مرشد کامل
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَابْتَغُوا إِلَيْهِ الْوَسِيلَةَ
اے ایمان والو اللہ سے ڈرو اور اس تک پہنچنے کیلیے وسیلہ تلاش کرو
آیت ۳۵ سورۃ المایدہ
ضرورتِ مرشدِ کامل
مرشد کامل جو عالم ربانی ہی ہوتا ہے، کی صحبت اور تربیت کیوں ضروری ہے اس موضوع پر حضرت امام ربانی مجدّد و منوّر الف ثانی قدس سرہٗ فرماتے ہیں
(مکتوب ۱۶۹ دفتر اول حصہ سوم)
اے محترم! انسانی زندگی کا مقصد اعلیٰ بارگاہ قدس میں ہی پہنچنا ہے، لیکن چونکہ مرید شروع میں بہت سے تعلقات سے وابستہ ہونے کی وجہ سے انتہائی میلے پن اور پستی میں ہوتا ہے، جبکہ ذات باری تعالیٰ انتہائی پاکیزہ اور بہت بلند ہے۔ اس لیے فائدہ پہنچانے اور فائدہ حاصل کرنے کے لیے طالب اور مطلوب کے درمیان جو مناسبت چاہیے وہ موجود نہیں، لہٰذا اسکے راستہ سے باخبر اور راستہ کو صحیح دیکھنے والے پیرِ کامل کے سوا کوئی چارہ نہیں جو درمیان میں واسطہ ہو اور اللہ تعالیٰ سے قرب اور عام انسانوں سے رابطہ رکھتا ہو تاکہ وہ مطلوب کے ساتھ طالب کے وصول کا ذریعہ بنے۔
(۱) شیخ با یزید بسطامی علیہ الرحمہ کا قول ہے : جس کا کوئی مرشد نہ ہو اس کا مرشد شیطان ہوتا ہے۔ ( الرسالۃ القشیریہ ، باب الوصیۃ للمریدین)
(۲) حضرات موسیٰ و خضر علیہماالسلام کے واقعہ میں ان مدعیان علم و حکمت کے لیے عبرت ہے جن کو غرور علم نے تلاشِ مرشد کامل سے بے پروا کر دیا ہے۔ یہی بے پروائی جب انتہائی درجے پر پہنچتی ہے تو انسان یہ کہنے لگتا ہے کہ قرآن ہمارے لیے کافی ہے، سنت کی رہبری کی ضرورت ہی کیا ہے ؟ یہ دراصل جناب محمد رسول اﷲ ﷺ کا خاموش انکار ہے۔ پیغمبر اسلام جناب محمدرسول اللہ ﷺ نے اسی لیے فرمایا کہ میں تمہارے بیچ دو چیزیں چھوڑ کر جا رہا ہوں،اگر تم اسے تھامے رہوگے توکبھی گم راہ نہ ہوگے، اﷲ کی کتاب اور اس کے رسول کی سنت۔ (مستدرک،کتاب العلم، حدیث:۳۱۸،بیہقی، کتاب آداب القاضی، باب ما یقضی بہ قاضی و یفتی بہ،حدیث: ۲۰۸۳۴) ایک دوسری روایت میں سنت کی جگہ ’’عترت ‘‘ کا لفظ آیا ہے (ترمذی، باب مناقب اہل النبی صلی اللہ علیہ وسلم/نسائی، کتاب المناقب، فضائل علی)جسے اگر توسع کے ساتھ لیں تو وہ تمام رجال حق عترتِ رسول ٹھہریں گے جو رسول گرامیﷺ کے سچے متبع ہیں اور ان کے پیغام کو زبان وحال سے دوسروں تک پہنچانے والے ہیں۔
(۳) فقہا کا اصول ہے کہ اشیا میں اصل اباحت ہے۔ حرمت کے لیے دلیل چاہیے۔ اسی لیے اہل اسلام کو حسن ظن کا حکم دیا گیا ہے کہ جب تک کسی کے فسق و فجور اور شر و فساد پر دلیل شرعی قائم نہ ہو ، اصلاً اسے صالح ہی تصور کیا جائے گا۔ اسی طرح عصر حاضر کے مسلمانوں میں ایک برا تخیل یہ پیدا ہوگیا ہے کہ مسلمان میں ــ’’سنیت‘‘ کی تلاش کی جاتی ہے، جب کہ ہونا یہ چاہیے کہ جو شخص بھی اہل قبلہ ہو، اپنے آپ کو مسلمان کہتاہو، جب تک اس میں گم رہی کی علامات نہ پائی جائیں اسے سنی مسلمان ہی سمجھا جائے، اس لیے کہ اصل سنیت ہے،اس لیے اس کے ثبوت کے لیے دلیل کی حاجت نہیں ہے، عدم سنیت خلاف اصل ہے جس کے لیے دلیل درکار ہے۔
(۴) ( الحجرات: ۱۲)زیادہ بد گمانی سے بچو کیوں کہ بعض بد گمانیاں گناہ ہو ا کرتی ہیں۔
(۵) اپنی رائے اور خیال کو وحیِ ربانی سمجھنا سخت گمراہی ہے۔ عصر حاضر میں اختلافی مسائل میں اصرار کا جو رویہ پیدا ہوا ہے وہ اسی وجہ سے کہ بعض افراد اپنی اجتہادی رائے کو حرفِ قطعی اور سب کے لیے واجب التسلیم گمان کر بیٹھے ہیں۔ یہ بہت بڑی نادانی، سخت گمرہی اور باعث افتراق امت ہے۔
(۶) تمام مشائخ کے ساتھ حسن ظن ضروری ہے۔ اگر یہ بات آج ہم میں پیدا ہو جائے تو ہمارے بیچ سے بہت سی مشربی بو العجبیاں خود بخود ختم ہو سکتی ہیں۔
(۷) واقعہ ٔ موسیٰ و خضر علیہما السلام میں ہے کہ حضرت خضر علیہ السلام نے ا س کشتی میں سوراخ کر دیا جس پر سوار ہو کر دونوں نے دریا عبور کیا تھا، آگے چل کر ایک بچے کو قتل کر دیا ، اس سے آگے بڑھے اور ایک بستی میں پہنچے ، اہل بستی سے کھانا طلب کیا مگر انہوں نے انکار کر دیا، بستی میں ایک ٹیڑھی کمزور دیوار تھی جسے حضرت خضر علیہ السلام نے بغیر کسی اجرت کے درست کر دیا۔ ان تینوں واقعات پر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اعتراض کیا جنہیں اعتراض نہ کرنے کی شرط کے ساتھ حضرت خضر نے اپنی صحبت میں رکھا تھا۔ تیسرے اعتراض کے بعد تینوں واقعات کی حکمتیں بتا کرحضرت خضرحسب شرائط حضرت موسیٰ سے علاحدہ ہو گئے۔ اس واقعہ سے تفسیر اشاری کے طور پر شیخ نے یہ معنٰی لیے ہیں کہ مرشد کا کام یہ ہے کہ وہ دل کی کشتی کو توڑے تاکہ شیطان اس پر قابض نہ ہونے پائے ،نفس امارہ کو قتل کرے جو طفل شریر کی مانند ہے، جو انسان کی گم راہی اور تباہی کا سبب بنتا ہے اور دین کی گرتی دیوار کو بغیر کسی اجرت کے درست کرے، تبلیغ کے اجرکا امیدوار اللہ سے ہو، بندوں سے نہیں۔ ایسا جو کرتا ہے وہی مرشد کامل اور خضر وقت ہے اور اس کے بظاہر خلاف درست افعال و اشغال پر جو خاموش رہے وہی طالب صادق ہے۔ حضرت موسیٰ و خضر علیہما السلام کایہ پورا واقعہ سورۃ الکہف(۶۰-۸۲)میں ملاحظہ کیاجا سکتا ہے۔
(۸) محقق علی الاطلاق حضرت شیخ عبد الحق محدث دہلوی مشائخ کے بظاہر خلاف شریعت امور سے متعلق فرماتے ہیں :’’وہ حضرات جو افراط و تفریط سے الگ راہ اعتدال پر گام زن ہیں ان کا موقف یہ ہے کہ ایسے اقوال و افعال فی الواقع درست ہیں مگر شرعاً قبیح ہیں اور اس شرعی قباحت کی وجہ ضبط و اختیار کا فقدان اور غلبۂ حال ہے۔ اس کی مثال عالم ظاہر میں ایسے ہی ہے جیسے جب کسی ذی ہوش اور عقل مند آدمی کے اوپر فرحت و غضب کی حالت طاری ہوتی ہے تو اختیار کھوبیٹھتا ہے اور بے خودی میں عجیب و غریب حرکتیں کرنے لگتا ہے۔ لہٰذا ایسے اقوال و افعال کو فقط تسلیم کیا جائے جیسا کہ کہاگیا ہے اسلم تسلم۔‘‘ (مرج البحرین، فارسی، ص: ۳۳، ایجوکیشنل پریس، کراچی)
(۹) حدیث پاک ہے: ’’جو خاموش رہا نجات پایا۔‘‘ (احمد ابن حنبل، عن عبداللہ ابن عمرو، حدیث:۶۰۴۸۱/ ترمذی، صفۃ القیامۃوالرقاق و الورع، باب:۵۰)
(۱۰) ارشاد ربانی ہے 🙁 الحشر: ۷) ’’ رسول جو دیں اسے لے لو اور جس سے منع کریں اس سے رک جائو‘‘ علماے ربانیین چوں کہ رسول کے بعد نائبین رسول ہیں ، اس لیے اب امت کے عام افراد پر علماے ربانیین اور اولیاے کاملین کا اتباع لازم ہے ، اس لیے کہ یہی لوگ اولوالامر ہیں۔
(۱۱) موجودہ امت میں فقہی اختلافات سے جو مشربی اور گروہی جنگیں شروع ہیں ان کا حل اس شعر میں موجود ہے۔ ہر شخص مختلف فیہ مسائل میں اپنے شیخ، معتمد شریعت اور قبلۂ طریقت کا اتباع کرے اور دوسروں سے تعرض نہ کرے ، ایسی صورت میں اختلاف امت واقعی رحمت نظر آئے گایا کم ازکم زحمت نہیں بنے گا۔
(۱۲) شیخ نے اس شعر کے ذریعے شخصیت پرستی کی وہ جڑ کاٹ دی ہے جس نے موجودہ دور میں تحقیق و تفکیر کے آلے کو کند کر رکھا ہے ، جس کے نتیجے میں ہر چہار جانب مشربی بوالعجبی اور گروہی عصبیت کا بازار گرم ہے۔ اب علم و تحقیق کے نام پرکنبہ پروری اور گروہ بندی کی قبیح روایت چل پڑی ہے ۔ اے کاش ! علمائے فحول اس گروہی عصبیت ، مشربی بوالعجبی اور شخصیت پرستی کے تعفن زدہ ماحول سے خود کو باہر لانے کی کوشش کرتے ۔ جس طرح ایک عامی اور متوسط پر اپنے بڑے کا اتباع لازم ہے اسی طرح علماے فحول اور فقیہان وقت کی ذمہ داری ہے کہ وہ خامۂ تحقیق کو جیب سے باہر لائیں اور نئے دور میں نفاذ شریعت کے لیے قلم اٹھائیں نہ کہ کورانہ تقلیدی روایت کو آگے بڑھانے، ممدوحین وقت کو خوش کرنے اور نفع عاجل کو سمیٹنے کے لیے ۔ شیخ نے جو بات کہی ہے یہی اہل حق کا علمی موقف ہے ،معاصر علما اسی پر قائم ہیں لیکن کاش علما اس موقف کو بیان کرنے کی جرات کر سکتے
شرع و دیں بے پیر راہِ پرُ خطر
الحذر اے مردِ ناداں الحذر
جس(۱) کا کوئی مرشد و رہبر نہیں
اس کا رہبر نفس و شیطاں بالیقیں
گر(۲) ہے تیرے پاس علم موسوی
جستجو کر پھر بھی خضر وقت کی
اس حقیقت کو سمجھ اے بے یقیں
خضر سے خالی نہیں کوئی زمیں
تو سمجھتا ہے جسے عام آدمی
ممکن ہے کہ خضر دوراں ہو وہی
اس لیے تو یاد رکھ اس بات کو
فوقیت ہے نفی پر اثبات کو (۳)
تونے جو سمجھا ہے تیرا ہے گماں
اِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ اِثْمٌ(۴)را بخواں
یاد رکھ اس بات کو اے مردِ ضال
آیتِ محکم نہیں تیرا خیال(۵)
بد گمانی اور تکبر بے گماں
قاطع راہِ طریقت ہے میاں
جس کسی درویش کو دیکھ اے اخی
یہ سمجھ شبلی دوراں ہے یہی(۶)
واصلِ عینِ شریعت اس کو جان
مرشد و پیرِ طریقت اس کو مان
اس کی ہر اک بات کو تسلیم کر
خلق کی بیجا ملامت سے نہ ڈر
اعتراض و شک و انکار و کلام
شیخ کی صحبت میں ہے مطلق حرام
دل کی کشتی کو شکستہ جو کرے
طفلِ نفسانی کو مردہ جو کرے
فی سبیلِ اﷲ خضرے رہبرے(۷)
دین کی دیوار مستحکم کرے
دیکھتا رہ تو بہ تسلیم و رضا
شیخ فاعل ہے بہ الہامِ خدا
گو سمجھ میں تیرے آئے یا نہ آئے
تجھ پہ لازم ہے کہ تو ایمان لائے
اس کی جو بھی بات سن اے بے خبر
رد اور انکار میں جلدی نہ کر(۸)
اور نہ ہی تقلید میں جلدی دکھا
بلکہ ساکت رہ کہ مَنْ سَکَتَ نجا(۹)
جب تلک کہ حکم مرشد کا نہ پا
اتباعِ حال سے خود کو بچا
جس سے وہ روکے تو رک جا باخدا
جس طرف وہ حکم فرمائے تو جا
یہ اشارہ یاد رکھ ہر لحظہ تو
َمَا نَہَاکُمْ عَنْہ اے دل فَانتَہُوا(۱۰)
صدقِ دل سے بے محابا اے پسر
امر و نہیِ شیخ کو تسلیم کر
اختلافی(۱۱) مسئلہ میں ہر گھڑی
پیروی واجب ہے اپنے شیخ کی
مبتدی و معتقد پر ہر زماں
اتباعِ شیخ ہے واجب میاں
منتہی و صاحبِ حال و نظر
اس سے مستثنیٰ ہیں(۱۲)بے خوف و خطر
کیست کافر (۱۳) منکر از فرمانِ شیخ
کیست مرتد (۱۴) مرتد از عرفانِ شیخ
مرشدِ بر حق سے جو ہے بد گماں
وہ ہے مردودِ طریقت بے گماں
بدگمانی اور حضورِ شیخِ دیں
جس کے دل میں ہو ،مرید ہر گز نہیں(۱۵)
صحبتِ مرشد میں بے چون و چرا
بد گمانی سے بچ اے مردِ خدا
تاکہ حاصل ہو تجھے فضل خدا
بارگاہِ شیخ سے بے انتہا
شیخ ہے وہ آلۂ برحق میاں
جس میں فاعل ہے خداوندِ جہاں
خود سے فانی ہے وہ یوں سر تا بپا
حق ہی حق ظاہر ہے اس میں باخدا
شیخ کی روحانیت کو ہر زماں
حاضر و ناظر سمجھ تو اے جواں
جس طرح سے روح کی روحانیت
رکھتی ہے اعضاسے اپنے قربیت
دور و نزدیک اس طرح سے شیخِ دیں
ہر مریدِ با صفا سے ہے قریں
دستِ شیخ از غائباں کوتاہ نیست
دستِ او(۱۶) جز قبضۂ اﷲ نیست
برزخِ شیخ ہر گھڑی رکھ درمیاں
تاکہ شجرِ طور ہو تیری زباں
شیخ ہے وہ آئینہ سر تا بپا
جلوہ گر ہے جس میں ذاتِ کبریا
شیخ کا مقبول مقبولِ خدا
شیخ کا مردود مردودِ خدا
جو تصور میں رہے گا شیخ کے
فیض پائے گا وہ اس کی ذات سے
اے پسر اس راہ میں بس اوّلیں
شرط ہے توحیدِ مطلب بالیقیں
یہ سمجھ جو بھی عطا ہوگا مجھے
وہ عطا ہوگا ہمارے شیخ سے
غوثِ صمدانی سراپا شیخ ہے
قطب ربّانی سراپا شیخ ہے
ظلِّ سبحانی سراپا شیخ ہے
نورِ ربّانی سراپا شیخ ہے
سب سے یکتا بے مثال و بے نظیر
پیر ہے ایسا کہ ہے پیروں کا پیر گ
ر چہ عالم میں بہت سے ہیں ولی
پر نہیں ہے شیخ سا کامل کوئی(۱۷)
گر کسی سے فیض پائے تو کبھی
تو سمجھ اس کو کرامت شیخ کی
تیری نظروں میں نہ آئے کوئی بھی
عین معراجِ ارادت ہے یہی
صدقِ دل سے بس عقیدہ رکھ یہی
شیخ سے بڑھ کر نہیں کوئی ولی
اس کا یہ مطلب نہیں اے بے خبر
دوسرے ولیوں کا تو انکار کر
یاد رکھ اس بات کو تو اے جواں
اولیا سے پُر ہے یہ سارا جہاں
جس(۱۸) کسی کو دیکھ اپنا شیخ جان
غیریت کو تو مٹا دے میری جان
غیریت اس راہ میں مردود ہے
عینیت ہی اصل اور مقصود ہے
تو کہ غفلت میں پڑا ہے بے خبر
جادہ و منزل سے کوسوں دور تر
جاکے اربابِ تصوف کے قریں
لے سبق علم الیقیں کا اوّلیں
بعدہٗ عین الیقیں را ہم ببیں
تا ترا حاصل بود حق الیقیں(۱۹)
معرفت حق الیقیں کا نام ہے
جو یقینا مقصدِ اسلام ہے
علامات مرشد کامل
کامل مرشد وہ ھے جو مرید کو اللہ کی عطااور بوسیلہ محمدؐؐﷺ وہ چیز دیتا ھے جو وہ خود کبھی بھی حاصل نھیں کر سکتااور اپنی ایک نظر سے مرید کےاندر ذکر قلب جاری کر دیتا ھے اور اُسکو دنیا سے توڑ کراللہ سےجوڑدیتا ھے۔ تصوف و طریقت کے ضمن میں تو شیخِ کامل کی علامات کا ذکر اجمالاً ہوا، تاہم یہاں مزید وضاحت سے مرشد کامل کی علامات بیان کی جاتی ہیں تاکہ کوئی لاعلم نووارد شخص پیر و مرشد کے نام پر کسی رسمی پیر کے ہتھے نہ چڑھ جائے، جس سے اسے بجائے فائدہ کے نقصان ہو۔ اس اہم موضوع پر طریقہ عالیہ نقشبندیہ کے مشہور شیخ حضرت حاجی دوست محمد قندھاری قدس سرہٗ اپنے ایک مکتوب میں تحریر فرماتے ہیں:
ترجمہ: ولی کی علامت یہ ہے کہ سب سے پہلے وہ اہل سنۃ والجماعۃ کے پختہ عقائد رکھتا ہو۔
حضرت امام ربانی مجدد الف ثانی قدس سرہٗ نے بھی خواجہ جمال الدین حسین علیہ الرحمۃ کے نام تحریر کردہ اپنے مکتوب میں مرضیات حق جلّ تعالیٰ سبحانہٗ یعنی اللہ تعالیٰ کے پسندیدہ امور میں عقائد اہل السنۃ کو سرِ فہرست ذکر کیا۔ آپ نے تحریر فرمایا۔
(مکتوب ۱۷۷ دفتر اول حصہ سوم)
سب سے پہلے اپنے عقائد اہل سنت والجماعت کے مطابق بنانے کو ضروری سمجھیں۔ دوسرا شرعی فقہی احکام کے مطابق عمل کریں۔ تیسرا صوفیائے کرام کے طریقہ پر چلیں۔ جس شخص کو بھی ان کاموں کی توفیق حاصل ہوئی اسے بڑی کامیابی حاصل ہوگئی اور جو اس سے محروم رہا وہ بڑے خسارے میں مبتلا ہوگیا۔
حضرت حاجی دوست محمد قندھاری علیہ الرحمۃ نے امر ثالث کی مزید وضاحت کرتے ہوئے فرمایا۔
مقامات عشرہ صوفیہ علیہم الرحمۃ چنانچہ توبہ و انابۃ و زہد و ورع و صبر و شکر و توکل و تسلیم و رضا اجمالاً یا تفصیلاً حاصل نمودہ باشد و ایضا صحبتِ اورا اثرے و تاثیرے باشد کہ محبتِ دنیا و اہل دنیا بر دل ہم نشینان اوسر شود و غفلت از ہم صحبتانِ وے برطرف گردد، و ہمان ولی مذکور خود را از جمیع مخلوقات کم تر و بدتر داند نہ آنکہ ثنائے خود بزبان خود کند و باخلاق حمیدہ و اوصاف پسندیدہ از تواضع و علم و تحمل و بردباری و مروت و فتوت و سخاوت و تازہ روئی و نیک خلقی و راستی و عجز و نیاز و کم آزاری و پرہیز گاری از حرام و مشتبہ و مکروہ موصوف باشد۔
الغرض باتیان تمامی اعمال خیر آراستہ باشد و در جمیع امور باخلاق سرور عالم صلّی اللہ علیہ وسلم متخلق بود، پس صحبت ایں چنیں شخص نعمتے است عظمیٰ و دولتے است کبریٰ۔
(مکتوب 19 صفحہ نمبر)
صوفیاء کرام کے بیان کردہ مقامات عشرہ: توبہ یعنی رجوع الی اللہ، زہد یعنی دنیا سے بے رغبتی، پرہیز گاری، صبر و شکر، توکل، تسلیم و رضا اجمالاً یا تفصیلاً حاصل کرچکا ہو، نیز اس کی صحبت میں یہ تاثیر ہو کہ جو اس کی ہم نشینی اختیار کرے اس کا دل دنیا اور دنیا داروں سے لاتعلق ہوجائے اور اسکے ہم نشینوں کے دلوں سے غفلت دور ہوجائے، نیز وہ بزرگ اپنے آپ کو جمیع مخلوقات سے کم تر بلکہ بدتر جانتا ہو۔ اپنی تعریف خود نہ کرے اور وہ اخلاق حمیدہ اور اوصاف پسندیدہ مثلاً تواضع، علم، برداشت و بردباری، مروت و سخاوت اور خندہ پیشانی، خوش خلقی، سچائی، عجز و انکساری، سے موصوف ہو۔ دل آزاری سے حتی الوسعۃ دور رہتا ہو۔ حرام مشتبہ اور مکروہ سے پرہیز جیسے اوصاف سے موصوف ہو۔ غرضیکہ وہ تمام اچھے اعمال سے آراستہ ہو اور تمام امور میں نبی کریم صلّی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق سے متخلق ہو۔ پھر ایسے شخص کی صحبت نعمۃ عظمیٰ ہے اور بہت بڑی دولت۔
قرآن و سنت کا عالم ہو، گو کسی مدرسہ سے فارغ التحصیل عالم نہ ہو لیکن بقدر ضرورت قرآن مجید کے معانی اور کسی حد تک احادیث مبارکہ جانتا ہو۔ فقہی مسائل سے پوری طرح واقف ہو۔ یہ اس لیے ضروری ہے کہ پیرومرشد کا اصل منصب ہی یہ ہے کہ وہ ان چیزوں کا امر کرے جن کا شریعت نے حکم دیا ہے مثلاً نماز، روزہ، صبر و شکر، قناعت، توکل و تقویٰ کی تلقین کرے اور جن امور سے قرآن و حدیث نے روکا ہے مثلاً جھوٹ، غیبت چوری وغیرہ ان سے لوگوں کو روکے اور یہ تب ہی ممکن ہوگا جب وہ خود ان چیزوں سے باخبر ہوگا، ورنہ ”آنکس کہ خود گم است کرا رہبری کند“ کہ جو خود راستہ سے بھٹکا ہوا ہو وہ کسی اور کو کیا راستہ دکھائیگا۔ اور اس کے ساتھ مریدین کی تربیت حسنِ اخلاق و محبت سے کرے۔
متقی و پرہیزگار ہو یعنی کبیرہ گناہوں سے محفوظ ہو اور صغیرہ گناہ اگر اتفاقاً سرزد ہوجائے تو اس پر اصرار نہ کرے، جلدی سے توبہ و رجوع الی اللہ کرے۔ دنیا سے زیادہ آخرت کی فکر رکھتا ہو۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ دنیوی کام کاج ہی نہ کرتا ہو، جائز و حلال طریقہ پر جتنا چاہے دنیوی کام بے شک کرے لیکن اسکی وجہ سے آخرت کے معاملہ میں کوتاہی نہ کرتا ہو۔ اعمال صالحہ شوق سے کرتا ہو اور دل سے ہمہ وقت متوجہ الی اللہ رہتا ہو، خواہ بظاہر کتنا ہی وقت دنیوی کاموں میں مصروف رہتا ہو۔ کسی شیخ کامل کی صحبت ادب و محبت سے اختیار کی ہو اور اس سے باطنی نور حاصل کیا ہو۔ یہ اس لیے لازم ہے کہ قدیم سے سنۃ الٰہیہ ہے کہ ”اِنَّ الرَّجُلَ لاے صْلحُ اِلَّا اِذَا رَءَ الْمُصْلَحِیْنَ“ کہ نیک لوگوں کو دیکھ کر ہی کوئی آدمی فلاح پاسکتا ہے۔ یہ بعینہٖ اسی طرح ہے جیسے کوئی علم حاصل کرنا چاہتا ہے تو علماء کی صحبت اختیار کرتا ہے۔
مریدین کے مال و ملکیت میں طمع و لالچ نہ رکھتا ہو اورنہ یہ چاہے کہ کوئی میری تعریف یا تعظیم کرے۔ مریدوں کی صلاحیتوں سے باخبر ہو اور استعداد و صلاحیت کے مطابق انکی تربیت کرے۔ اگر خدانہ خواستہ کسی ناقص پیر کے حضور سے اس کے پاس کوئی مرید آجائے تو حکیم حاذق کی طرح پہلے اس کے مرض کی تشخیص کرے، اس کے بعد دوائی دے۔ اخلاقی کمزوریوں کو سمجھ کر تلقین کے ذریعے اسکی اصلاح کرے۔ یہ اس لیے ضروری ہے کہ ناقص پیر جس نے خود سلوک کی تکمیل نہیں کی اور جذبہ کے مقام پر نہیں پہنچا، اس کی صحبت زہر قاتل ہے اور اسکی طرف رجوع کرنا مرض مہلک ہے۔ ایسے پیر کی صحبت سے بلند استعداد رکھنے والے مرید کی صلاحیتیں ضایع ہوجاتی ہیں۔ سلوک کی تکمیل صرف شیخ کامل مکمل کراسکتا ہے۔ لہٰذا ناقص پیر سے طریقت کی تعلیم حاصل کرنا جائز نہیں اور نہ اس سے جس کے آباء واجداد تو کامل و مکمل ولی تھے لیکن یہ انکی راہ پر نہیں چلا۔ اس لیے اس میں وہ صلاحیت نہیں ہے۔
بیعت توبہ
تصوف کی راہ میں بیعت بنیادی حیثیت رکھتی ہے۔ اس کے بغیر کامل فائدے کا حصول ناممکن ہے اور یہ قرآن حکیم و احادیث مبارکہ سے بھی ثابت ہے۔ جس طرح قرآن مجید میں ارشاد ہے کہ تحقیق وہ لوگ جو آپ رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم کی بیعت کرتے ہیں در حقیقت وہ خدا تبارک و تعالیٰ کی بیعت کرتے ہیں۔
بیعت کی معنیٰ: بیعت کی لغوی معنیٰ حوالے کرنا، سپرد کرنا، فروخت کرنا کی جاتی ہے۔ تصوف میں مرید کا اپنے شیخ کامل کے ہاتھ پر اپنے نفس کو سپرد کرنے اور فروخت کرنے کا نام بیعت ہے۔ یعنی اپنے تمام تر ارادوں و اختیارات اور خواہشات نفسانی کو ختم کرکے خود کو شیخ کامل کے حوالے کردے اور راہ سلوک میں اس کی رضا و منشا کے خلاف کوئی بھی قدم نہ اٹھائے۔ اور اگر اس کے بعض احکام مرید کو صحیح معلوم نہ ہوں تو اس کو اپنے عقل کا قصور سمجھے اور ان افعال و اقوال کو افعال خضر علیہ السلام کے مثل سمجھے۔ گویا کہ اپنے شیخ کے ہاتھوں میں مردہ بدست زندہ بن کر رہے۔ اس کو ہی بیعت سالکین کہا جاتا ہے اور یہی مقصود مشائخ مرشدین ہے اور یہی وہ راستہ ہے جو خدائے عزوجل تک آسانی سے رسائی حاصل کرواتا ہے۔ یہی بیعت آنحضرت صلّی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین سے لی۔
حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم نے رسول اکرم صلّی اللہ علیہ وسلم سے اس بات پر بیعت کی کہ ہر آسانی و دشواری، ہر خوشی و ناگواری میں حکم سن کے قبول کریں گے اور اس حکم کی اطاعت کاملہ کریں گے اور صاحب حکم کے کسی حکم میں چوں چرا نہیں کریں گے۔ شیخ کامل کا حکم بھی درحقیقت رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم کا حکم ہی ہوتا ہے، کیونکہ ولی کامل نائب رسول صلّی اللہ علیہ وسلم ہوتا ہے اور ولی کامل کی تعریف ہی یہی ہے کہ جو کامل طریقے سے اتباع رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم پر کاربند ہو۔ تو اس کا کوئی بھی حکم شریعت رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم کے خلاف نہیں ہوگا، اس طرح شیخ کامل کا حکم رسول کریم صلّی اللہ علیہ وسلم کا ہوا اور رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم کا حکم اللہ کا حکم ہے اور اللہ عزوجل کے حکم میں مجال دم روا نہیں۔
بیعت کی حیثیت و اہمیت: ائمہ دین اور مشائخ طریق کا اس امر میں اختلاف ہے کہ آیا بیعت فرض ہے یا واجب، سنت ہے یا مستحب۔ جو افراد بیعت کو فرض کا درجہ دیتے ہیں وہ اپنے مؤقف کے لیے قرآن کریم کی اس آیت کریمہ کو دلیل بتاتے ہیں۔
ترجمہ: اے ایمان والو خدا سے ڈرو اور اس کی طرف وسیلہ ڈھونڈو اور خدا تعالیٰ کے راستے میں جہاد کرو تاکہ تم کامیابی حاصل کرو۔
دوسری آیت میں ہے اور اس شخص کے راستے کی پیروی کرو جو میری طرف رجوع کرتا ہو۔
چونکہ مذکورہ دونوں آیات میں امر کا صیغہ لایا گیا ہے، اس لیے بیعت کو فرض سمجھا گیا اور اس کے ساتھ جب بیعت علم الاحسان کا دروازہ ہے تو اس کی فرضیت میں کیا شبہ ہے کیونکہ یہی عبادات کا مغز ہے۔
بعض مفسرین کرام جو وجوب بیعت کے قائل ہیں انہیں دو مذکورہ آیات کی تفسیر کرتے لکھتے ہیں کہ صیغہ امر وجوب کی تعریف میں آتا ہے اور اگر بیعت فرض ہوتی تو اس کا انکار کرنے والا کافر ہوتا، حالانکہ علماء کا اتفاق ہے کہ بیعت سے انکار کرنے والا کافر نہیں ہے۔ اکثر علماء کا یہ خیال ہے کہ صیغہ امر سے مراد استحاب ہے، دلیل کے طور پر کہتے ہیں کہ اگر بیعت فرض یا واجب ہوتی تو اس کے ترک کرنے والے کے لیے شارع علیہ السلام کے طرف سے کوئی وعید ہوتا اور اس کو ترک کرنے والا فاسق ہوجاتا مگر شریعت میں ایسا کوئی امر نہیں ہے اور طریقت شریعت کی ہی تابع ہے۔
بیعت کا سنت ہونا: احادیث مشہور میں نقل کیا گیا ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین آنحضرت صلّی اللہ علیہ وسلم کے دست اقدس پر بیعت کرتے تھے۔ اکثر ارکان اسلام پر استقامت کے لیے بیعت کرتے تھے۔ کبھی معرکوں میں ثابت قدم رہنے کے لیے، کبھی ہجرت کے لیے تو کبھی جہاد کے لیے جیسے بیعت رضوان۔ قرآن کریم میں ان بیعتوں کا تذکرہ موجود ہے۔ سورہ فتح میں ارشاد ہے آیت ۱۰ سورہ الفتح
ترجمہ: جو لوگ آپ صلّی اللہ علیہ وسلم کی بیعت کررہے ہیں وہ در حقیقت اللہ عزوجل کی بیعت کررہے ہیں، اللہ تبارک و تعالیٰ کا ہاتھ ان کے ہاتھوں کے اوپر ہے۔ پھر جو شخص بیعت کو توڑے گا تو بیعت توڑنے کا وبال اسی پر ہوگا، اور جو شخص اس عہد کو پورا کرے گا جس کا بیعت کے وقت خدا سے وعدہ کیا تھا تو خدائے عزوجل جلد اس کو اجر عظیم عطا فرمائے گا۔
ایک اور آیت میں ارشاد ہے: سورہ فتح آیت ۱۸
ترجمہ: بیشک اللہ تبارک و تعالیٰ مؤمنین سے راضی ہوا جب یہ لوگ درخت کے نیچے آپ سے بیعت کررہے تھے اور جو کچھ ان کے قلوب میں تھا وہ اللہ کو معلوم تھا سو اللہ نے ان پر اطمینان نازل فرمایا اور قریبی فتح عطا فرمائی۔
ان تمام تر آیات و دلائل سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ بیعت سنت ہے اور نہ صرف مردوں کے لیے بلکہ عورتوں کیلیے بھی، اور آنحضرت صلّی اللہ علیہ وسلم کے بعد خلفائے راشدین و ائمہ ہادین و مشائخ عظام نے اس سنت کو جاری و رائج رکھا اور خواتین کو باپردہ بیعت سے نوازتے رہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ بیعت سنت ہے اور اس کی تاکید بھی ہے۔
بیعت کا فائدہ: صاحب عوارف المعارف لکھتے ہیں کہ شیخ کے زیر حکم ہونا اللہ اور اس کے رسول کے زیر حکم ہونا ہے اور اس سنت کو وہی زندہ کرتا ہے جس نے اپنے جسم و روح کو شیخ کے حوالے کردیا اور اپنے ارادے سے نکل آیا اور اپنا اختیار چھوڑ کر شیخ میں فنا ہوگیا۔ غرضیکہ بیعت فلاح باطنی کے لیے ہے جس سے یہ مقصود ہوتا ہے کہ اپنے اندر کو خراب و پلید چیزوں سے پاک کرکے اسے روشن کیا جائے اور اپنے دل سے شرک خفی کو نکالا جائے۔ تو جب بھی کوئی مرید نیت صحیحہ و اخلاص کے ساتھ اپنے شیخ کامل کے ہاتھ پر بیعت کرتا ہے اور اس کی صحبت میں رہ کر تمام آداب کو بجا لاتا ہے تو شیخ کامل کی باطنی نظر سے روحانی فیوض و برکات اس مرید کے قلب و باطن میں سرایت کرجاتے ہیں اور مرید کا باطن روشن و منور ہوجاتا ہے۔ اس روحانی و باطنی انوار و تجلیات کا حصول شیخ کامل کی محبت و صحبت پر ہی منحصر ہے۔ یہ تب ہی ممکن ہے جب مرید شیخ کامل کی خدمت و صحبت میں حاضری کے وقت اپنے قلب و روح کو تمام تر توجہ کے ساتھ پیر کی طرف مرکوز رکھے تاکہ شیخ کامل کی پاکیزہ فطرت و وظائف باطنی کے تناسب سے مرید کے اندر بھی روحانی ربط و ضبط بڑھتا رہے اور وہ عروج حاصل کرتا ہوا خدا کا قرب حاصل کرلے۔ مگر سالک ہمیشہ یہ یاد رکھے کہ ان تمام منازل روحانی کا دارومدار شیخ کامل کی بیعت و صحبت میں ہی منحصر ہے۔
صحبت شیخ
جب یہ واضح ہوا کہ روح کی پاکیزگی و طہارت اور باطن کی ترقی اور خدائے عزوجل کے قرب کو حاصل کرنے کے لیے بیعت شیخ و صحبت شیخ ایک اہم ذریعہ ہے۔ اب ضروری یہ ہے کہ صحبت شیخ کی اہمیت و مقام کو پہچانا جائے تاکہ کامل طریقے سے مطلوبہ فوائد کو حاصل کیا جائے۔ سالک جب پیر کی صحبت میں حاضر ہو تو اپنے روح و قلب کو پیر کی طرف ہی متوجہ رکھے۔ کیونکہ پیر اپنی توجہ سے سالک کو فیض پہنچاتا ہے۔ اگر مرید باطنی طرح پیر کی طرف متوجہ نہ ہوگا تو اس کے حصے کا فیض کسی دوسرے مشتاق و متوجہ مرید کو حاصل ہوجائے گا کیونکہ مریدکی باطنی بے توجہی شیخ کامل کو اس کی طرف سے بے رغبت کردیتی ہے اور شیخ کامل مشتاق و متوجہ شخص کو اپنی توجہات سے نواز دیتا ہے۔ اس لیے صحبت میں بے توجہی سے بیٹھنا اپنے آپ کو محروم کردینا ہے۔
امام ربانی مجدد و منور الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ صحبت مرشد سے استفادہ حاصل کرنے کے بارے میں حکیم عبدالوہاب کو لکھتے ہیں کہ اولیاء کے پاس خالی ہوکر آنا چاہیے تاکہ بھرے ہوئے واپس جائیں، اور اپنی مفلسی کو ظاہر کرنا چاہیے تاکہ ان کو شفقت آئے اور مرید کے لیے فائدہ حاصل کرنے کا راستہ کھل جائے۔ سیر آنا اور سیر چلے جانا کچھ مزا نہیں دیتا، کیونکہ پرشکمی کا پھل بیماری کے سوا اور کچھ بھی نہیں۔ استغناء و بے پرواہی سے سوائے سرکشی کے اور کچھ بھی حاصل نہیں ہوتا۔
امام ربانی علیہ الرحمۃ کے اس مکتوب مبارک سے یہ واضح ہوتا ہے کہ پیر کی صحبت میں ہمیشہ اپنے باطن و قلب کی طرف مکمل دھیان رکھا جائے اور ان کی صفائی و درستگی کے لیے کوشاں رہا جائے۔ وہاں موجود دیگر سالکین، ذاکرین و شاغلین کی نگرانی نہ کرتا پھرے، اور اس کے علاوہ پیر کی صحبت میں یا اس کی درگاہ و خانقاہ میں کسی بھی ایسے فعل و قول سے دور رہے جس سے وہاں پر موجود کسی بھی شخص کو تکلیف یا ایذاء پہنچنے کا اندیشہ ہو۔ پیر کے سامنے کبھی بھی فضول اور لایعنی بات نہ کرنی چاہیے کیونکہ اکثر اوقات اس طرح کی باتوں سے شیخ کامل کے قلب میں کلفت یعنی ناراضگی پیدا ہونے کا خدشہ ہوتا ہے جو کہ مرید کی ترقی کے لیے نہایت نقصان دہ چیز ہے۔ اس کے علاوہ مرید کو یہ بات بھی سمجھنی چاہیے کہ صرف دور بیٹھے فون یا خط کے ذریعے پیر کو اپنے واقعات و حالات سے آگاہ رکھنا فائدہ مند نہیں، بلکہ صحبت شیخ میں حاضری ضروری و لازمی چیز ہے۔ صحبت شیخ کے بغیر مرید کو نفع بخش چیزیں حاصل نہیں ہوسکیں گی۔ اگر صحبت شیخ کے بغیر کوئی بھی مرید لاکھ اوراد و وظائف میں مصروف رہے تب بھی کچھ نفعہ حاصل نہیں کرسکتا۔ کیونکہ خدائے عزوجل کا طریقہ عطا یہ ہے کہ وہ نفعہ، انعام و فیض ہمیشہ وسیلے سے ہی جاری فرماتا ہے۔ اس لیے مرید کے لیے لازم ہے کہ نہ صرف صحبت میں آمدورفت کو ضروری سمجھے بلکہ اس میں کثرت کو لازم رکھے۔
حضرت خواجہ غریب نواز پیر مٹھا رحمت پوری رحمۃ اللہ علیہ اپنے مکتوبات مبارک میں تحریر فرماتے ہیں کہ صحبت شیخ میں اس قدر آمدورفت ہوکہ پیر کے وطن کو اپنا وطن اور گھر سمجھنے لگے۔ لیکن یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ اولیائے کاملین نے صحبت شیخ کے لیے محبت شیخ کو شرط اول قرار دیا ہے۔ حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ اپنے مکتوبات میں تحریر فرماتے ہیں کہ اگر الفت و محبت کے بغیر سالہا سال صحبت رہے تو بھی کوئی فائدہ برآمد نہ ہوگا۔ اس لیے مرید پر لازم ہے کہ فائدہ کے حصول کے لیے کامل محبت، مکمل توجہ اور یکسوئی کے ساتھ پیر کی صحبت میں حاضری دے۔ اسی طرح ہی مرید اس نظر کیمیا کا مستحق ہوسکے گا جو تمام عمر کے لیے سعادت بن جائے گی۔ اسی لیے ہمیشہ مشتاق بن کر محبت کی حق ادائیگی بجا لانی چاہیے تاکہ اس نظر کیمیا کا مستحق بن پائے۔
آداب شیخ
تصوف سراسر ادب کا نام ہے، بغیر ادب کے اس راہ میں کچھ نہیں ملتا جو سالک ادب سے محروم رہتا ہے وہ مقام قرب سے دور اور مقام قبولیت سے محروم کر دیا جاتا ہے۔
حضرت مجدد الف ثانیرحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں اے عزیز تو جان کہ طالب کو چاہیے کہ اپنے دل کے چہرے کو تمام اطراف سے موڑ کر اپنے پیرکی طرف متوجہ کرئے اور اپنے شیخ کی موجودگی میں اُس کی اجازت کے بغیر نوافل اور اذکار میں مشغول نہ ہو اور اُس کے غیر کی طرف توجہ نہ کرئے اور اپنے آپ کو کلیةً اُس کی طرف متوجہ کرکے بیٹھے یہاں تک کہ اُس کے حکم کے بغیر ذکر میں بھی مشغول نہ ہو اور فرض اور سنت نماز کے علاوہ کوئی نماز اُس کی مجلس میں ادا نہ کرئے۔موجودہ بادشاہ کے متعلق منقول ہے کہ اس کا ایک وزیر اس کے سامنے کھڑا تھا اتفاقاً وزیر کی توجہ اپنے کپڑوں کی طرف ہو گئی اور اُس نے اپنے کپڑے کے کسی بندکو اپنے ہاتھ سے درست کیا اس دوران بادشاہ کی نظر اُس پر پڑی، دیکھا کہ وزیر اس کی طرف متوجہ نہیں تو ڈانٹ کر کہا کہ میں اس بات کو برداشت نہیں کرسکتا کہ تو میرا وزیر ہو کر میرے سامنے اپنے کپڑے کے بند کی طرف توجہ کرئے۔غور کرنا چاہیے کہ جب کمینی دنیا کے وسائل کے لیے باریک آداب درکار ہیں تو جو چیزیں (مرشد)خدا تک پہنچنے کا وسیلہ ہیں اُن کے آداب کی رعایت تو بہت کامل طریقہ پر کرنی لازم ہوگی اور جہاں تک ممکن ہوایسی جگہ نہ کھڑا ہو کہ اس کا سایہ پیر کے کپڑوں پر یا پیر کے سائے پر پڑتا ہو اور پیر کی جائے نماز پر پاؤں نہ رکھے اور اس کے وضو خانہ میں وضونہ کرے اور اس کے خاص برتنوں کو اپنے استعمال میں نہ لائے اور اس کے سامنے پانی نہ پئے اور نہ کھانا کھائے اور نہ کسی سے بات کرے بلکہ کسی کی طرف بھی متوجہ نہ ہو اور پیرو مرشد کی عدم موجودگی میں اس طرف پاؤں نہ کرے۔
آداب مرشد بقلم حضور غوث اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ
مرید پر واجب ہے کہ ظاہرمیں شیخ کی مخالفت نہ کرے اور باطن میں اس پر اعتراض نہ کرے کیونکہ گناہ کرنے والا ظاہر میں ادب کا تارک ہوتا ہے اور دل سے اعتراض کرنے والا اپنی ہلاکت کے پیچھے پڑتا ہے بلکہ مرید کو چاہئے کہ شیخ کی حمایت میں ہمیشہ کے لئے نفس کا دشمن بن جائے ۔شیخ کی ظاہری اور باطنی طور پر مخالفت سے اپنے آپ کو روکے اور نفس کو جھڑک دے ۔اور قرآن پاک کی یہ آیت کثرت سے تلاوت کرے: اے ہمارے رب ہمین اور ہمارے ان بھائیوں کو بخش دے جو ایمان کے ساتھ ہم سے پہلے گذر گئے اور ہمارے دل میں ایمان والوں کے لئے کھوٹ نہ ڈال ۔اے ہمارے رب بے شک تو مہرباں رحم والا ہے۔
اگر شیخ سے کوئی ایسی بات ظاہر ہو جو شریعت میں ناپسند ہے اس سے نفرت نہ پیدا ہوا اگر اس میں کوئی عیب دیکھے تو پردہ پوشی کرے اور اپنے نفس کو تہمت لگائے ۔
اور شیخ کے لئے کوئی شرعی تاویل کرے اگر شرعی طور پع کوئی عذر نہ دیکھ سکتا ہو تو اس کے لئے بخشش طلب کرے اور توفیق، علم بیداری حفاظت حمیت وغیرت کی دعا مانگے لیکن مرشد کو معصوم نہ سمجھے (انسانوں میں صرف انبیائ کرام علیہم السلام معصوم ہیں ) اس بات کی کسی دوسرے کو اطلاع نہ دے ۔اور جب دوسرے دن یا کسی دوسرے وقت واپس آئے تو اس عقیدے کے ساتھ واپس آئے کہ وہ عیب اب زائل ہوچکا ہوگا اور شیخ اس سے گلے اگلے مرتبہ کی طرفر منتقل ہوچکا ہوگا ۔ اس پر ٹھہرا نہیں ہوگا۔ اور یہ بات اس سے غفلت اور دوحالتوں کے درمیان جدائی کے باعث واقع ہوئی ہے ۔ کیونکہ دو حالتوں کے درمیان کچھ فصل ہوتا ہے اور شرعی رخصتوں ،اباحتوں کی طرف رجوع نیز عزیمت اور سختی کو ترک کرنے کا حق ہوتا ہے ۔ جس طرح دو کمروں کے درمیاں دہلیز کا اور دو مکانوں کے درمیان ایک مکان ہوتا ہے ۔ یہ وہ مقام ہے جہاں پہلی حالت ختم ہوتی ہے اور دوسری حالت کی چوکھٹ پر کھڑا ہوتا ہے۔ (ابھی اندر داخل نہیں ہوتا ،
(ابھی اندر داخل نہیں ہوتا لہذا اس وقت کچھ کوتاہی ہو سکتی ہے)ایک ولایت سے دوسری کی طرف انتقال ہے ۔ایک ولایت کا لباس اتار کر دوسری ولایت لباس پہننا ہے جو اعلیٰ واشرف ہے کیونکہ ان لوگوں کو قرب الٰہی سے حصول میں روزانہ اضافہ حاصل ہوتا ہے ۔
اگر مبتدی سالک اپنے شیخ کو غضب ناک پائے ، اس کے چہرے پر ناگواری کے اثرات دیکھے یا کسی قسم کا اعراض محسوس کرے تو اس سے تعلق ختم نہ کرے بلکہ اپنے باطن کی کھوج لگائے ۔ شیخ کے حق میں جو بے ادبی یا کوتاہی ہوئی اگر اس کا تعلق امر خداواندی کو بجا نہ لانے اور منہیات شرع کے ارتکاب سے ہے تو اپنے رب عزوجل سے بخشش مانے ، توبہ کرے اور دوبارہ جرم نہ کرنے کا پختہ ارادہ کرے پھر شیخ کے ہاں عذر پیش کرے مستقبل میں مخالفت کرکے اس کی محبت اختیار کرے ہمیشہ ساتھ رہے اور اس کی موافقت کرے اور اسے اپنے اور اللہ تعالیٰ کے درمیان وسیلہ اور واسطہ بنائے۔
غنیۃ الطالبین صفحہ 718۔719
حضرت بایزید بسطامی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے مرید حضرت ابو الحسن خرقانی اُنھوں نے ساری زندگی اپنے مرشد پاک کے آستانہ کی طرف پیٹھ نہیں کی،بلکہ اُلٹے قدم واپس اپنے شہر جاتے تھے۔
منقول ہے کہ ایک روز حضرت مولانا وجیہہ الدین (حضرت محبو ب الہٰی کے خاص مرید و خلیفہ)حضرت سلطان المشائخ کی خدمت میں حاضر تھے واپس جانے لگے تو معلوم ہوا کہ ان کی جوتیاں کوئی چور لے گیا ہی۔حضرت محبوب الہٰی کو اس واقعہ کی اطلاع ہوئی حکم دیا کہ ہماری جوتیاں مولانا وجیہہ الدین کو دے دو۔خدام نعلین مبارک ان کے پاس لائے مولانا نے ان کو بوسہ دے کراپنے امامہ میں باندھ لیا اور ننگے پاؤں گھر کی طرف چل دئیے راستہ میں کسی شخص نے آپ سے کہا تم بھی بڑے عجیب آدمی ہو حضرت نے تم کو جوتیاں اس لیے دی تھیں کہ تم ننگے پاؤں گھر نہ جاؤاور تم نے ان کو سر پر باندھ لیا ۔مولانا نے جواب دیا میرے مخدوم کی جوتیاں میرے سر پر چاہئیں میری مجال نہیں ہے کہ میں ان پر پاؤں رکھوں
پہلی منزل ادب عشق دی بناں اَدب مراد نہ پاوے
بے اَدباں دی بستی اندر کدی ٹھنڈی ہوا نہ آوے
اَدب توں ودھ عبادت کیہڑی جیہڑی رب تیکر پہنچاوے
اعظم اوہدے بخت سوَلّے جنہوں ایہہ دولت مِلجاوے
شهاب الدين سهروردی رحمة الله عليه، عوارف المعارف : 562
پس مربی اور روحانی استاد کے سامنے سالک کا دستور اور طرز عمل ایسا ہونا چاہیے کہ وہ نہ بلند آواز میں گفتگو کرے نہ بہت زیادہ ہنسے، زبان کو خاموش رکھے، شیخ سے زیادہ سوالات نہ کرے، شیخ کی اتباع اپنے اوپر لازم کرے، کھانے پینے، سونے بلکہ ہر نیک کام کو جو شیخ و مربی سے صادر ہو درست سمجھے اگرچہ وہ بظاہر درست نظر نہ آئے۔ شیخ و مربی کی حرکات و سکنات پر نکتہ چینی اور اعتراض نہ کرے کیونکہ رائی برابر اعتراض بھی محرومی کے سوا کچھ نہیں دیتا جو بھی اور جہاں سے بھی کچھ فیض ملے اسے اپنے پیر کی طرف سے جانے، اپنے آپ کو مکمل طور پر اپنے شیخ کے سپرد کر دے۔ شیخ کی طر ف ہمہ وقت اپنی توجہ مرکوز رکھے۔ شیخ سے کبھی غلط بیانی نہ کرے کبھی خیانت کا برتاؤ نہ کرے جو کچھ اپنی ذات کے لئے محبوب جانتا ہے شیخ کے لئے بھی محبوب جانے۔ چلنے، بولنے، کھانے غرض ہر کام میں شیخ سے پہل نہ کرے کبھی اپنے شیخ کی طرف پاؤں پھیلا کر نہ بیٹھے، کبھی اپنی پشت نہ کرے۔ شیخ کی موجودگی میں دوسری عبادات میں مشغول نہ ہو بلکہ تصور شیخ میں گم رہے اور ان کی زیارت سے دل و نگاہ کو محظوظ کرے الغرض اپنی ہستی کو تلاش حق میں گم کر دینا ہی اصل سلوک ہے۔
بے اَدباں نئیں سار اَدب دی گئے ادباں تھیں وانجھے ہو
جیہڑے تھاں مٹی دے بھانڈے کدی نہ ہُندے کانجھے ہو
جیہڑے مڈھ قدیم دے کھیڑے آہے کدی نہ ہُندے رانجھے ہو
جیں دل حق حضور نہ منگیاحضرت باہو گئے دوہنہ جہانیں وانجھے ہو
حضرت خواجہ قطب الارشاد امام العلماء والصلحاء مولانا عبد المالک صدیقی صاحب قدس سرہ سے منقول ہی
مرشد کی ظاہری حیثیت،قومیت،حشمت اور پیشہ وغیرہ پر نظر نہ کرے اور مرشد کو حقیرنہ جانے بلکہ اس نعمت اور فیضان کو جواللہ تعالیٰ نے مرشد کو عطاکیا ہے اس پر نظررکھے اسے حق تعالیٰ کی معرفت کا وسیلہ سمجھے اور کمال صدق ویقین سے اس کی صحبت کا فیض اُٹھائے
شیخ کو اپنے حق میں سب سے ذیادہ انفع سمجھے اور اعتماد رکھے کہ میرا اصلاح باطن اورحصول معرفت کا مطلب اسی مرشد سے بآسانی حاصل ہوگا،ہرجائے نہ بنے اگر دوسری طرف توجہ کرے گا تو فیض وبرکات سے محروم ہوگا۔
ہر طرح سے مرشد کا مطیع وفرمانبرداررہے ،حسب اسطاعت جان ومال سے شیخ کی خدمت کریاور اس پر احسان نہ کرجتلائے بلکہ کااپنے اوپر احسان سمجھے کہ اس نے خدمت کو شرف قبولیت بخشا ہے۔
مرشد کے فرمان کو فورابجالائے ،جووردیاوظیفہ مرشد تعلیم کرے اسی کو اپنامعمول بنائے اس کے علاوہ تمام وظیفے ترک کر دے خواہ اپنی طرف سے شروع کےئے ہوں یاکسی دوسرے نے بتائے ہوں۔
مرشد کی موجودگی میں ہمہ تن اس کی طرف متوجہ رہے،شیخ کی صحبت میں بآدب ہو کر نہایت عاجزی اور خاموشی سے بیٹھارہے اس کے کلام قدسی کوغور سے سنتارہے ادھراُدھرنہ دیکھے اس کی اجازت کے بغیر کلام نہ کرے ،
مرشد کی نشت گاہ پر نہ بیٹھے اس کے مصلیٰ پر پاؤں بھی نہ رکھے،بلا اجازت اس کے سامنے کھانا نہ کھائے نہ پانی پئیے،شیخ کے سایہ پر قدم نہ رکھے اور حتی الامکان اسی جگہ کھڑا نہ ہو کہ اس کا سایہ مرشد کے سایہ پر نہ پڑے،مرشد کے آگے نہ چلے اور پیچھے چلنے میں شرم نہ کرے۔
اگر کوئی منصب یا مرتبہ عنایت ہو تو اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے قبول کرے دل میں کوئی دنیوی خیال نہ لائے۔
جو فیض باطنی اسے پہنچے اسے مرشد کاطفیل سمجھے اگرچہ کسی دوسرے بزرگ کو خواب یا مراقبہ میں دیکھے۔
مرشد کے قرابت داروں اور عزیزوں سے محبت رکھے اس کے دوستوں محبوبوں اور اپنے پیر بھائیوں اور طالبوں کی رعایت کرے۔
جو آادب شیخ کے سامنے بجا لاتا ہے وہی پیچھے بھی بجالائے تاکہ اخلاص نصیب ہو۔
ِ
حضرت پھولپوری رحمہ اللہ تعالیٰ اپنی کتاب ’’اصول تصوف‘‘ میں کامل شیخ کے مندرجہ ذیل آداب لکھتے ہیں۔
۔1
شیخ کے پاس مسواک کرکے صاف کپڑے پہن کر جائے۔
-2
ادب کے ساتھ پیش آئے۔
-3
نگاہِ حرمت وتعظیم سے اس پر نظر کرے۔
-4
جو بتلادے اس کو خوب توجہ سے سنے۔
-5
اس کوخوب یاد رکھے۔
-6
جو بات سمجھ میں نہ آئے اپنا قصور سمجھے۔
-7
اس کے روبرو کسی اور کا قولِ مخالف ذکر نہ کرے۔
-8
اگر کوئی پیر کو برا کہے حتی الوسع اس کا دفعیہ کرے، ورنہ وہاں سے اٹھ کھڑا ہو۔
-9
جب حلقہ کے قریب پہنچے، سب حاضرین کو سلام کرے، پھر پیر کو بالخصوص سلام کرے۔ لیکن وہ تقریر وغیرہ میں مشغول ہوں تو اس وقت سلام نہ کرے۔
-10
پیر کے روبرو بہت نہ ہنسے نہ بہت باتیں کرے۔ ادھر ادھر نہ دیکھے نہ کسی اور کی طرف متوجہ ہو، بالکل پیر کی طرف متوجہ رہے۔
-11
حالتِ بُعد وغَیبت میں اس کے حقوق کا خیال رکھے۔
-12
گاہ گاہ تحفہ تحائف خط وکتابت سے پیر کا دل خوش کرتا رہے۔
-13
یہ اعتقاد کرلے کہ میرا مطلب اسی مرشد سے حاصل ہوگا اور اگر دوسری طرف توجہ کرے گا تو مرشد کے فیض وبرکات سے محروم رہے گا۔
-14
ہر طرح مرشد کا مطیع ہو اور جان ومال سے اس کی خدمت کرے کیونکہ بغیر محبت پیر کے کچھ نہیں ہوتا اور محبت کی پہچان یہی ہے کہ مرشد جو کہے اس کو فوراً بجالائے اور بغیر اجازت اس کے خاص فعل کی اقتداء نہ کرے۔ کیونکہ بعض اوقات وہ اپنے حال اور مقام کے مناسب ایک کام کرتا ہے کہ مرید کے لئے اس کو کرنا زہر قاتل ہے۔
-15
جو درود وظیفہ مرشد تعلیم کرے اسی کو پڑھے باقی تمام وظیفہ چھوڑ دے، خواہ اس نے اپنی طرف سے انہیں پڑھنا شروع کیا ہو یا کسی دوسرے نے بتایا ہو۔
-16
مرشد کی موجودگی میں ہمہ تن اسی کی طرف متوجہ رہنا چاہئے۔ یہاں تک کہ سوائے فرض وسنت کے نماز نفل اور کوئی وظیفہ بغیر اس کی اجازت کے نہ پڑھے۔
-17
حتی الامکان ایسی جگہ نہ کھڑا ہو کہ اس کا سایہ مرشد کے پائوں یا اس کے کپڑے پر پڑے۔
-18
اس کے مصلے پر پاؤںنہ رکھے۔
-19
اس کی طہارت اور وضو کی جگہ طہارت یا وضو نہ کرے۔ ہاں اجازت کے بعد مضایقہ نہیں۔
-20
اس کے سامنے نہ کھانا کھائے نہ پانی پئیے اور نہ وضو کرے۔ ہاں اجازت کے بعد مضایقہ نہیں۔
-21
اس کے روبرو کسی سے بات نہ کرے۔ بلکہ کسی طرف متوجہ بھی نہ ہو۔
-22
جس جگہ مرشد بیٹھتا ہو، اس طرف پیر نہ پھیلاوے اگر چہ سامنے نہ ہو۔
-23
جو کچھ مرشد کہے یا کرے اس پر اعتراض نہ کرے کیونکہ جو کچھ وہ کرتا ہے یا کہتا ہے الہام سے کرتا اور کہتا ہے۔ اگر کوئی بات سمجھ نہ آوے تو حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت خضر علیہ السلام کا قصہ یاد کرے۔
-24
اپنے مرشد سے کرامت کی خواہش نہ کرے۔
-26
اگر کوئی شبہ دل میں گزرے فوراً عرض کرے اور اگر وہ شبہ حل نہ ہو تو اپنے فہم کا قصورسمجھے اور اگر مرشد اس کا کچھ جواب نہ دے تو جان لے کہ میں اس کے جواب کے لائق نہ تھا۔
-27
خواب میں جوکچھ دیکھے وہ مرشد سے عرض کرے اور اگر اس کی تعبیر ذہن میں آئے تو اسے بھی عرض کردے۔
-28
بے ضرورت اور بے اذن مرشد سے علیحدہ نہ ہو۔
-29
مرشد کی آواز پر اپنی آواز بلند نہ کرے اور بآوازِ بلند اس سے بات نہ کرے اور بقدرِ ضرورت مختصر کلام کرے اور نہایت توجہ سے جواب کا منتظرہے۔
-30
اور مرشد کے کلام کو دوسروں سے اس قدر بیان کرے جس قدر لوگ سمجھ سکیں اور جس بات کو یہ سمجھے کہ لوگ نہ سمجھ سکیں گے تو اسے بیان نہ کرے۔
-31
اور مرشد کے کلام کو رد نہ کرے، اگر چہ حق مرید ہی کی جانب ہو بلکہ یہ اعتقاد کرے کہ شیخ کی خطا میری صواب سے بہتر ہے۔
-32
اور کسی دوسرے کا سلام وپیام شیخ سے نہ کہے۔
-33
جو کچھ اس کا حال ہو، بھلا ہو یا برا اسے مرشد سے عرض کرے کیونکہ مرشد طبیب قلبی ہے اطلاع کے بعد اس کی اصلاح کرے گا۔ مرشد کے کشف پر اعتماد کرکے سکوت نہ کرے۔
-34
اس کے پاس بیٹھ کر وظیفہ میں مشغول نہ ہو۔ اگر کچھ پڑھنا ضروری ہو تواس کی نظر سے پوشیدہ بیٹھ کر پڑھے۔
-35
جو کچھ فیضِ باطن اسے پہنچے اسے مرشد کا طفیل سمجھے۔ اگر چہ خواب میں یا مراقبہ میں دیکھے کہ دوسرے بزرگ سے پہنچا ہے۔
یہ تمام آداب وحقوق شیخ کامل کے ہیں جس کی علامات کا اوپر ذکر ھوا ھے۔ اللہ کریم ھم سب بےشرع اور بے نمازی نام نھاد دین کے ڈاکووں سے بچایے جو پیری مریدی کے نام پر کاروبار چلارھےھیں اور طالبوں کو لوٹ رھے ھیں اور عام مسلمانوں کی دین کے اس مقدس شعبے سے بیزاری کا سبب بن رھے ھیں
گوشِ دل سے سن تو قولِ بو سعیدؔ
شیخ ہے اِس راہ کی اوّل کلید
یاد رکھ اس بات کو اے جانِ من
شیخ ہے داناے علمِ من لدن
شیخ سے گمراہ کرے جو آدمی
در حقیقت وہ ہے شیطانِ غوی
بارگاہِ مرشدی کو میری جان
ہر کمی اور نقص سے تو پاک جان
یہ ہے وادیِ مقدس اوّلیں
شرط ہے اس میں ارادت با لیقیں
بے ارادت شیخِ کامل سے کوئی
فیض پاسکتا نہیں ہر گز کبھی
بشنو اے غافل تو قولِ حق پرست
شیخ من خس، اعتقادِ من بس ست
شیخِ کامل کی توجہ کے بغیر
سالکانِ حق کی نا ممکن ہے سیر
شیخ ہے اپنے مریدوں میں یونہی
جس طرح سے اپنی امت میں نبی
در حقیقت وہ ہے مقبولِ خدا
جو دل و جاں سے ہو بندہ شیخ کا
شیخ کی صورت ہے ایسا آئینہ
جلوہ گر جس میں خدا و مصطفی
شیخ کی صحبت میں اک لمحہ سعیدؔ
جو بھی بیٹھے وہ ہو مثلِ بایزید
اے گرفتارِ مجاز اے بے حیا
چھوڑ کر بغض و حسد، کبر و ریا
جا کسی درویش کامل کے حضور
خاک پہ رکھ دے جبینِ پُر غرور
پوچھ پھر اُس مردِ دانا سے یہ راز
کس طرح ہوتی ہے مستوں کی نماز
جس میں غیر اﷲ کا خطرہ نہیں
جس میں اپنی ہستی کا پردہ نہیں
جس میں فاعل ہے تجلیِ خدا
بندہ کی صورت میں بے چون و چرا
جس میں بندہ آپ فانی ہوتا ہے
خود خداے پاک باقی ہوتا ہے