جی نہیں! ایسا ہر گز نہیں، اگرچہ کم علمی کی بنا پر عام لوگوں کے نزدیک تصوف کا مفہوم کچھ ایسا ہی ہے کہ یہ محض جنگلوں اور غاروں میں چلے جانے اور کاروبار دنیا سے جان چھڑا کر کسی گوشۂ تنہائی میں اللہ اللہ کرنے کا نام ہے گویا ان کی نظر میں تصوف تعطل اور جمود کی تعلیم دیتا ہے۔ بعض جاہل لوگوں کا یہ بھی خیال ہے کہ تصوف کسی سلسلہ خانقاہی سے منسلک ہو کر شریعت کی پابندی سے آزاد ہونے کا نام ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ تصوف نہ تو جمود و تعطل پر مبنی رہبانیت کی تعلیم دیتا ہے، نہ تصوف محض کسی سلسلہ طریقت سے منسلک ہو جانے اور بزرگوں کے عرس منانے تک موقوف ہے۔ تصوف کو غاروں اور جنگلوں میں ذکر و فکر تک محدود کر دینا اس فلسفہ روحانیت کی غلط خود ساختہ تعبیر ہے۔
دراصل تصوف کی حقیقت ایک ایسے ہمہ گیر تصور حیات پر مشتمل ہے جو اپنے مقاصد کے اعتبار سے انسانی زندگی کی معراج ہے۔ یہ تصور جب کسی کی ذات میں عملی طور پر ڈھل جائے تو اسے عروج و کمال سے ہمکنار کر دیتا ہے۔ خلوت نشینی، قلت طعام و کلام اور منام اگرچہ اس کے عناصر ہیں مگر یہ سب کچھ مقصود تصوف نہیں یہ منزل تک پہنچنے کے اسباب و ذرائع تو ہیں مگر اصل اور منزل نہیں، ان کی حیثیت اس سے زیادہ کچھ نہیں ہے کہ جیسے دوران سفر کئی مناظر فطرت مسافر کی توجہ اپنی طرف کھینچتے ہیں۔ اگر کوئی ان مناظر ہی کو سب کچھ سمجھ بیٹھے اور ان میں گم ہو کر اپنی اصل منزل کو بھول جائے تو یہ اس کی اپنی کوتاہی ہو گی اور حرماں نصیبی نہ کہ منزل مقصود اور نصب العین کی خرابی اس کا باعث ہو گی۔
تصوف اور اس کی تعلیمات کسی انسان کی زندگی کو ایسے روحانی اور اخلاقی انقلاب سے آشنا کر دیتی ہیں جو اسے حقیقی معنوں میں ایک متحرک، با عمل اور سچا مسلمان بنا کر اللہ کے محبوب بندوں میں شامل کر دیتی ہے۔ اگر تصوف اپنی صحيح روح اور طریق نبوت کے مطابق ہو اور بندۂ صوفی میں یقین و محبت کا سوز پیدا کر دے تو اس سے قوت عمل، جذبہ جہاد، عالی ہمتی، جفاکشی اور شوق شہادت پیدا ہوتا ہے۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب
خاکپائےنقشبندو اولیا۶