سلسلہ نقشبندیہ

سلسلہ نقشبندیہ

اہل السنۃ والجماعۃ کے تمام مسالک برحق ہیں۔ قادریہ، چشتیہ، سہروردیہ اور دوسرے طریقے، انکے مشائخ قابل قدر و قابل تعظیم ہیں۔ لیکن صوفیائے کرام کے دوسرے سلاسلِ طریقت سے طریقہ عالیہ نقشبندیہ کو کئی وجوہ سے فضیلت حاصل ہے۔

اول: اس سلسلہ کے سالارحضرت ابوبکرؒ صدیق رضی اللہ تعالی اوراسکی ابتدا میں ذکر قلبی ہے، جس میں جذب ربانی ہے۔ جبکہ ذکر زبانی میں سلوک ہے۔ جذب اور سلوک دو علیحدہ علیحدہ چیزیں ہیں۔ سلوک میں بندہ ذکر اذکار اور ریاضت و مجاہدہ کے ذریعے خدا تک پہنچنے کی کوشش کرتا ہے، جبکہ جذب میں جو کہ ذکر قلبی کے ذریعے پیدا ہوتا ہے، خدا خود بندہ کو اپنی طرف کھینچ لیتا ہے۔

مولانا عبدالرحمٰن جامی نقشبندی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

نقشبندیہ عجب قافلہ سالار انند

کہ برند از رہِ پنہاں بحرم قافلہ را

از دلِ سالک رہِ جاذبۂ صحبتِشاں

می برد وسوسۂ خلوت و فکر چلہ را

(حضرات نقشبند عجب قافلہ کے سالار ہیں کہ اپنے متعلقین کو پوشیدہ طریقہ سے بارگاہ الٰہی تک لیجاتے ہیں۔ انکی صحبت کی کشش سالک کے دل سے خلوت کے خیال اور چلہ کشی کے فکر کو ختم کردیتی ہے۔)

دوم: سلسلہ نقشبندیہ کی فضلیت کی دوسری وجہ یہ ہے کہ اس سلسلہ میں اتباع رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم پر سب سے زیادہ زور دیا جاتا ہے۔ اس طریقہ کی ترقی و کمال کا تمام تر انحصار اتباعِ سنت پر ہے اور قرآن پاک کے ارشاد کے مطابق محبوبیت الٰہی کے مقام پر فائز ہونے کا یہی ایک طریقہ ہے۔ قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللہ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللہ۝ اے محبوب صلّی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو بتائیں کہ اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری تابعداری کرو اللہ تمہیں اپنا دوست بنائے گا۔

سوم: سلسلہ نقشبندیہ کے اقرب طرق یعنی خدا تعالیٰ کی معرفت حاصل کرنے کا سب سے نزدیکی راستہ ہونے کی وجہ یہ بھی ہے کہ اس سلسلہ میں آنحضرت صلّی اللہ علیہ وسلم تک پہنچنے کا وسیلہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں جو کہ انبیاء علیہم السلام کے بعد تمام مخلوقات میں سب سے افضل ہیں۔ ظاہر ہے وسیلہ جس قدر قوی ہوگا راستہ اتنی ہی جلدی اور آسانی سے طے ہوگا۔

چہارم: جہاں پر دوسرے طریقوں کی انتہا ہوتی ہے وہاں سے اس طریقہ کی ابتدا ہوتی ہے۔ اس طرح یہ طریقہ وصول الیٰ اللہ کا قریب ترین راستہ ہے۔ حضرت امام ربانی مجدد منور الف ثانی نور اللہ مرقدہ فرماتے ہیں: ”مشائخ طریقہ نقشبندیہ قدس اللہ تعالیٰ اسرار ہم ابتدائے سیر از عالم امر اختیار کردہ اند۔۔۔ تا۔۔ مندرج گشت“۔

ترجمہ: سلسلہ عالیہ نقشبندیہ کے مشائخ نے سیر باطنی کی ابتدا عالم امر سے اختیار کی ہے، عالم خلق کو اسی کے ضمن میں طے کرلیتے ہیں۔ برخلاف دوسرے طریقوں کے مشائخ کے کہ وہ سیرکی ابتدا عالم خلق سے کرتے ہیں اور وہ عالم خلق طے کرلینے کے بعد ہی عالم امر میں قدم رکھتے اور مقام جذبہ میں پہنچتے ہیں۔ یہی و جہ ہے کہ طریقہ نقشبندیہ تمام طریقوں سے اقرب ہے اور یقینی طور پر دوسروں کی انتہا اسکی ابتدا میں ہے۔

اسی موضوع پر حضرت خواجہ احمد سعید فاروقی قدس سرہٗ لکھتے ہیں ”اس زمانہ میں اللہ تعالیٰ سے لو لگانے کی کمی ہوگئی ہے، اس لیے صوفیائے نقشبند ایسے طالب کو پہلے ذکر قلبی کا طریقہ سکھاتے ہیں اور بجائے ریاضات و مجاہدات شاقہ کے عبادات کا حکم فرماتے ہیں اور تمام حالات میں اعتدال قائم رکھتے ہیں اور ان نقشبندی صوفیائے کرام کی توجہات دوسروں کی کئی چلہ کش توجہات سے بہتر اور اعلیٰ ہوتی ہیں اور طالبوں کو سنت رسول صلّی اللہ علیہ وسلم کی اتباع اور بدعۃ سے اجتناب کا حکم فرماتے ہیں اور جہاں تک ممکن ہوتا ہے ان کے حق میں رخصت پر عمل تجویز نہیں فرماتے۔ اسی لیے ان بزرگوں نے ذکر خفی کو اپنا طریقہ اختیار فرمایا۔

طریقہ کی خصو صیات

ذکرِ خفی:

سلسلہ عالیہ نقشبندیہ بنیادی خصوصیت وہ ذکرِلطائف ہے جو طالببینِ حق کو اپنے شیخ کامل سے ملتا ہے۔ انسان کے وجود میں موجود سات مقامات ہیں کہ جن کو عالم امر سے روحانی نسبت ہے۔ سلسلہ عالیہ نقشبندیہ میں بیعت ہونے والے طالبین کا قلب اپنے شیخ کامل کی توجہ سے ذاکر ہوجاتا ہے۔ اسم ذات کا یہ ذکر ہی طالبین میں محبت شیخ اور سنت ِ رسول ﷺ پر دوام بخشتا ہے۔ یہ وہی طریقہ ہے کہ جو صحابہ کرام ؓ اور نبی کریم ﷺ کی صحبت مبارکہ کا طریقہ تھا۔

محبت شیخ

∗ طریقہ عالیہ نقشبندیہ کی امتیازی خصوصیات میں پہلا زینہ متابعت رسول ؐ اور دوسرازینہ محبت شیخ ہے ۔ محبت شیخ کے بغیر کچھ حاصل نہیں ہوتا ۔ طریقہ نقشبندیہ کا دارومدار دو اصولوں پر ہے ۔ پہلا سنت رسول ؐ پر اس حد تک استقامت کر نا کہ اُ سکے چھوٹےاور معمولی آداب بھی ترک نہ ہونے پائیں ۔ اور دوسرا شیخ طریقت کی محبت اور خلوص میں اس قدر راسخ اور ثابت قدم ہو کہ اُ س پر کسی قسم کے اعتراض اورانگشت نمائی کا خیال بھی دل میں نہ لا سکے بلکہ اُ س کی تمام حرکات و سکنات مرید کی نظر میں محبوب دکھائی دیں ۔ اس لئے اگر اللہ تعالیٰ کی مہر بانی اور فضل و کرم سے یہ دو اصول درست ہو گئے تو دنیا وآخر ت میں سعادت اُس کا مقدر ہے۔

صحبت شیخ

صحبت شیخ بھی محبت شیخ کے ضمن میں آتی ہے۔ جس قدر صحبت شیخ زیادہ ہو گی اسی قدر محبت شیخ میں اضافہ ہو گا ۔اسی لئے مشائخ نقشبندیہ نے صحبت شیخ زیادہ سے زیادہ اختیا ر کر نے کی تا کید فرما ئی ہے۔تاکہ طالب شیخ کی مجلس میں رہ کر فیض و برکت حاصل کر ے ۔ حضر ت امام ربانی محبو ب سبحانی مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا ہے کہ اس طریقہ یعنی سلسلہ نقشبندیہ میں افادہ و استفادہ کا دارومدار صحبت شیخ پر ہے۔ خواجہ نقشبندقد س سرہ‘ نے فرما یا ہےکہ ہمارا طریقہ شیخ طریقت کی محبت پر ہے ۔ اور صحبت کی بہت ہی فضیلت ہے ۔ ہر کہ خوا ہدہم نشینی با خدا او نشیند در حضور اولیاء اصحاب کرام رضوان اللہ اجمعین خیر البشر ؐ کی صحبت کی وجہ سے ہی اولیا ء امت سے افضل ہیں بڑے سے بڑا ولی اللہ بھی صحابی کے درجے سے کم تر ہے ۔ کوئی ولی اﷲ صحابی کےدرجہ کو ہر گز نہیں پہنچ سکتا خوا ہ وہ اویسِ قرنی رحمۃ اللہ علیہ ہی کیوں نہ ہوں۔

رابطہ شیخ

∗ہروقت ہر جگہ قلب میں تصور شیخ کے ذریعے شیخ طریقت سے اپنا رابطہ قائم رکھے ۔کیونکہ بعض اوقات بدنی صحبت میسرنہیں ہو تی تو تصور شیخ سے بھی رابطہ قائم کیا جا سکتا ہے۔رابطہ شیخ وہ کیمیاء اثر نسخہ ہے کہ جس کے ذریعے فنا فی الشیخ اور فنا فی الرسولؐ کے بعد فنا فی اﷲ جیسے اعلیٰ مقامات تک رسائی ہو سکتی ہے ۔اور اس سے قربِ الی اﷲ کی منا زل جلد اور سہل طریقے سے طے ہو جا تی ہیں ۔ مر شد کو وسیلہ ٔہدایت جانے اور اُ س کی خیالی صورت بطریق محبت و تعظیم سامنے رکھے ۔جو لوگ شیخ کے ساتھ دل نہیں لگاتے ۔ وہ فیض اور ترقی سے محروم رہتے ہیں ۔ مختلف صوفیائے کرام کے مختلف نظریات ہیں لیکن اکثر صو فیا ئےعظام اس بات پر مشترک و متفق ہیں کہ وحی اور الہام ہی علم کا ماخذ و منبع ہے ۔ صوفیائے کرام تزکیۂ نفس پر زور دیتے ہیں۔ جو عبادات ، مراقبہ، مجاہدہ، عشق اور ترک ِماسوا کے واسطے سے ممکن ہے ۔ کیو نکہ عبادت ریاضت اور مجاہدے سے انسان کی طبیعت ضبطِ نفس کو پالیتی ہے ۔اور جب سالک اس قوت پر حاوی ہو جائے تو دیگر مخالف قوتیں مسخر ہو جا تی ہیں۔ جس کی وجہ سے خواہشاتِ نفسانی قا بو میں رہتی ہیں ۔ حضرت بہاؤالدین نقشبند ؒ فرماتے ہیں۔ ’’جس قدر نفوس ہیں ۔اسی قدر خدا سے ملنے کی راہیں ہیں ۔ ہر نفس اپنی حقیقت سے ملنے کا راستہ رکھتا ہے۔ لیکن دینِ کبریٰ نے بالاتفاق تین راہوں کو اخذ کیا ہے۔ یہ تین راستے سب راستوں سے افضل ہیں ۔ اور انہی راستوں پر چلنے سے لاکھوں ولی اللہ بن گئے۔اور ان کی تصدیق تواتر سے حق الیقین تک پہنچتی ہے یہ راستے بیشک سب راستوں سے افضل ہیں وہ یہ ہیں ۔ (۱)۔ ذکر (۲)۔ فکر (۳)۔ رابطہ شیخ خواجہ معصوم ؒ کا فرمان ہے ’’ذکر رابطہ کے بغیر خدا تک نہیں پہنچاتاالبتہ رابطہ بغیر ذکر کے خدا تک پہنچا دیتا ہے‘‘۔ پس رابطہ شیخ انتہائی عمدہ اور مفید چیز ہے جس کی بنا پر طالب بوجہ اتصالِ روحانی و پرتو ِ کمال باطنی اپنے شیخ سے ایسا کمال حاصل کر لیتا ہے۔ کہ جیسے مہر کی نقل کاغذ پر جلوہ گر ہوتی ہے۔

اصول نقشبندیہ

حضرات نقشبندیہ رحمھم اللہ علیہم نے اپنے طریقہ کی بنیاد گیارہ اصولوں پر پر رکھی ھیں ۔

آٹھ کلمات خواجہ خواجگان حضرت عبدالخالق غجد وانی رحمۃ اللہ علیہ سے

۔۱ ۔ ہو ش در دم ۔ ۲۔ نظر بر قدم ۔ ۳۔ سفر در وطن ۔ ۴۔ خلوت درا نجمن ۔ ۵۔ یاد کر د ۔ ۶۔ باز گشت ۔ ۷۔ نگہداشت ۔۸۔ یاداشت

تین کلمات بانئ سلسلہ نقشبندیہ حضرت خواجہ بہاؤ الدین نقشبندی بخاری رحمۃ اللہ علیہ سے مروی ہیں

۔۱ ۔ وقوف زمانی ۲۔ وقوف قلبی۳۔ وقوف عددی

ہو ش در دم

∗یہ اصل میں پا س انفاس ہی ہے ۔ یہ کہ سالک کا ہر سانس حضورو آگاہی یعنی ہر دم ہو ش میں ہو ۔ تاکہ کوئی سانس غفلت و معصیت میں نہ گزرے ۔ اور ہر وقت سانس کی حفاظت کر ے تاکہ رابطہ ٹو ٹنے نہ پائے اور وابستگی قائم رہے ۔ حدیث شریف میں ہے ۔کہ ہو شیار وہ شخص ہے کہ جس نے اپنے نفس کو ڈرایا۔ حضرت خواجہ نقشبند بخاری رحمتہ اللہ علیہ نے فرما یا ہے کہ کسی سانس کو ضائع نہ ہو نے دیں ۔ یعنی سانس کے دخول و خروج اور خروج و دخول کے درمیان محا فظت درکار ہے ۔ کہ کوئی غفلت میں نہ گزرے ۔ اگر غفلت محسوس کرے تو استغفارکرے ۔ اورآئندہ غفلت ترک کر نے کا ارادہ کر ے ۔ کیونکہ اسی غفلت کے سبب انسان معا صی کا مرتکب ہو تا ہے ۔ ہو ش دردم تفرقہ اندرونی کیلئے ہے ۔

نظربر قدم

∗یعنی اپنی نگاہ اپنے پاؤں کی طرف رکھنا۔ کیونکہ نیچی نظر رکھنا سنت رسول ؐ ہے ۔ تاکہ نظر کی محافظت ہو سکے ۔ اور کوئی بصری آلائش یا نقش و نگار پردہ و درحسن و جما ل خوبرویاں دل کو پرا گندہ نہ کر سکیں ۔ اس لئے سالک کو راہ چلتے ادھر اُدھر نہ دیکھنا چاہئے ۔ کیو نکہ نظر کی آلو دگی ایک ایسا زہر آلودہ تیر ہے ۔جس سے شکار اور شکاری دونوں ہلاک ہو جا تے ہیں ۔ اور یہ ہلاکت نقص ایمان ہے ۔ رسوائی و تباہی دارین ہے ۔ رنگ برنگ اشیاء دیکھنے سے خیالا ت صالحہ منتشر ہو جا تے ہیں ۔ اور سالک کا مطلو ب سے بر گشتہ ہو کر اپنی منزل سے بھٹک جانے کا اندیشہ ہے ۔ دیگر اس سے مرا دیہ ہے ۔ کہ سالک کا قدم باطن اس کی نظر باطن سے پیچھے نہ رہے۔ سالک اپنی برائی اور نیکی کے قدم کودیکھے اگر برا ئی میں قدم دیکھے تو پیچھے ہٹائے اور نیکی کے قدم کو مزیدآگے بڑھائے۔ وقت رفتن برقدم با ید نظر ہست سنت حضرت خیر ا لبشر اندریں حکمت بس است و بے شمار دیدہ خواہد طالب حق آشکار حضر ت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ فرما تے ہیں ۔ کہ نظر کو نیچے رکھنا یہ مبتدی کے لئے ہے ۔ منتہی پر تو واجب ہے ۔ کہ اپنے حال میں تامل کرے ۔ کہ و ہ کس نبی کے قدم پر ہے ۔ کہ بعض اولیاء سید المر سلین خاتم النبین ؐکے قدم پرہوتے ہیں۔ اور اُن کوپوری جا معیت ِکمالات حاصل ہو تی ہے ۔ اور بعض حضرت مو سیٰ علیہ السلام کے قدم پر ہو تے ہیں ۔ جب منتہی اپنے پیشوا کو پہچان لے تو چاہئے ۔ کہ اُس کے اپنے حالات اور واقعات اپنے پیشوا کے ساتھ مناسبت رکھتے ہوں ۔ دیگر حضور ؐکے قدم یعنی اسوہ و سنت پر ہر دم نگاہ رکھے کہ میری زندگی حضور ؐ کے قدم یا اسوہ سے ہٹ تو نہیں رہی ۔

سفر در وطن

∗سفر در وطن کے معنی ہیں ۔ اپنے باطن میں سفر کر نا ۔اس سے مراد یہ ہے ۔ کہ انسان کی اصل تخلیق ملکی ہے ۔ جو اس جسد بشری سے پہلے واقع ہو ئی تھی ۔ جب روحی وملکی تخلیق کے بعد ما دی و بشری تخلیق میں روح نے نزول کیا تو وہ روح بھی صفا ت ذمیمہ کا شکار ہو گئی۔ اب اصل وطن کی طرف رجو ع کر نے سے مراد یہ ہے۔ کہ اپنے اند ران صفات حسنہ کو تلا ش کر ے جن کی استعداد اس کے اندر رکھ دی گئی ہے ۔ اور جو اس کی روح کی پہلی کا ئنا ت ہے ۔لہٰذا آدمی صفا ت بشریہ کو چھوڑ کر صفا ت ملکیہ حاصل کرے یعنی طلب جاہ ،بغض، حسد، کینہ کو دل سے نکال با ہر پھینکے اور اپنے دل کو اُن سے بالکل پاک کر دے دوسرے لفظوں میں صفات ذمیمہ سے صفات حمیدہ کی طرف انتقال کرنا ہے ۔کیونکہ جب تک رذائل دل میں بھر ے ہو نگے ۔ تو خدا کا دل میں دخول کیونکر ممکن ہو گا۔ اگر حُبِ خلق کا غلبہ محسوس کرے ۔ تو لاالہ سے نفی ٔمحبت خلق اور الا اللہ سے اللہ کی محبت اس کی جگہ ثبت کرے ۔ چنانچہ اول المؤ منین حضر ت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ‘فرماتے ہیں ۔جس نے اللہ سے محبت کا مزا چکھا تو اُ س نے اس کو طلب دنیا سے باز رکھا۔ خواجگان نقشبندرحم اللہ اجمعین سفر ظاہری اتنا ہی کر تے ہیں کہ پیر کامل تک پہنچ سکیں ۔ دوسری حرکت جا ئز نہیں رکھتے ۔ اور شیخ سے دوری ہر گز نہیں چاہتے بلکہ آگاہی کے حصول کیلئے نہایت کو شاں رہتے ہیں۔ یہ سیر آفاقی کوسیرانفسی سے طے کر تے ہیں ۔ با قی سلاسل میں سلو ک سیر آفاقی سے شروع ہو تا ہے ۔ سیرانفسی سےابتداء کرنا سلسلہ نقشبندیہ کاخاصہ ہے ۔ اندراج نہایت درہد ایت کے یہی معنی ہیں۔

خلوت در انجمن

∗خلو ت در انجمن کا مطلب یہ ہے ۔ کہ دل سے خدا کے ساتھ مشغول رہے ۔ اور اپنے تمام مشاغل روز مرہ از قسم طعام و قیام اکل و شرب ۔ نشست و بر خا ست ، معاملات فہم وادراک و غیرہ پر اللہ جل شانہ‘ کے ساتھ تعلق کو قائم رکھے ۔ اس کے لئے طہار ت کوئی شر ط نہیں ہے بلکہ رو ز مرہ زندگی میں اللہ تعالیٰ سے اس قدر قربت عین اسلام ہے ۔ اور یہ طلب دنیا کے ضمن میں بھی نہیں ہے۔ تمدنی و معا شرتی زندگی میں جہاں قدم قدم پر معصیت و گمراہی منہ کھولے خلق خدا کو ہڑپ کر رہی ہے۔ فقط اسی طریقہ سے اپنے آپ کو بچایا جا سکتا ہے ۔ چونکہ اسلام ایک دین ہے ۔ ایک نظام زندگی ہے ۔ اس لئے اس میں زندگی کے ہر پہلو سے متعلق ضابطے مو جو د ہیں خلوت درانجمن ہمارے لئے سلسلہ نقشبندیہ نے وہ اصول وضع کر کے دیا ہے ۔ جس پر عمل کر کے ہم تہذیب و تمدن معاشرت ، ثقافت ،اقتصادےات معا شیا ت ، معا ملات غر ضیکہ زندگی کےہمہ گو شوں کو اسلام کے عین مطابق قائم کر کے صحیح اسلامی معا شرت قائم کر سکتے ہیں ۔ ع: دل بہ یار دست بکار خلوت در انجمن سے مرا د یہ بھی ہے کہ پوری کا ئنا ت تو مو جو د ہے ۔ لیکن دل میں ما سوائے اللہ کسی کا خیال تک نہ ہو ۔ ؎ بندگاں باید کہ در وقت سخن قلب با حق قالبے در انجمن ایک بزرگ فرماتے ہیں کہ میں نہ تو عالموں والا لباس پہنتا ہوں۔ اور نہ درویشوں والا تاکہ لو گ مجھے در ویش اورعالم نہ سمجھیں ۔ بلکہ عام لو گوں کا لبا س پہنتا ہوں ۔ تاکہ پہچانا نہ جائوں ۔ صحابہ کبار کا بھی یہی طریقہ کار تھا ۔ کہ عام لو گوں کی طرح رہتے تھے ۔ اور اپنی کوئی خصو صی حیثیت اور شان خود ظاہر نہ فر ما تے تھے ۔ یہی طریقہ خو اجگان نقشبندکا بھی ہے ۔ حضرت خو اجہ احرا ر رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے۔ کہ ذکر میں جہد و اہتما م بلیغ کے ساتھ مشغول ہو نے سے سالک کو پا نچ روز میں یہ دولت اور سعادت نصیب ہو سکتی ہے ۔ خو اجہ خوا جگان حضرت شاہ نقشبند بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک خلوت در انجمن ظاہر میں خلق کےساتھ اوربا طن میں حق کے ساتھ ہو نا ہے ۔

یاد کر د

∗یاد کردذکر اورگیان کے ہم معنی ہے۔ مرادیہ ہے کہ اپنے شیخ سے سیکھے ہوئے ذکر بر وقت ادا کرنا ہے ذکر اس کثر ت سے کر ے کہ اللہ جل شانہ‘ کی حضوری حاصل ہو جائے ۔ امام طریقت حضرت شاہ نقشبند رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ذکر سے مقصود یہ ہے ۔ کہ ہمیشہ حضرت حق کے ساتھ حاضر رہے ۔ ذکر غفلت سے باز رکھتا ہے ۔ اسی لئے ابتدائی طور پر ذکر اثبات و نفی یا مجرد ذکر کی تلقین کی جا تی ہے ۔نیز ذکر سے مراد کتاب اللہ و سنت رسول اللہ کی تعلیمات کے علاوہ صفات الٰہیہ کو اپنے معا نی کے ساتھذہن نشین کر نا ہے ۔

باز گشت

∗یعنی رجو ع کر نایا پھر نا اس سے مرا د یہ ہے ۔ کہ تھوڑے تھوڑے ذکر کے بعد تین بار یا پانچ بار مناجات کی طرف رجو ع کر ے حضرت شاہ نقشبند قدس سرہ ‘کی یہ دعا تھی ۔ الٰہی مقصود من توئی و رضائے تو محبت مغفرت خود بدہ ” اے اللہ میرا مقصو د تو ہی ہے ۔ اوراپنی خو شنودی اپنی محبت اور مغفرت عطا کر۔ حق یہ ہے کہ ذکر اور فکر کے درمیان اگر کچھ غیب سے نظر آئے ۔ تو اُ س پر سالک کو مغرور نہ ہو نا چاہئے ۔ اور اُسے مطلو ب ہی نہ سمجھ لے ۔ کیو نکہ ذات الٰہی تو کجا صفات الٰہی میں سے ایک صفت میں اگر سالک لاکھوں سال گزار دے تو سیر ختم نہ ہو ۔ حضرت شاہ نقشبند قدس سرہ‘ فرماتے ہیں کہ ہر چہ دیدہ شد و دانستہ شد ۔ آں ہمہ غیر است بحقیقت کلمہ لا نفی آں باید کرد ۔ یعنی جو کچھ دیکھا سنا جائے اور جانا جائے وہ سب غیر خدا ہے کلمہ طیبہ کی لا سے سب کی نفی کرنی چاہئے ۔

نگہداشت

∗اس سے یہ مطلب ہے کہ ذاکر اپنے قلب کے خطرات اور احادیث نفس نگا ہ میں رکھے ۔ اور کمال ہو شمندی سے رہے۔اور جو وساوس و خیالات غیر خدا دل میں آئیں ۔ اُن کا ابتد ا ہی سے تدارک کر ے ۔ اور ظہور طبیعت کااس طرف مائل ہو نے کا خطرہ ہے ۔ پھر نجات بھی مشکل ہے حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ خطرہ کو ایک ساعت بھی دل میں نہ رکھنا چاہئے ۔بزرگوں کے نزدیک یہ بہت اہم ہے ۔ اولیاء کاملین کو یہ د ولت طویل عرصہ تک حاصل رہتی ہے ۔

یاداشت

∗یاداشت فکر اور دھیان کے ہم معنی ہے ۔ اور اس سے مراد دوام آگاہی بحق سبحانہ‘وتعالیٰ ہے۔ دل میںیہ سوال پیدا ہو سکتا ہے ۔ کہ یاد کرو نگہداشت اور یاداشت میں کیا فرق ہے ۔ نگہداشت میں طالب اپنی کو شش سے اللہ تعالیٰ کی طرف مشغول رہتا ہے ۔ لیکن یا داشت میں بلا کو شش اور خود بخود اللہ تعالیٰ کی طر ف مشغول ومخاطب ہو تا ہے ۔ اوریہ مقام منتہی ان ولایت کو حاصل ہو تا ہے ۔یاداشت حاصل شود بعد از فنا بلکہ حاصل می شود بعد از بقا بعد ازیں غافل نہ باشد یک زباں خواہ باشد فرح و غم سود وزیاں در جماعت اولیاء داخل شودجملہ طُرق اُ و واصل شود اس کے بعد اب تین اصطلاحات جو امام طریقت حضرت شاہ نقشبند بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی طرف سے ہیں اُن کا بیان کیاجا تا ہے ۔

وقوف زمانی

∗وقوف زمانی اور ہو ش دردم تقریباً ہم معنی ہیں ۔ فرق صرف اتنا ہے۔ کہ ہو ش دردم مبتدی کے واسطے ہے ۔ ہر لحظہ اور ہر لمحہ احتیاط ہے ۔اور وقوف زمانی متو سط کیلئے مناسب ہے ۔ کہ کچھ کچھ دیر بعد تامل کرے اور وقوف زمانی سے محاسبہ بھی کیا جا تا ہے۔ کہ نفس کس سمت کو جا رہا ہے ۔

وقوف عددی

∗ وقوف عددی سے مراد سالک کا اثنائے ذکر سے واقف رہنا ہے ۔ اور جب ذکر حق کرے تو طاق عدد پر کرے ۔ نہ کہ جفت عد د پر۔ کیونکہﷲ وترویحب الوتر۔ لیکن ذکر عدد ی کے ساتھ ذکر قلبی بھی ضروری ہے ۔

وقوف قلبی

∗وقوف قلبی سے مرادیہ ہے کہ سالک ہر وقت ہر لحظہ اپنے قلب کی طرف متو جہ رہے ۔ اور قلب خدا کی طر ف متوجہ رہے ۔ تاکہ سب طرف سے تو جہ ٹو ٹ کر معبو د حقیقی کی طر ف ہو جائے ۔ اور وساوس و خطرات دل میں داخل ہی نہ ہونے پائیں ۔ خصو صاًجلسہ ذکر کے دوران اُس کا پورا خیال رکھے ۔ یہاں زندگی کو پیش آنے والے مختلف مراحل میں خدا کے پسندیدہ و نا پسندیدہ کام کا سوال بھی سامنے آتا ہے ۔ گو یا ہر پیش آنے والے امر پر یہ فیصلہ کرے کہ یہ کام خدا کو نا پسند ہے۔ اس لئے مجھے اس کا ترک کر نا ضروری ہے ۔ اور اس میں خدا کی پسندید ہ صور ت یہ ہے جس پر کار بند ہونا میر ے لئے لازمی ہے بس اسی کانام وقوف قلبی ہے ۔ وقوف قلبی شاہ نقشبند بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک بہت ضروری ہے اور یہ رکن عظیم ہے ۔ طریقہ سلسلہ نقشبند یہ کا دارومدار اسی پر ہے۔

 اسباق نقشبندیہ 

شیخ المشائخ حضرت خواجہ احمد سعید قدس سرہ اربع انہار میں قیوم ربانی حضرت مجدد الف ثانی نوّر اللہ مرقدہ کے حوالہ سے تحریر فرماتے ہیں۔

لطائف عشرہ

انسان دس لطائف سے مرکب ہے جن میں سے پانچ کا تعلق عالم امر سے ہے اور پانچ کا تعلق عالمِ خلق سے ہے۔

لطائف عالم امر یہ ہیں۔ ۱۔ قلب۲۔ روح ۳۔ سر ۴۔ خفی ۵۔ اخفیٰ

لطائف عالمِ خلق یہ ہیں ۱۔ لطیفۂ نفس اور لطائف عناصر اربعہ یعنی ۲۔ آگ ۳۔ پانی ۴۔ مٹی ۵۔ ہوا۔

لطائف عالم امر کے اصول (مرکز) عرش عظیم پر ہیں اور لامکانیت سے تعلق رکھتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرتِ کاملہ سے ان جواہر مجردہ کو انسانی جسم کی چند جگہوں پر امانت رکھا ہے۔

دنیوی تعلقات اور نفسانی خواہشات کی وجہ سے یہ لطائف اپنے اصول کو بھول جاتے ہیں، یہاں تک کہ شیخ کامل و مکمل کی توجہ سے یہ اپنے اصول سے آگاہ و خبردار ہوجاتے ہیں اور انکی طرف میلان کرتے ہیں۔ اس وقت کشش الٰہی اور قرب ظاہر ہوتا ہے یہاں تک کہ وہ اپنی اصل تک پہنچ جاتے ہیں۔ پھر اصل کی اصل تک، یہاں تک کہ اس خالص ذات یعنی اللہ تبارک و تعالیٰ تک پہنچ جاتے ہیں جو صفات و حالات سے پاک و مبرّا ہے۔ اس وقت ان سالکین کو کامل فنائیت اور اکمل بقا حاصل ہوجاتی ہے۔

اصلاح لطائف

مشائخ سلسلہ عالیہ نقشبندیہ قدس اللہ اسرارہم کے یہاں باطن کی صفائی کے لئے سب سے پہلے لطائف عالمِ امر کی اصلاح کا معمول ہے اور اس کے لئے ان حضرات نے تین طریقے مقرر فرمائے ہیں:

طریق اول: ذکر

طریقِ دوم: مراقبہ

طریقِ سوم: رابطہ شیخ

سالکِ طریقت جس قدر ان امور کا زیادہ اہتمام کریگا اسی قدر سلوکِ طریقت میں اسے ترقی حاصل ہوگی اور جس قدر ان امور میں کوتاہی کریگا اسی قدر باطنی راستہ طے کرنے میں اسے تاخیر ہوگی۔

طریق اول: ذکر

ذکر کے دو قسم ہیں۔ اول ذکر اسم ذات۔ دوم ذکر نفی و اثبات۔ ذکر اسم ذات کے اسباق یہ ہیں:

سبق اول: ذکر لطیفۂ قلب

وضاحت: دل انسان کے جسم میں بائیں پستان کے نیچے دو انگشت کے فاصلہ پر قدرے پہلو کی جانب واقع ہے، (اس لئے ہمارے مشائخ تلقین ذکر کے وقت اس مقام پر انگشت شہادت رکھ کر تین مرتبہ اسم ذات اللہ، اللہ، اللہ، کہتے ہوئے سالک کے دل پر خصوصی توجہ فرماتے ہیں) ذکر کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ سالک اپنے دل کو دنیوی خیالات و فکرات سے خالی کرکے ہر وقت یہ خیال کرے کہ دل اسم مبارک اللہ، اللہ کہہ رہا ہے۔ زبان سے کچھ کہنے کی ضرورت نہیں بلکہ زبان تالو سے چسپاں رہے اور سانس حسب معمول آتا جاتا رہے، بس اس طرح اپنے خالق و مالک کی طرف دل کا توجہ ہونا چاہئے، جس طرح ایک پیاسا آدمی زبان سے تو پانی پانی نہیں کہتا لیکن اسکا دل پانی کی طرف متوجہ ہوتا ہے۔

بیشک دنیا کے کام کاج کرتے رہیں اس سے کوئی منع نہیں، لیکن دست بکار و دل بیار کے مصداق دل کا توجہ اور خیال ہر وقت اپنے خالق و مالک کی طرف رہے۔ یوں سمجھے کہ فیضان الٰہی کا نور حضور نبی کریم صلّی اللہ علیہ وسلم کے سینہ اطہر سے ہوتا ہوا پیرومرشدکے سینہ سے میرے دل میں آرہا ہے اورگناہوں کے زنگ و کدورات ذکر کی برکت سے دور ہورہے ہیں۔ اگرادھر اُدھر کے خیالات دل میں آئیں تو ان کو دور کرنے کی کوشش کریں۔ انشاء اللہ تھوڑا ہی عرصہ اس طریقہ پر محنت و توجہ کرنے سے دل ذاکر ہوجائیگا اور جب دل ذاکر ہوگیا تو سوتے جاگتے، کھاتے پیتے ہر وقت دل ذکر اللہ، اللہ، اللہ، کرتا رہے گا۔

فائدہ: لطیفۂ قلب جاری ہونے کی ظاہری علامت یہ ہے کہ سالک کا دل نفسانی خواہشات کی بجائے محبوب حقیقی کی طرف متوجہ ہوجائے، غفلت دور ہو اور شریعت مطہرہ کے مطابق عمل کرنیکا شوق پیدا ہو۔ ذکر جاری ہونے کے لئے یہ ضروری نہیں کہ اسکا دل حرکت کرنے لگے یا اسے کشف ہونے لگے، بلکہ ان چیزوں کے درپے ہونا سالک کے لئے مفید نہیں۔ سالک کا اول و آخر مقصد رضائے الٰہی ہونا چاہئے نہ کہ کشف و کیفیات کا حصول۔

جب سالک کا لطیفہ قلب جاری ہوجاتا ہے تو پیرومرشد مذکورہ طریقہ پر لطیفۂ روح کی تلقین فرماتے ہیں۔

سبق دوم: ذکر لطیفۂ روح

لطیفۂ روح کا مقام داہنے پستان کے نیچے دو انگشت کے فاصلہ پر قدرے پہلو کی جانب واقع ہے۔ سالک کو چاہئے کہ اس مقام پر بھی اسمِ ذات اللہ، اللہ کا توجہ و خیال کرے۔ لطیفۂ روح جاری ہونے سے باطن کی مزید صفائی ہوتی ہے۔

فائدہ: لطیفہ روح جاری ہونے کی علامت یہ ہے کہ طبیعت میں صبر کی وصف پیدا ہوتی ہے اور غصہ پر قابو کرنا آسان ہوجاتا ہے۔

سبق سوم: ذکر لطیفۂ سرّ

لطیفۂ سر کی جگہ بائیں پستان کے برابر دو انگشت سینہ کی جانب مائل ہے۔ اس لطیفہ میں بھی اسم ذات اللہ کا خیال رکھنے سے ذکر جاری ہوجاتا ہے اور مزید باطنی ترقی حاصل ہوتی ہے۔

فائدہ: لطیفہ سر جاری ہونے کی علامت یہ ہے کہ ذکر کے وقت عجیب و غریب کیفیات کا ظہور ہوتا ہے، حرص و ہوس میں کمی اور نیکی کے کاموں میں خرچ کرنے کا شوق پیدا ہوتا ہے۔

سبق چہارم: ذکر لطیفۂ خفی

لطیفۂ خفی کا مقام داہنے پستان کے برابر دو انگشت وسط سینہ کی جانب ہے۔ اس لطیفہ کے ذکر کے وقت ”یا لَطِیْفُ اَدْرِکْنِیْ بِلُطْفِکَ الْخَفِیِّ“ پڑھنا مفید ہے۔

فائدہ: اس لطیفہ کے جاری ہونے کی علامت یہ ہے کہ صفات رذیلہ حسد و بخل سے بیزاری حاصل ہوجاتی ہے۔

سبق پنجم: ذکر لطیفہ اخفی

اس لطیفہ کا مقام وسط سینہ ہے۔ سابقہ لطائف کی طرح اس لطیفہ میں بھی ذکر کا تصور و خیال کرنا چاہئے۔

فائدہ: ذکر لطیفہ اخفیٰ کرنے سے فخر و تکبر وغیرہ زائل ہوجاتے ہیں اور یہی لطیفۂ اخفیٰ جاری ہونے کی علامت ہے۔ نیز سالک کو چاہئے کہ لطائف میں ترقی کے ساتھ ساتھ پہلے والے لطائف پر بھی علاحدہ علاحدہ ذکر کرتا رہے یہاں تک کہ تمام لطائف جاری ہوجائیں۔

سبق ششم: ذکر لطیفہ نفس

لطیفہ نفس کی جگہ وسط پیشانی ہے۔ اس لطیفہ میں بھی سابقہ لطائف کی طرح ذکر کا خیال ہی کرنا ہے۔

فائدہ: لطیفہ نفس کی اصلاح کی علامت یہ ہے کہ سالک ذکر کی لذت میں اس قدر محو ہوجاتا ہے کہ نفس کی رعونت و سرکشی بالکل ختم ہوجاتی ہے۔

سبق ہفتم: ذکر لطیفہ قالبیہ

اس لطیفہ کا دوسرا نام سلطان الاذکار ہے۔ اسکا مقام وسط سر ہے، اس لئے اسکی تعلیم دیتے وقت مشائخ وسط سر یعنی دماغ پر انگلی رکھ کر اللہ، اللہ کہتے ہوئے توجہ دیتے ہیں، جس سے بفضلہ تعالی تمام بدن ذاکر ہوجاتا ہے اور جسم کے روئیں روئیں سے ذکر جاری ہوجاتا ہے۔

فائدہ: لطیفہ قالبیہ جاری ہونے کی ظاہری علامت یہ ہے کہ جسم کا گوشت پھڑکنے لگتا ہے، کبھی بازو کبھی ٹانگ اور کبھی کسی اور حصہ جسم میں حرکت محسوس ہوتی ہے۔ بعض اوقات تو پورا جسم حرکت کرتا محسوس ہوتا ہے۔

سبق ہشتم: ذکر نفی و اثبات

توجہ و خیال کی زبان سے لَاأِلٰہَ اِلآَااللّٰہُ کے ذکر کو نفی و اثبات کہتے ہیں۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ سالک پہلے اپنے باطن کو ہر قسم کے خیالات ماسویٰ اللہ سے پاک و صاف کرے، اس کے بعد اپنے سانس کو ناف کے نیچے روکے اور محض خیال کی زبان سے کلمہ ”لا“ کو ناف سے لیکر اپنے دماغ تک لے جائے، پھر لفظ ”اِلٰہَ“ کو دماغ سے دائیں کندھے کی طرف نیچے لے آئے اور کلمہ ”اِلاَّ اللہُ“ کو پانچوں لطائف عالم امر میں سے گذارکر قوت خیال سے دل پر اس قدر ضرب لگائے کہ ذکر کا اثر تمام لطائف میں پہنچ جائے۔ اس طرح ایک ہی سانس میں چند مرتبہ ذکرکرنے کے بعد سانس چھوڑتے ہوئے خیال سے ”مُحَمَّدُ رَّسُوْلُ اللّٰہِ“ کہے۔ ذکر نفی و اثبات کے وقت کلمہ طیبہ کی معنیٰ کہ سوائے ذات پاک کے کوئی اور مقصود و معبود نہیں، کا خیال رکھنا اس سبق کے لئے شرط ہے۔ کلمہ ”لا“ ادا کرتے وقت اپنی ذات اور تمام موجودات کی نفی کرے اور ”اِلَّا اللّٰہُ“ کہتے وقت ذات حق سبحانہ و تعالیٰ کا اثبات کرے۔

فائدہ: ذکر نفی و اثبات میں طاق عدد کی رعایت کرنا بہت ہی مفید ہے۔ اس طور پر کہ سالک ایک ہی سانس میں پہلے تین بار پھر پانچ بار اس طریقہ پر یہ مشق بڑھاتا جائے یہاں تک کہ ایک ہی سانس میں اکیس بار یہ ذکر کرے۔ البتہ یہ شرط و لازم نہیں ہے۔ طاق عدد کی اس رعایت کو اہل تصوف کی اصطلاح میں وقوف عددی کہا جاتا ہے۔ نیز چاہئے کہ ذکر کے وقت بزبان حال کمال عجز و انکساری سے بارگاہ الٰہی میں یہ التجا کرے۔

خداوندا مقصود من توئی و رضائے تو

محبت و معرفت خود مرا بدہ

ترجمہ: الٰہی تو ہی میرا مقصود ہے اور میں تیری ہی رضا کا طالب ہوں۔ تو مجھے اپنی محبت و معرفت عطا فرما۔

چونکہ ذکر نفی و اثبات میں غیر معمولی حرارت و گرمی ہوتی ہے، اسلئے ہمارے مشائخ عموماً سردی کے موسم میں اسکی اجازت دیتے تھے۔ جبکہ بعض لوگوں کو سردیوں میں بھی سانس روکنا دشوار ہوتا ہے، ایسے لوگوں کو سانس روکے بغیر اور بلا رعایت تعداد ذکر نفی و اثبات کی اجازت دی جاتی ہے۔

چونکہ ذکر نفی و اثبات تمام سلوک کا خلاصہ اور مکھن ہے اور اس سے غیر کے خیالات کی نفی، محبت الٰہی میں اضافہ اور قلب میں رقت پیدا ہوتی ہے تو اس سے بعض اوقات تو کشف بھی حاصل ہوتا ہے۔ لہٰذا سالک کو چاہئے کہ اسکے حصول کی پوری طرح کوشش کرے۔ اگر کچھ عرصہ ذکر کرنے کے باوجود مذکور فوائد حاصل نہ ہوں تو سمجھے کہ میرے عمل میں کسی قسم کی کمی رہ گئی ہے۔ لہٰذا پھر سے بتائے گئے طریقے کے مطابق ذکر شروع کرے۔

نیز مشائخ نے فرمایا ہے کہ اس ذکر کے دوران اعتدال طبع کا خصوصی اہتمام کیا جائے۔ مرغّن غذا اور ہضم کے مطابق دودھ استعمال کرنا چاہئے تاکہ گرمی کی وجہ سے دماغ میں خشکی پیدا ہوکر ترقی کی راہ میں رکاوٹ نہ بنے۔

طریق دوم مراقبہ

لطائف عالم امر کی اصلاح کا دوسرا طریقہ مراقبہ ہے۔ جس کامطلب یہ ہے کہ ذکر اور رابطہ شیخ کے سوا تمام خیالات و خطرات سے دل کو خالی کرکے رحمت الٰہی کا انتظار کیا جائے۔ اسی انتظار کا نام مراقبہ ہے۔ چونکہ فیض و رحمت الٰہی کا نزول لطائف پر ہوتا ہے اس لئے لطائف کی مناسبت سے ان مراقبات کے نام بھی جدا جدا اور انکی نیات بھی مختلف ہیں۔ طریقہ نقشبندیہ میں 36مراقبات معروف ھیں۔

طریق سوم رابطہ شیخ

سالک جب طریقت میں قدم رکھتا ہے تو اسے چاہئے کہ زیادہ سے زیادہ اپنے شیخ کی صحبت و خدمت اختیار کرے اور ان کے وسیلہ سے باطنی و روحانی ترقی کرے، اسی اثناء میں اسے کشف و کرامت، وجد و حال جو کچھ میسر آئیں ان کو اپنے پیر کے طفیل اللہ تعالیٰ کا خصوصی فضل و کرم سمجھے۔ اگر یہ سمجھے گا کہ یہ میری محنت و مجاہدہ کا ثمر و نتیجہ ہے تو اعتقاد کی کمی کے باعث وہ شیخ کے فیوض سے محروم ہوجائیگا اور اس کی باطنی ترقی رک جائیگی۔ بلکہ بعض اوقات اس خام خیالی کی باعث مزید خسارہ مول لیتا ہے الا ماشاء اللہ۔ لہٰذا سالک کو چاہئے کہ شیخ کی صحبت سے دوری کے دوران بھی حصولِ فیض کے لئے اس کی طرف متوجہ رہے، رابطہ و تصور شیخ اس کے لیے اہم اور مجرب ذریعہ ہے اور اس میں کسی قسم کی شرعی قباحت بھی نہیں۔ اسے ناجائز وہی لوگ کہہ سکتے ہیں جن کا اس گلی سے کبھی گذر ہی نہیں ہوا