبادات وطاعات کی تکلیف جسم سے اُٹھ جاتی ہے(یعنی انسان اللہ تعالیٰ اور رسولِ مکرم ا کے احکام اور شریعت کا مکلَّف (جوابدہ) نہیں رہتا)‘‘۔ حقیقی صوفیاءِ کرام کی شکل اختیار کرنے یا حلیہ بنانے یا لبادہ اوڑھنے کا تکلف بھی حضرت داتا صاحب کے عہد یعنی اسلام کی قرونِ اولیٰ اور قرونِ وُسطیٰ کی مجبوری تھی، ورنہ آج کل اس طرح کے کسی تکلف کی بھی قطعًا کوئی حاجت نہیں ہے اور نہ ہی ظاہری اعتبار سے تدیُّن اور تشرُّع کی صورت اختیار کرنے کا تکلف کیا جاتاہے، ہر قسم کا شکار خود ہی شکاری کے جال میں پھنسنے کے لئے بے قرار ہوتاہے۔ علامہ اقبال نے اسی حقیقت کو منظوم انداز میں بیان کیا ہے ؂

خدا وندا تیرے یہ سادہ دل بندے کدھر جائیںکہ درویشی بھی عیاری ہے، سلطانی بھی عیاری حضرت سید علی ہجویری نے بتایا کہ روحانی ارتقاء کی راہ میں دو چیزیں حائل ہوتی ہیں: ایک ’’رَین‘‘ اور دوسری ’’غَین‘‘۔ دراصل قلبی اور روحانی خرابیوں میں ایک تو کفر، شرک اور نفاق ہے اور اس کے سبب انسان کے دل ودماغ پر ہدایت کے انوار وتجلیات کا فیضان مستقل طور پر رک جاتاہے۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں:حجاب کی دو قسمیں ہیں :ایک ’’رینی ‘‘ اور یہ کبھی نہیں اٹھتا، وہ مزید تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں : بعض لوگوں کی ذات خود حق سے حجاب کا سبب ہوتی ہے، یہاں تک کہ ان کے نزدیک حق اور باطل یکساں ہوجاتاہے۔ اسی حجاب کو ’’رَین‘‘ کہتے ہیں اور اسے قرآن مجید میں ختم، طبع، اِغفال، اَکِنّہ اور قَساوت سے تعبیر کیا ہے، چنانچہ اللہ کا ارشاد ہے:’’ہر گز نہیں، بلکہ ان کے کرتوتوں نے ان کے دلوں پر زنگ چڑھادیا ہے، (المطففین :14)‘‘۔ یہ لوگ ناقابلِ اصلاح ہوتے ہیں اور ہدایت سے ہمیشہ محروم رہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’اور اُنہوں (کافروں) نے کہا:جس دین کی طرف آپ ہمیں بلا رہے ہیں، اُس کی (قبولیت کی) راہ میں ہمارے دلوں پر پردے چڑھے ہوئے ہیں اور ہمارے کانوں میں ڈاٹ ہے اور ہمارے اور آپ کے درمیان حجاب ہے، (حم ٓ السجدہ:05)‘‘۔

دوسری قسم کے حجاب کو ’’ غین ‘‘کہتے ہیں۔

 یہ انسان کے دل میں حرص وطمع، بُخل، ہواوہوس، حسد، کِبَرونَخوت، ریااور دیگر اَخلاقی اَمراض ہوتے ہیں، جن کے سبب انسان کے دل پر پردہ پڑ جاتاہے، مگر یہ حجاب عارضی ہوتاہے اور توبہ واستغفار سے زائل ہوجاتاہے۔ رسول اللہ ا کا ارشاد ہے:’’میرے دل پر کبھی (انوار کے غلبے سے )اَبَر چھا جاتاہے اور میں اللہ تعالیٰ سے ایک دن میں سو مرتبہ استغفار کرتا ہوں، (صحیح مسلم: 42)‘‘۔ بعض شارحین نے لکھا ہے : اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں سید المرسلین ا کے مقاماتِ عالیہ کے ارتقا کا سفر جاری رہتا ہے اور جب وہ اپنے اگلے مقامِ رفیع سے پلٹ کر پیچھے کی طرف دیکھتے ہیں، تو ایک غُبار سا چھا جاتا ہے اور مقامِ نبوت کے حوالے سے اسی کو ’’غین‘‘ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ وہ مزید لکھتے ہیں:’’رَین‘‘ کی مثال وطن کی سی ہے، جو مستقل ہوتاہے اور ’’غین‘‘ سے وہ خیالات وخطرات ہیں، جو دل پر طاری ہوتے ہیں اور کبھی دل میں جگہ بھی پالیتے ہیں، لیکن توبہ و استغفار سے ان کے اثرات مٹ جاتے ہیں۔

حدیثِ پاک میں مرتبۂ احسان کو ان کلمات میں بیان فرمایا گیا ہے:’’(احسان یہ ہے کہ) تم اللہ کی عبادت اس قدر حضوریِ قَلب سے کرو کہ گویا تم اللہ عزّوجلّ کو دیکھ رہے اور اگر تم (اپنی بشری نارسائی کے سبب) اسے نہیں دیکھ پاتے، تو وہ یقیناًتمہیں دیکھ رہا ہے، (صحیح بخاری:50)‘‘۔ چنانچہ حضرت سید علی ہجویری اسی مقامِ احسان کو مزید وضاحت کے ساتھ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

’’میں نے حاتمِ اَصمّ رحمۃ اللہ علیہ سے پوچھا : آپ نماز کس طرح ادافرماتے ہیں ؟، انہوں نے جواب دیا: جب نماز کا وقت آتا ہے، توپانی سے ظاہری وضو کرتا ہوں (یعنی اس سے اعضاءِ وضو کی پاکیزگی حاصل کرتا ہوں) اور توبہ کے ذریعے باطنی وضو کرتاہوں، یعنی توبہ سے قلب وروح کی طہارت حاصل ہوتی ہے۔ مسجد میں نماز پڑھتے وقت خانۂ کعبہ کو اپنے سامنے، مقامِ ابراہیم کو دونوں ابروں کے درمیان، بہشت کو دائیں، دوزخ کو بائیں، پلِ صراط کو قدموں کے نیچے اور فرشتۂ موت کو اپنے پیچھے تصور کرتاہوں۔ اس کے بعد اللہ کی عظمت وجلالت کو اپنے ظاہروباطن پر طاری کرکے اللہ اکبر کہتا ہوں، اعزازووقار کے ساتھ قیام کرتا ہوں، قرا ء ت کے وقت اللہ کی ہیبت دل پر طاری رہتی ہے، تواضع اور انکسار کے ساتھ رکوع اور اَزحد تضرُّع اور عاجزی کے ساتھ سجدہ کرتاہوں، حِلم ووقار کے ساتھ قعدہ کرکے شکر کے ساتھ سلام پھیرتاہوں‘‘۔

جنت کو دائیں اور دوزخ کو بائیں رکھنے کی حقیقت کو اس قول میں بیان کیا گیا ہے :’’ایمان خوف ورجا کے درمیان ہے‘‘، یعنی حقیقتِ ایمان اور کمالِ ایمان یہ ہے کہ انسان کے دل پر خشیت وہیبتِ الٰہی بھی طاری ہو اور اللہ تعالیٰ کی رحمت اور عفو ومغفرت پر اس کا یقین بھی مرتبۂ کمال پر ہو، اسی کو وعظ وتذکیر کے عنوان پرمجموعۂ احادیث میں ترغیب وترہیب اور رغبت ورہبت سے تعبیر کیا گیا ہے۔ فرشتۂ اَجل کو پیچھے تصور کرنے کا مطلب یہ ہے کہ بندۂ مومن کو ہر آن موت کے لئے تیار رہنا چاہئے اور پل صراط کو سامنے رکھنے کا مطلب یہ ہے کہ شریعت کے جادۂ مستقیم پر ایک ایک قدم ہزار بار سوچ سمجھ کر اٹھانا چاہئے، ورنہ ذرا سی بے احتیاطی اور لغزش سے انسان گہرے ظلمت کدے میں گر سکتا ہے یا جہنم کا ایندھن بن سکتاہے، اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس سے اپنی پناہ عطا فرمائے۔

    اسلامی انسائیکلوپیڈیا میں بحوالہ رسالہ قشیریہ مذکور ہے کہ صوفی کی وجہ تسمیہ میں کوئی ایک پہلو ملحوظ نہیں بلکہ وہ تمام پہلو ملحوظ ہیں جن کی طرف اس لفظ سے اشارہ ملتا ہے۔ اگر اس لفظ کا صرف ایک پہلو ملحوظ رہتا تو صوفیاء کرام اس لفظ کو اپنے لئے مخصوص نہ بناتے، بلکہ صوفی کا لفظ ان تمام حالات کی طرف اشارہ کرتا ہے جو صوفی کے لفظ یا مناسبت سے ہیں۔ مثلا قلب کی صفائی اور پاکیزگی کی طرف، صفو برگزیدہ انسانوں کی طرف، صفی خالص دوست کی طرف۔ مصطفیٰ کا مادہ بھی صفو ہے۔ واللہ اعلم بالصواب