واہ میرے مالک کبھی گرما گرم دودھ جلیبیاں اور کبھی گرما گرم تھپڑ !

ایک مجذوب درویش بارش کے پانی میں عشق و مستی سے لبریز چلا جارہا تھا کہ اُس درویش نے ایک مٹھائی فروش کو دِیکھا جو ایک کڑھائی میں گرما گرم دودھ اُبال رہا تھا اور موسم کی مُناسبت سے دوسری کڑھائی میں گرما گرم جلیبیاں تیار کررہا تھا مجذوب کچھ لمحوں کیلئے وہاں رُک گیا شائد بھوک کا احساس تھا یا موسم کا اثر تھا۔ مجذوب حلوائی کی بھٹی کو بڑے غور سے دیکھنے لَگا مجذوب کُچھ کھانا چاہتا تھا لیکن مجذوب کی جیب ہی نہیں تھی تو پیسے بھلا کیا ہُوتے ۔ مَجذوب چند لمحے بھٹی سے ہاتھ سینکنے کے بعد چَلا ہی چاہتا تھا کہ نیک دِل حَلوائی سے رَہا نہ گیا اور ایک پیالہ گرما گرم دودھ اور چند جلیبیاں مَجذوب کو پیش کردِیں مَجذوب نے گرما گَرم جلیبیاں گَرما گرم دودھ کیساتھ نُوش کی اور پھر ہاتھوں کو اُوپر کی جانب اُٹھا کر حَلوائی کو دُعا دیتا ہُوا آگے چَلدِیا۔ مَجذوب کا پیٹ بھر چُکا تھا دُنیا کے غموں سے بے پروا وہ پھر اِک نئے جُوش سے بارش کے گدلے پانی کے چھینٹے اُڑاتا چلا جارہا تھا وہ اِس بات سے بے خبر تھا کہ ایک نوجوان نو بیاہتا جُوڑا بھی بارِش کے پانی سے بَچتا بچاتا اُسکے پیچھے چَلا آ رھا ہے یکبارگی اُس مَجذوب نے بارش کے گَدلے پانی میں اِس زور سے لات رَسید کی کہ پانی اُڑتا ہُوا سیدھا پیچھے آنے والی نوجوان عورت کے کَپڑوں کو بِھگو گیا اُس نازنین کا قیمتی لِباس کیچڑ سے لَت پَت ہُوگیا تھا اُسکے ساتھی نوجوان سے یہ بات برداشت نہیں ہُوئی۔

لِہذا وہ آستین چَڑھا کر آگے بَڑھا اور اُس مَجذوب کو گریبان سے پَکڑ کر کہنے لگا کیا اندھا ہے تُجھے نظر نہیں آتا تیری حَرکت کی وجہ سے میری مِحبوبہ کے کَپڑے گیلے ہوچکے ہیں اور کیچڑ سے بھر چکے ہیں۔ مَجذوب ہکا بَکا سا کھڑا تھا جبکہ اُس نوجوان کو مَجذوب کا خاموش رِہنا گِراں گُزر رہا تھا۔ عورت نے آگے بڑھ کر نوجوان کے ہاتھوں سے مَجذوب کو چھڑوانا بھی چاہا لیکن نوجوان کی آنکھوں سے نِکلتی نفرت کی چنگاری دیکھ کر وہ بھی دوبارہ پیچھے کھسکنے پر مجبور ہو گئی ۔

راہ چلتے راہ گیر بھی بے حِسی سے یہ تمام منظر دیکھ رہے تھے لیکن نوجوان کے غُصے کو دیکھ کر کِسی میں ہِمت نہ ہُوئی کہ اُسے رُوک پاتے اور بلاآخر طاقت کے نشے سے چُور اُس نوجوان نے ایک زور دار تھپڑ مَجذوب کے چہرے پر جَڑ دِیا بوڑھا مَجذوب تھپڑ کی تاب نہ لاسکا اور لڑکھڑاتا ہُوا کیچڑ میں جا پڑا نوجوان نے جب مَجذوب کو نیچے گِرتا دِیکھا تُو مُسکراتے ہُوئے وہاں سے چَلدیا۔ بوڑھے مَجذوب نے آسمان کی جانب نِگاہ اُتھائی اور اُس کے لَب سے نِکلا واہ میرے مالک کبھی گَرما گَرم دودھ جلیبیاں اور کبھی گَرما گَرم تھپڑ، مگر جِس میں تُو راضی مجھے بھی وہی پسند ہے، یہ کہتا ہُوا مَجذوب ایکبار پھر اپنے راستے پر چَلدِیا۔ دوسری جانب وہ نوجوان جُوڑا جوانی کی مَستی سے سرشار اپنی منزل کی طرف گامزن تھا تھوڑی ہی دور چَلنے کے بعد وہ ایک مکان کے سامنے پُہنچ کر رُک گئے وہ نوجوان اپنی جیب سے چابیاں نِکال کر اپنی محبوبہ سے ہنسی مذاق کرتے ہُوئے بالا خَانے کی سیڑھیاں طے کر رہا تھا۔

بارش کے سبب سیڑھیوں پر پھلسن ہو گئی تھی اچانک اُس نوجوان کا پاؤں رَپٹ گیا اور وہ سیڑھیوں سے نیچے گِرنے لَگا۔ عورت زور زور سے شور مچا کر لوگوں کو اپنے مِحبوب کی جانب متوجہ کرنے لگی جسکی وجہ سے کافی لوگ فوراً مدد کے واسطے نوجوان کی جانب لَپکے لیکن دیر ہو چُکی تھی نوجوان کا سَر پھٹ چُکا تھا اور بُہت ذیادہ خُون بِہہ جانے کی وجہ سے اُس کڑیل نوجوان کی موت واقع ہو چُکی کُچھ لوگوں نے دور سے آتے مَجذوب کو دِیکھا تُو آپس میں چہ میگویئاں ہُونے لگیں کہ ضرور اِس مجذوب نے تھپڑ کھا کر نوجوان کیلئے بَددُعا کی ہے ورنہ ایسے کڑیل نوجوان کا صرف سیڑھیوں سے گِر کر مرجانا بڑے اَچھنبے کی بات لگتی ہے۔ چند منچلے نوجوانوں نے یہ بات سُن کر مَجذوب کو گھیر لیا ایک نوجوان کہنے لگا کہ آپ کیسے اللہ والے ہیں جو صِرف ایک تھپڑ کی وجہ سے نوجوان کیلئے بَددُعا کر بیٹھے یہ اللہ والوں کی روِش ہَر گز نہیں کہ ذرا سی تکلیف پر بھی صبر نہ کر سکیں۔ وہ مَجذوب کہنے لگا خُدا کی قسم میں نے اِس نوجوان کیلئے ہرگِز بَددُعا نہیں کی ! تبھی مجمے میں سے کوئی پُکارا اگر آپ نے بَددُعا نہیں کی تُو ایسا کڑیل نوجوان سیڑھیوں سے گِر کر کیسے ہلاک ہو گیا ؟ تب اُس مَجذوب نے حاضرین سے ایک انوکھا سوال کیا کہ کوئی اِس تمام واقعہ کا عینی گَواہ موجود ہے؟ ایک نوجوان نے آگے بَڑھ کر کہا ، ہاں میں اِس تمام واقعہ کا عینی گَواہ ہُوں مَجذوب نے اَگلا سوال کیا ،میرے قدموں سے جو کیچڑ اُچھلی تھی کیا اُس نے اِس نوجوان کے کپڑوں کو داغدار کیا تھا ؟ وہی نوجوان بُولا نہیں ،، لیکن عورت کے کَپڑے ضرور خَراب ہُوئے تھے مَجذوب نے نوجوان کی بانہوں کو تھامتے ہُوئے پوچھا، پھر اِس نوجوان نے مجھے کیوں مارا ؟ نوجوان کہنے لگا، کیوں کہ وہ نوجوان اِس عورت کا محبوب تھا اور اُس سے یہ برداشت نہیں ہُوا کہ کوئی اُسکے مِحبوب کے کپڑوں کو گَندہ کرے اسلئے اپنی معشوقہ کی جانب سے اُس نوجوان نے آپکو مارا۔

نوجوان کی بات سُن کر مجذوب نے ایک نعرۂ مستانہ بُلند کیا اور یہ کہتا ہُوا وہاں سے رُخصت ہُوگیا پس خُدا کی قسم میں نے بَددُعا ہرگز نہیں کی تھی لیکن کوئی ہے جو مجھ سے مُحبت رکھتا ہے اور وہ اِتنا طاقتور ہے کہ دُنیا کا بڑے سے بڑا بادشاہ بھی اُسکے جبروت سے گھبراتا ہے.

(ماخوذ)

خاکپائےنقشبندو اولیا۶
 

Comments are closed.