اگر کرونا ویکسین لگوائی تو بس اللہ خیر کرے ۔۔۔

چاچا علم دین بتا رہا تھا کہ اگر کرونا ویکسین لگوائی تو بس گئے پھر دو سال کے اندر اندر۔ اگر بچ بھی گئے تو Zombie یعنی خون پینے والے جانور بن جائیں گے اور کم سے کم آگے اپنی نسل نہیں بڑھا سکیں گے خبردار اس کے قریب نہیں جانا یہ یہودیوں کی سازش ہے اور آج کل ان کا ایجنٹ ہمارا حکمران ہے تو بس اللہ خیر کرے ۔۔۔ چاچا علم دین چونکہ گاؤں کا سب سے سیانا اور دانا بندہ تھا اور گاؤں والوں کے بقول دنیا کا علم جہاں ختم ہوتا ہے وہاں سے چاچے علم دین کا علم شروع ہوتا تھا

گاؤں کے سارے لوگ چاچے علم دین کا گیان دیان ہضم کرنے کی کوشش کر رہے تھے ۔ اوئے تمہیں نہیں پتا امریکی سائنس دانوں نے مسلمانوں کی آبادی کو کنٹرول کرنے کے لئے سارا ڈرامہ کیا ہے تاکہ سارے مسلمانوں کے اندر ویکسین کے ذریعے چپ لگا کر ان کو جب چاہیں مار سکے۔۔۔۔چاچے علم دین نے ان کو مزید بتایا کہ اس طرح سے ان یہودیوں نے ہمیں اور ہمارے بچوں کو پولیو کی ویکسین پلائی اور پتہ نہیں کون کون سی ویکسین کے ٹیکے ہمیں لگوائیں اور تم نے کبھی سنا ہے کہ اسرائیل میں بھی پولیو کے قطرے پلانے کی مہم چلی ہو٫ تو میں تمہیں بتا رہا ہوں کہ سمجھ جاؤ یہودی اور کافر خود اس طرح کی کوئی ویکسین نہیں لگاتے یہ بڑے ظالم اور سازشی ہیں انہوں نے ہمیں کرونا سے ڈرانے کے بعد یہ ویکسن شروع کی ۔کیوں مولوی صاحب چاچے علم دین نے اپنے سب سے بڑے پرستار کی طرف دیکھ کر کہا۔
جی علم دین صاحب آپ نے بالکل صحیح فرمایا شکر ہے کہ آپ نے اپنے علم کی بدولت وقت پر ہی اس سازش کا سراغ لگا لیا ۔ ورنہ تو ہم سب مارے گئے ہوتے اللہ آپ کے علم میں اور زیادہ برکت عطا فرمائیں مولوی صاحب کی دعا پر سب نے مل کر با آواز بلند امین کہا

چاچا علم دین نے حسب معمول فخریہ انداز میں اپنا چشمہ اوپر کیا ۔

چاچا علم دین آپ نے بچپن میں حفاظتی ٹیکے لگوائے تھے؟ گڈو نے چاچے سے پوچھا گڈوجو کہ بارویں جماعت میں پڑھتا تھا اور ہر وقت اپنے موبائل میں گھسا رہتا تھا ۔
“ہاں یار مجھے کیا ہم سب کو بھی بچپن میں ویکسین کے ٹیکے لگے تھے اور میں چھوٹا تھا اپنے سیدھے سادے ماں باپ کو نہ سمجھا سکتا تھا ” چاچے علم دین نے بڑی بے بسی سے جواب دیا۔
چاچا آپ اور مولوی صاحب کے تو پورے گیارہ گیارہ بچے ہیں اور آپ نانا اور دادا بھی بن گئے ہیں اور سارے ماشاءاللہ صحت مند ہیں

کیا آپ پر یہودیوں کا وار نہیں چلا ؟ گڈو نے اپنے ابا کی طرف دیکھ کر ڈرتے ڈرتے سوال پوچھا۔اوے پتر اس وقت ان کافروں کے پاس کمزور قسم کا زہر تھا پھر اللہ ہمارے ساتھ تھا ہم پر کوئی اثر نہیں ہوا چاچے نے گڈو کو بتاتے ہوئے مولوی صاحب سے پوچھا کیوں مولوی صاحب اور مولوی صاحب نے ہمیشہ کی طرح ہاں میں سر ہلا دیا۔ گڈو نے کہا چاچا جی کیا اب اللہ کریم ہمارے ساتھ نہیں ہے؟ چاچا جی ہم تو ہر چیز ہی یہودیوں کی بنی ہوئی استعمال کرتے ہیں وہ بھی بچپن سے ،حفاظتی ٹیکے،پینا ڈول ،سے لے کر دل میں پڑنے والے سٹنٹ، تک اوربند ڈبوں والے ،دودھ ،جوس، کوک ،پیپسی میں تو یہ کچھ بھی ملا کر دے دیتے ہمیں کونسا پتہ چلنا تھا ہم نے تو آج تک ڈسپرین نہیں بنائی اپنی ۔ہم روز انکے بنائے ہوئے کیپسول اور گولیاں کھاتے ہیں اور ان کو اتنا ڈرامہ کرنے کی کیا ضرورت تھی ۔ اور دوسرا جب سب مر جائیں گے تو ان کا کاروبار کیسے چلے گا؟ گڈو نے ہمت کرکے مزید پوچھا تو گاؤں والوں نے بھی سوالیہ نظروں سے چاچا علم دین کی طرف دیکھا ۔اوے تو ابھی بچہ ہے تو ان یہودیوں کو نہیں جانتا پہلے یہ غریب تھے اور ہمیں اپنی چیزیں بیچ کر یہ امیر ہوے اور اب ہمیں مار کے مشینی غلاموں کے ساتھ عیاشی سے رہیں گے اب انہیں کسی کی ضرورت نہیں انہوں نے سارا کچھ پہاڑوں میں جمع کر لیا ہے ہے اب یہ سب کو مار کر پوری زمین پر اپنی حکومت کر نا چاہتے ہیں” چاچے علم دین نے بڑے بزرگانہ انداز میں بولتے ہوئے جواب دیا۔ گڈو نے کہا پھر چاچا چین ،جرمنی، اور روس ، والے بھی تو ویکسین لگوا رہے ہیں اور خود اسرائیل نے تو سب سے پہلے لگوا لیں اور اپنے ماسک بھی پھاڑ دیے ۔ آخر ہماری ویکسین کےشروع ہوتے ہی اس طرح کی باتیں کیوں ہوتی ہیں کہیں یہ یہودیوں کی سازش تو نہیں کہ مسلمانوں کو ویکسین سے ڈرا کے ان کو کرونا کے لیے آسان شکار بنادیا جائے۔ہمارے پروفیسر صاحب تو بتا رہے تھے کہ یہودی سب سے پہلے آپنے اسرائیل کو ویکسین لگواتے ہیں پھر پیسے لگا کر مسلمانوں کو ویکسین سے ڈرانے کی مہم چلاتے ہیں تاکہ یہ بیمار ہو کر مر جائیں اور کچھ لوگوں نے اسی وجہ سے اپنے بچوں کو پولیو کے قطرے نہ پلوا کر اپاہج بنا دیا ہے اور آج پچھتاتے ہیں کہ کاش وقت پر پولیو ویکسین کروا لیتے تو آج ہمارے بچے بھی دوسروں کی طرح بھاگ دوڑ رہے ہوتے ۔ کروناویکسین لگوانا ہمارا اخلاقی اور معاشرتی فرض ہے ہم اللہ کے فضل سے بیماری میں مبتلا نہ بھی ہوئے مگر ہم وائرس کو پھیلا تو سکتے ہیں اور کسی کی جان لینے کا ذریعہ تو بن سکتے ہیں نا ۔ بغیر ویکسین کے تو ہر کوئی یہ زہر بانٹ سکتا ہے” گڈو کی بات سن کر چاچا غلام نے اپنی پولیو زدہ ٹانگ کو حسرت بھری نظروں سے دیکھا اور سوالیہ نظروں سے چاچے علم دین کی طرف دیکھا ۔ چاچا علم دین بولا
اور تیرے ان پڑھ پروفیسر کو کھیہ تے مٹی پتہ ہے ان کی باتوں پر جاتے تو آج بجلی نکلا پانی ہمارے گاؤں کو مل رہا ہوتا اور کوئی فصل نہ اگنی تھی بھوکے مر جاتے سارے گاؤں والے یہ تو میں نے شور مچایا کہ ہم اپنے پانی میں سے بجلی نہیں نکالنے دینگے گے اور ان کی ساری ٹرباینیں اٹھا کر باہر کی۔
جاھل ہیں یہ سارے میں نے اسی لیے کہا تھا کہ گڈو کو مولوی صاحب کے حوالے کر چھوڑ مسئلے سیکھ کر لوگوں میں علم بانٹے گا پر تیرے ابے نے میری ایک نہیں سنی۔ اب دیکھ لیا مولوی صاحب چلو چلیں ” چاچے کی بات پر مولوی صاحب نے حسب معمول سرہلا دیا ۔ گاؤں والے اب کافی پریشان لگ رہے تھے گڈو کی باتوں نے ان کو تھوڑا ہلا دیا تھا مگر وہ اس بات پر بھی پکے تھے کہ
علم دیاں گلاں علم دین جاندا اے
باقی زمانہ سارا کٹہ چھاندا اے
(خاکپائے نقشبند و اولیاء)