ذکر اللہ

اور صبح وشام اپنے رب کو اپنے دل میں یاد کیا کر ، عاجزی اور خوف کے ساتھ اور زور کی آواز کی نسبت کم آواز کے ساتھ ۔ اور اہل غفلت میں سے مت ہونا۔
الا عراف : ۲۰۵

 ذکر خفی

ذکر خفی سے مراد وہ ذکر جو مخفی اور پوشیدہ ہو حضرات نقشبندیہ کے ہاں ذکر خفی سب سے افضل ہے اسے ذکرقلب اوردوامی بھی کہا جاتا ہے۔ ذکر اللہ خواہ قلبی ہو یا زبانی انفرادی ہو خواہ اجتماعی، اسکی فضیلت و اہمیت مسلم ہے۔ لیکن قرآن و حدیث کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ ذکرِ قلبی کی فضیلت بدرجہا ذکرِ زبانی سے زیادہ ہے۔ البتہ اگر اللہ تعالیٰ کسی بندے پر خصوصی فضل فرمانا چاہے اور اپنے حضور اسے خوش قسمت بندہ لکھ دے اور اس کو یہ توفیق دے کہ ہر وقت زبانی ذکر بھی کرتا رہے اور اسکا دل بھی اسی کے موافق ذکر میں شاغل رہے اور اسے زبانی ذکر سے قلبی ذکر کی طرف ترقی حاصل ہوجائے۔ یہاں تک کہ اگر زبان خاموش ہو پھر بھی دل خاموش نہ ہو، اسی کو ذکرِ کثیر کہا جاتا ہے۔ حضرت ابو موسیٰ اشعری (رض) بیان کرتے ہیں کہ ہم ایک سفر میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ جا رہے تھے۔ لوگ بلند آواز سے اللہ اکبر، اللہ اکبر کہنے لگے تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرماا، اے لوگو ! اپنے اوپر نرمی کرو، تم کسی بہرے کو پکار رہے ہو نہ غائب کو تم سمیع اور قریب کو پکار رہے ہو اور وہ تمہارے ساتھ ہے۔

ذکر قلبی کی فضیلت

امام احمد بن حنبل ، ابن حیان ، بیہقی وغیرہ نے حضرت سعد بن ابی وقاص (رض) کی روایت سے نقل کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا:

خَيْرُ الذِّكْرِ الْخَفِيُّ، وَخَيْرُ الرِّزْقِ مَا يَكْفِي

”بہترین ذکر خفی ہے، اور بہترین رزق وہ ہے جو انسان کے لئے کافی ہو جائے“

اذْكُرُوا اللَّهَ تَعَالَى ذِكْرًا خَامِلًا» قَالَ: فَقِيلَ: وَمَا الذِّكْرُ الْخَامِلُ؟ قَالَ:الذِّكْرُ الْخَفِيُّ

”اللہ کویاد ذکرخامل کے ساتھ کروپوچھا گیا ذکر خامل کیا ہے فرمایا ذکر خفی ہے“[2]

خاص خاص حالات اور اوقات میں جہر ہی مطلوب اور افضل ہے ان اوقات و حالت کی تفصیل رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے اپنے قول و عمل سے واضح فرما دی ہے، مثلاً اذان و اقامت کا بلند آواز سے کہنا، جہری نمازوں میں بلند آواز سے تلاوت قرآن کرنا، تکبیرات نماز ، تکبیراتِ تشریق، حج میں تلبیہ بلند آواز سے کہنا وغیرہ، اسی لئے فقہاء رحمہم اللہ نے فیصلہ اس باب میں یہ فرمایا ہے کہ کن خاص حالات اور مقامات میں رسول کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) نے قولاً یا عملاً جہر کرنے کی تلقین فرمائی ہے وہاں تو جہر ہی کرنا چاہئے، اس کے علاوہ دوسرے حالات و مقامات میں ذکر خفی اولیٰ وانفع ہے[3]۔

اصل ذکر اور ذکر حقیقی وہ ذکر قلبی ہے اور ذکر لسانی کواس لیے ذکر کہاجاتا ہے کہ وہ ذکر قلبی کاترجمان ہے اس لے کہ اگر کوئی شخص دل سے کسی کی یاد میں محو ہو اور زبان سے ساکت ہوتو وہ ذاکر سمجھاجاتا ہے لیکن اگر زبان سے کسی کانام لے اور دل میں کوئی اور بساہوا ہو تو حقیقت شناس لوگوں کے نزدیک یاد کرنے والوں میں اس کاشمار نہیں ہوسکتا[4]۔

حدیث شریف میں منقول ہے کہ وہ ذکر خفی ستر درجہ افضل ہے جسے حفظہ (یعنی اعمال لکھنے والے فرشتے) بھی نہیں سنتے چنانچہ قیامت کے دن جب اللہ تعالیٰ تمام مخلوق کو حساب کتاب کے لئے جمع کرے گا تو حفظہ (اعمال لکھنے والے فرشتے) وہ تمام ریکارڈ لے کر حاضر ہوں گے جنہیں انہوں نے اپنی نوشت اور یادداشت میں محفوظ کر رکھا ہو گا وہ تمام ریکارڈ دیکھ کر اللہ تعالیٰ ان سے فرمائے گا کہ دیکھو میرے بندوں کے اعمال میں اور کیا چیز باقی رہ گئی ہے (جو تمہارے اس ریکارڈ میں نہیں ہے) وہ عرض کریں گے! پروردگار!بندوں کے اعمال کے سلسلہ میں جو کچھ بھی ہمیں معلوم ہو اور جو کچھ بھی ہم نے یاد رکھا ہم نے اسے اس ریکارڈ میں جمع کر دیا ہے، اس ریکارڈ میں ہم نے ایسی کوئی چیز محفوظ کرنے سے نہیں چھوڑی جس کی ہمیں خبر ہوئی ہو تب اللہ تعالیٰ بندہ کو مخاطب کر کے فرمائے گا کہ میرے پاس تیری ایسی نیکی محفوظ ہے جسے کوئی نہیں جانتا اور وہ ذکر خفی ہے میں تجھے اس نیکی کا اجر عطا کروں گا۔[5]

محقق و محدث کبیرحضرت ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ نے حدیث ابوالدرداء رضی اللہ عنہ بیان کی ہے۔

عَنْ اَبِی الدَّرْدآءِ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم اَلا اُنَبِّئُکُمْ بِخَیْرِ اَعْمَالِکُمْ وَ اَزْکٰہَا عِنْدَ مَلیْککُمْ وَاَرْفَعِہَا فیْ دَرَجَاتِکُمْ وَ خَیْرٍ لَّکُمْ مِّنْ اِنْفَاقِ الذَّہَبِ وَالْوَرْقِ وَ خَیْرٍ لَّکُمْ مِّن اَنْ تَلْقُوْا عَدُوَّکُمْ فَتَضْرِبُوْا اَعْنَاقِہُمْ وَیَضْرِبُوْا اَعْنَاقَکُمْ قَالُوْا بَلیٰ قَالَ ذِکْرُ اللہ[6]

حضرت ابوالدرداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلّی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا میں تمہیں تمہارے اعمال میں سے بہتر عمل کی خبر نہ دوں جو تمہارے رب کے نزدیک زیادہ پاکیزہ ہو، جو تمہارے اعمال میں سب سے بلند مرتبہ ہو، جو تمہارے سونا اور چاندی کے خیرات کرنے سے زیادہ اچھا عمل ہو، جو تمہارے لیے اس عمل سے بھی بہتر ہو کہ تم دشمنوں سے مقابلہ کرکے انہیں قتل کرو اور وہ تمہارے گردنوں پر وار کریں؟ صحابہ نے عرض کیا کہ ہاں یارسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم۔ آپ صلّی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ اللہ تعالیٰ کا ذکر ہے۔حضرت ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔

اَلْمُرَادُ الذِّکْرُ الْقَلْبِیُّ فَاِنَّہٗ ھُوَ الَّذِیْ لَہُ الْمَنْزِلَۃُ الزَّائِدَۃُ عَلیٰ بَذْلِ الْاَمْوَالِ وَالْاَنْفُسِ لِاَنَّہ عَمَلُ نَفْسِیُّ وَفِعْلُ الْقَلْبِ الَّذِیْ ھُوَ اَشَقُّ مِنْ عَمَلِ الْجَوَارِحِ بَلْ ھُوَ الْجِہَادُ الْاَکْبَرُ[7]

اس ذکر سے ذکر قلبی مراد ہے۔ یہی وہ ذکر ہے جس کا مرتبہ جان و مال خرچ کرنے سے بھی زیادہ ہے۔ کیونکہ یہ باطنی عمل ہے اور دل کا عمل ہے جو دوسرے اعضاء کے اعمال سے نفس کے لیے زیادہ سخت ہے۔ بلکہ یہی جہاد اکبر ہے۔

صحیح البخاری رقم الحدیث :6409 صحیح مسلم رقم الحدیث، 2704، سنن ابوداؤد رقم الحدیث :1526، سنن الترمذی رقم الحدیث :3472)

الزهد والرقائق حدیث155 المؤلف:عبد الله بن المبارك الناشر: دار الكتب العلميۃ- بيروت

 تفسیر معارف القرآن – مفتی محمد شفیع الاعراف آیت 55

 تفسیر معارف القرآن – مولاناادریس کاندہلوی سورۃ البقرہ 172

 مسند أبي يعلى، أحمد بن علي بن المثُنى،الموصلي ، حدیث نمبر4738،الناشر: دار المأمون للتراث – دمشق

 مشکواۃ المصابیح صفحہ 198

 مرقاۃ المفاتیح صفحہ نمبر ۲۲ جلد ثالث

ذکر کرنے کا طریقہ

جب شیخ کامل ذکر قلبی تلقین کر دیں اُسکے بعد ذکر کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ بائیں جانب سینے کے اندر انسان کا دل واقع ہے۔ اس دل میں ذکر اسم ذات اللہ کا خیال رکھا جائے۔ جس طرح ہمیں پیاس لگتی ہے تو ہمارا خیال پانی کی طرف ہوجاتا ہے۔ مگر ہم زبان سے پانی پانی کا لفظ نہیں پکارتے۔ بس خیال سارا پانی کی طرف رہتا ہے۔ تو جس طرح پیاسے آدمی کا خیال و توجہ پانی کی طرف رہتا ہے اسی طرح یہ خیال دل میں پکانا چاہیے کہ میرا دل اللہ اللہ پکار رہا ہے۔ اس دوران زبان خاموش رہے بلکہ بہتر ہے کہ تالو کے ساتھ چسپاں رہے اور اس ذکر کا خیال ہر وقت و ہر لمحہ رکھنا چاہیے۔ اس کے لیے نہ وضو کی شرط ہے، نہ جسم کی پاکائی کی شرط ہے، نہ لباس کے پاک ہونے کی شرط ہے۔ تنہائی بھی شرط نہیں ہے۔ چوبیس گھنٹے آپ اپنے کام میں مصروف رہیں۔ کاروبار کرتے رہیں، سفر میں ہوں یا حضر میں، بازار میں ہوں یا گھر میں، صرف دل میں یہ خیال ہونا چاہیے کہ دل اللہ اللہ پکار رہا ہے۔ اس دوران اگر کوئی دوسرا خیال آئے تو اسے دفع کریں۔ کیونکہ خود خدا تعالیٰ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا ہے ۝ اللہ کے بندے وہی ہیں جن کو دنیاوی کام کاج اور خرید و فروخت اللہ کے ذکر سے غافل نہیں کرتا۔ تو اس طرح کا خیال چند دن رکھنے سے دل اللہ کے ذکر میں جاری ہوجاتا ہے اور اس ذکر کے کرنے سے دل پاک و صاف ہوجاتا ہے اور دل میں خشیت و خوف خدا پیدا ہوتا ہے، جس کی وجہ سے شریعت محمدی علیہ الصلوٰۃ والسلام پر عمل آسان ہوجاتا ہے۔

حضرت خواجہ احمد سعید نقشبندی قدس سرہٗ تحریر فرماتے ہیں کہ اسم ذات کا ذکر اس طرح کرنا چاہیے کہ مرید و سالک زبان کو تالو سے لگائے اور دل کو تمام خیالات سے خالی کردے۔ پھر جس بزرگ سے ذکر لیا ہے، ان کے متعلق یہ سمجھے کہ وہ میرے سامنے بیٹھے ہوئے ہیں۔ پھر دل کی زبان سے اللہ، اللہ کہے، یعنی اللہ، اللہ کا مفہوم اپنے خیال میں رکھے اور یہ خیال کرے کہ میں اس ذات پر ایمان لایا جو تمام صفات کاملہ سے متصف ہے اور تمام صفاتِ ناقصہ سے پاکیزہ ہے۔ اکثر اوقات اسی ذکر پر ہمیشگی کرے یہاں تک کہ دل ذاکر ہوجائے۔

حضرت امام ربانی مجدد و منور الف ثانی قدس سرہٗ فرماتے ہیں۔

در ابتدا از ذکر گفتن چارہ نبود باید کہ متوجہ قلب صنوبری گردی کہ آں مضغہ ہمچوں حجرہ ایست مر قلبِ حقیقی را و اسم مبارک اللہ را براں قلب گذاری و دریں وقت بقصد ہیچ عضوے را حرکت نہ دہی و بکلیت متوجہِ قلب نشینی و در متخلیہ صورتِ قلب را جاند ہی وبآں ملتفت نباشی چہ مقصود توجہ بقلب است نہ تصویر صورت آں و معنیٰ لفظ مبارک اللہ را بیچونی و بے چگونی ملاحظہ نمائی و ہیچ صفت را بآں منضم نہ سازی۔

(مکتوب نمبر ۱۹۰ دفتر اول حصہ سوم)

یعنی ابتداء سلوک میں سالک کے لیے ذکر کے سوا کوئی چارہ نہیں، چاہیے کہ اپنے قلب کی طرف متوجہ رہے کہ یہ گوشت کا ٹکڑا حقیقی قلب کے لیے حجرہ کی مانند ہے۔ اسم مبارک اللہ کو اسی قلب پر گذاریں اور اس وقت جان بوجھ کر کسی عضو کو حرکت نہ دیں بلکہ پوری طرح سے اپنے قلب کی طرف متوجہ ہونا چاہیے نہ کہ اس کی شکل و صورت کی طرف، لفظ مبارک اللہ کے معنیٰ کو بے مثل و بے مثال سمجھتے ہوئے ملاحظہ کریں لیکن اسکے ساتھ بھی کسی صفت کو خیال میں نہ لائیں۔

حلقۂ ذکر 

صوفیاء کرام کے یہاں مراقبہ کے بہت سے طریقے رائج ہیں۔ ہمارے مشائخ عالیہ نقشبندیہ مجددیہ کا طریقہ یہ ہے کہ دل کو ادھر ادھر کے خیالات سے فارغ کرکے پورے اطمینان سے ذات باری تعالیٰ کی طرف اپنے شیخ کامل کے توسط سے متوجہ ہوا جاتا ہے۔ بزرگان دین کے یہاں ذکر کے لیے جمع ہوکر گول دائرہ کی شکل میں بیٹھ کر ذکر کرنا متقدمین سے لیکر آج تک مروّج رہا ہے اور یہ تمام سلاسل میں کسی نہ کسی صورت میں موجود ہے۔ بعض جہری ذکر کرتے اور بعض تلاوت قرآن مجید اورحمد و نعت کی صورت میں حلقہ ذکر قائم کرتے ہیں۔ مقصد سبھی کا ایک ہے یعنی کچھ دیر کے لیے دنیا ومافیہا سے تعلقات توڑ کر ہمہ تن اپنے خالق و مالک کی طرف متوجہ ہوا جائے۔

اس قسم کے حلقۂ ذکر و مراقبہ کی اصل درج ذیل حدیث شریف ہے۔

عَنْ انس قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم اِذَا مَرَرْتُمْ بِرِیَاضِ الْجَنَّۃِ فَارْتَعُوْا قَالُوْا وَمَا رِیَاضُ الجَنَّۃِ قَالَ حِلَقُ الذِّکْرِ۔

الجامع للترمذی

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں فرمایا رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم نے جب تم جنت کے باغوں کے قریب سے گذرو تو خوب کھالیا کرو۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا یارسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم جنت کے باغ کونسے ہیں؟ فرمایا ذکر کے حلقے یعنی گول دائرہ کی شکل میں بیٹھ کر ذکر کرنا۔

اس حدیث شریف کی شرح میں برصغیر پاک و ہند کے مشہور محدث حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی قدس سرہٗ لکھتے ہیں: و درایں حدیث دلیل است برآں کہ تحلیق برائے ذکر مشروع است۔ اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ ذکر کے لیے گول دائرہ بنانا شریعت مطہرہ کے مطابق ہے۔

ذکر اللہ کے لیے جمع ہونا، ذکر کرنا، سننا، بلکہ خاموشی سے ذکر والوں کی مجلس میں بیٹھنا بھی باعثِ برکت و نزولِ رحمت ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں۔

قَالَ رَسُوْلُ اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم لَایَقْعُدُ قَوْمٌ یَذْکُرُونَ اللہ اِلَّا حَفَّتْہُمُ المَلَاِئِکَۃُ وَغَشِیَتْہُمُ الرَحْمَۃُ وَنَزَلَتْ عَلَیْہِمُ السَکِیْنَۃُ وَ ذَکَرُھُمُ اللہ فِیْمَنْ عِنْدَہٗ۔

(رواہ مسلم مشکوٰۃ المصابیح صفحہ ۱۹۶)

رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو بھی قوم ذکر اللہ کے لیے بیٹھتی ہے تو ان کو فرشتے گھیرلیتے ہیں اور ان پر رحمت الٰہی چھا جاتی ہے اور ان پر اطمینان و سکون نازل ہوتا ہے۔ اور خدا تعالیٰ ان ذکر کرنے والوں کو اپنے مقرب فرشتوں میں یاد فرماتا ہے۔

مذکورہ احادیث سے حلقہ و مراقبہ کی فضیلت واضح ہوتی ہے۔ اسی لیے صوفیائے کرام نے اللہ تعالیٰ کے ذکر قلبی کی مشق کرنے اور اس کو جاری کرنے کے لیے مراقبہ کو نہایت اکسیر قرار دیا ہے۔ مراقبہ کا طریقہ یہ ہے کہ جب فراغت ہو آنکھیں بند کرلیں اور اگر کپڑا میسر ہو تو اپنے سر ڈال لیں، دل سے تمام خیالات محو کرکے اور اللہ تعالیٰ کی ذات کو موجود سمجھ کر یہ تصور کریں کہ اللہ کا ذکر ہورہا ہے، اور حضور نبی کریم صلّی اللہ علیہ وسلم کا فیض اللہ والوں کے سینوں سے ہوتا ہوا میرے قلب میں پہنچ رہا ہے۔ جس طرح ہم اندھیرے میں ٹارچ جلاتے ہیں تو اس سے روشنی کی شعاع نکلتی ہے جس کی وجہ سے سامنے ہر چیز واضح ہوجاتی ہے۔ اسی طرح یہ تصور کریں کہ ایک نورانی شعاع ہمارے قلب میں پہنچ رہی ہے اور ہمارا قلب منور ہورہا ہے۔ اس طریقے سے معرفت الٰہی کا راستہ سہل و آسان ہوجاتا ہے۔ مصنف قطب الارشاد حضرت الحاج فقیر اللہ علوی مراقبہ کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔

اَلْمَرَاقَبَۃُ وَھِیَ اَشْرَفُ اَسْبَابِ الوُصُوْلِ وَاَسْھَلُ طُرُقِ حُصُوْلِ الْمَعْرفَۃِ وَ اَقْرَبُہَا وَھِیَ مُشْتَقَّۃٌ مِنْ التَرَقُّبِ وھُوَ انْتِظَارُ الْمَطْلُوبِ اَوْ مِنَ الرَّقِیْبِ وَھِیَ مُحَافَظَۃُ القَلْبِ۔

(قطب الارشاد صفحہ ۵۶۱)

مراقبہ وصول الی اللہ کے اسباب میں زیادہ معتبر اور معرفۃ الٰہی کے حصول کا آسان اور قریب تر راستہ ہے، مراقبہ ترقب سے مشتق ہے اور اسکا مقصد ہے مطلوب حقیقی کا انتظار کرنا یا رقیب سے مشتق ہے اور اسکا مقصد ہے اپنے قلب کی حفاظت کرنا۔

حضرت خواجہ احمد سعید قدس سرہ فرماتے ہیں مراقبہ کا مادہ رقب ہے جسکا معنیٰ ہے انتظارکرنا اور مراقبہ کا مطلب یہ ہے کہ سالک بغیر ذکر اور بغیر رابطۂ شیخ اپنے دل کو خیالات فاسدہ سے محفوظ رکھ کر پوری طرح اللہ تعالیٰ کے طرف دھیان رکھے اور اسکا طریقہ یہ ہے کہ عاجزی اور انکساری کے ساتھ ہر وقت ذات الٰہی کی طرف متوجہ رہے تاوقتیکہ بلاشرکت غیر، توجہ الی اللہ اسکی عادت بن جائے۔ اس کو حضور بھی کہتے ہیں اور ذکر سے مقصود بھی یہی ہے۔ اسی لیے حضرت مولانا عبداالرحمان جامی علیہ الرحمۃ نے کیا خوب فرمایا ہے۔ شعر:

نقشبندیہ عجب قافلہ سالاراند

برندہ پنہاں بحرم قافلہ را

مشائخ نقشبند قافلہ طریقت کے عجیب قائد ہیں کہ روحانیت کے مخفی راستے سے اپنے قافلہ کو بارگاہ الٰہی میں پہنچادیتے ہیں