صوفی کون ھے ؟
تصوف ھےکیا ؟
تزکیہ و احسان یا تصوف و سلوک ایک ہی چیز ھیں اور یہ کیاھیں اسکابہترین جواب مولانازکریاکاندھلوی نے اپنی آپ بیتی میں کچھ یوں دیاہے۔تصوف کی ابتداء انماالاعمال بالنیات(اعمال کادارومدار نیت پر) ہے اوراس کی انتہاء ان تعبداللہ کان تراہ(خداکی عبادت ایسی کرو گویاتم اللہ کو دیکھ رہے ہو)یہ جواب درحقیقت تصوف کی ابتداء اورانتہاء پر لکھے گئے بڑی کتابوں اورمقالات پر بھاری ھے اور ساری کتابوں کا حاصل یہ کہ
تصوف، شریعت کے خلاف عمل کرنے کانہیں، شریعت کے مطابق عمل کرنے کا نام ہے۔
تصوف، ارکان اسلام(یعنی نماز، روزہ،حج،زکوٰۃ )کو پابندی سے اداکرنے اور بجالانے کا نام ہے۔
تصوف، دن رات اﷲ تعالیٰ کی عبادت وبندگی کرنے اوراس کی بارگاہ میں توبہ واستغفار کرنے کا نام ہے۔
تصوف ،مریدین سے مال ومتاع لینے کانہیں بلکہ حاجت مندوں کودینے کا نام ہے۔
تصوف! بندوں سے خدمات لینے کا نہیں مخلوق خدا کی خدمت کرنے کا نام ہے۔
تصوف ! مال ودولت جمع کرنے کا نہیں بلکہ مال و متاع ہمہ وقت اﷲ کی راہ میں خرچ کرنے کا نام ہے۔
تصوف! لوگوں کو دین و مذہب سے متنفراور دور کرنے کانہیں بلکہ اپنے عمل وکردارسے لوگوں کودین ومذہب سے قریب اور مانوس کرنے کا نام ہے۔
تصوف! شریعت سے جدا نہیں بلکہ عین شریعت ہے اور اسلامی تعلیمات کے مطابق زندگی گزارنا ہی تصوف وطریقت ہے۔
بعض ان پڑھ اورقرآن وسنت سے ناواقف حضرات شریعت وطریقت کے متعلق عام لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ طریقت شریعت دونوں الگ الگ ہیں۔ اس ضمن میں بعض جاہل اوربے علم پیرحضرات بھی یہی کہتے نظر آتے ہیں اور پھر ان باتوں کا سہار ا لیتے ہوئے نام نہادپیراورشیخ ارکانِ اسلام ، فرائض وواجبات اور عبادات کو بھی پس پشت ڈال دیتے ہیں اور ان کے مریدین بھی ان کی دیکھا دیکھی احکام شریعت سے غافل ہو جاتے ہیں اورایسے بے کارلوگوں کے اعمالِ بد کی وجہ سے چندلوگ حقیقی اولیاء کرام اور ان کی کرامات کاانکارکربیٹھتے ہیں اوراﷲ کے دوست منکرین کی طعنہ زنی کا سبب بنتے ہیں۔
پس قرآن مجید ، احادیث مبارکہ اوربزرگان دین کے اقوال اورحقائق ثابتہ کی روشنی میں علم تصوف اور صوفیاء کرام کا مقام ومرتبہ روزِ روشن کی طرح واضح اور ظاہرہو گیا ہے اوریہ بھی ثابت ہو گیا کہ علم تصوف اسلامی تعلیمات کے عین مطابق ہے مگر آج بعض نام نہاد صوفیوں اور بے عمل وکردارمشائخ کی وجہ سے نہ صرف حقیقی صوفیاکرام اور کامل مشائخ عظام کا مقام ومرتبہ نہ صرف مجروح ہورہاہے بلکہ بے شمار لوگ اس عظیم علم اور اس کی مبارک تعلیمات سے نہ صرف دور ہو گئے ہیں بلکہ وہ اس مبارک مشن کو نعوذباﷲ شرک اور بدعت سے تعبیر کرتے ہیں، حالانکہ حقیقت کچھ اور ہے اور حقیقت وہ ہے جس کو ہم نے سطورِ سابقہ میں ذکر کیا ہے۔
پس ضرورت اس امر کی ہے کہ صوفیا کرام کے مقام ومرتبہ اور علم تصوف کی حقیقت وتعلیمات کو سمجھا جائے اوراس پر ہر ممکن عمل کرکے دارین کی سعادت حاصل کی جائے،کیونکہ علم تصوف ،اسلامی تعلیمات کے مطابق زندگی بسر کرنے کا نام ہے اور یہی تقاضائے دین اور تقاضائے اسلام ہے۔
اب ایک اورخوبصورت اقتباس تصوف،سلوک، تزکیہ یاعلم احسان کے متعلق حضرت مولاناولی رحمانی مدظلہ العالی کے کتابچہ سے
’’قرب خداندوی حاصل کرنا تزکیہ نفس کاخلاصہ ہے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کاایک مقصد تزکیہ نفس تھا۔آپ اسے تزکیہ نفس کہیں،احسانی تربیت کہہ لیں،تصوف کانام دیں۔مجھے نام سے بحث نہیں،مقصد حاصل ہوناچاہئے،مقصد یہ ہے کہ خداکی یاد سے دل سرشار ہو،’اک گونہ بے خودی مجھے دن رات چاہئے‘خداکی یاد میں بے خودی ہونی چاہئے۔
ترے جلووں میں گم ہوکر خودی سے بے خبرہو
تمناہے کہ رہ جائوں زسرتاپانظرہوکر
تصوف کی بنیاد
تصوف سراسرحسنِ اخلاق،عبادت،خشوع وخضوع،سادگی،جہاد بالنفس،توکل،استغناء،ذکرو فکر،لقاءِ رب کی آرزو،ریاضت،مراقبہ،طاعت شعاری،عشق ومحبتِ الٰہی اور رغبت الی اللہ کی بنیاد پر قائم ہوتا ہے۔اسی لیے صوفی دنیا(یعنی عورت،دولت،زمین،باغات،مکانات اور تجارت)کی محبت کو اپنے دل سے بالکلیہ خارج کر دیتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی ذاتِ اقدس کو اپنا محبوب بنا لیتا ہے۔
حضرت جنید بغدادی فرماتے ہیں کہ تصوف کی بنیادآٹھ چیزوں پر ہے۔
التصوف مبنی علی ثمان خصال السخاء والرضاء والصبروالاشار والغربۃ ولبس الصوف والسیاحۃ والفقر؛امّاالسخاء فلابراہیم واماالرضاء فلاسمٰعیل وامّا الصبرفلایوب وامّاالاشارفلزکریاوامّاالغربۃ فلیحییٰ وامّا لبس الصوف فلموسٰی وامّا السیاحۃ فلعیسٰی وامّاالفقر فلمحمدٍصلی اللہ علیہ وسلم وعلیہم اجمعین کشف المحجوب :25
”تصوف کی بنیاد آٹھ خصلتوں پر ہے،یعنی سخاوت،رضا،صبر، اشارہ،غربت،صوف پوشی،سیر اورفقر؛لیکن سخاوت ابراہیم رضاء اسماعیل سے اورصبر ایوب سے اوراشارہ زکر یا سے اورغربت یحییٰ سے اورصوف پوشی موسیٰ سے اور سیاحت عیسیٰ سے اور فقر حضور سے“
الغرض تصوف کی بنیاد دین اسلام کی تعلیمات کے مغز اور نچوڑ پر قائم ہے۔جن پر ایک صوفی ہر حال میں عمل پیرا ہوتا ہے۔حضرت ابوحفص نیشا پوری کا ارشاد ہے:
التصوف کلہ ادب لکل وقتٍ ادبٌ ولکل مکانٍ ادبٌ ولکل حالٍ ادب وفمن لزم آداب الاوقات بلغ مبلغ الرجال ومن ضیّع الآداب فہو بعید من حیث یظن القرب ومردودٌ من حیث یظن القبول
کشف المحجوب:27
”تصوف سارے کا ساراادب ہے،کیونکہ ہر وقت،ہرمقام اورہرحال کے لیے ایک ادب ہے، جو کوئی آداب بجالانا اپنے اوپرلازم قرار دے لے،اس کی رسائی اللہ والو ں کے مقام پر ہوجاتی ہے،جو شخص آداب کو ضائع کردیتا ہے،وہ اس اعتبار سے کہ اپنے آپ کونزدیک خیال کرتا ہے ،دورہوتا ہے اور اس حیثیت سے مردود ہوتا ہے کہ اپنے آپ کومقبول خیال کرتا ہے“
صوفیاء کا طبقہ ہی کسی بھی مذہب وملت کا صحیح ترجمان وعکاس ہو تا ہے اسی لیے امام غزالی نے بھی اس طبقہ کی تعریف ان الفاظ میں کی ہے:
سیرتہم احسن السیروطریقھم اصوب الطرق واخلاقھم اذکی الاخلاق بل لو جمع عقل العقلاء وحکمة الحکماء وعلم الواقفین علی اسرارالشرع من العلماء لغیرواشیامن سیرہم واخلاقہم ویبدلوہ بماہو خیر منہ، لم یجدوہ الیہ سبیلا۔فان جمیع حرکاتہم وسکناتھم فی ظاہرہم وباطنہم مقتبسۃ من(نور)مشکوۃ النبوۃ ولیس وراء نورالنبوۃ علی وجہ الارض نور یستضاء بہ
المنقذ من الضلال:70
”مجھے محسوس ہوا کہ انہیں کی سیرت خوب تر ہے۔انہیں کاراستہ دوسرے راستوں کی نسبت زیادہ سیدھا ہ اور انہیں کے اخلاق زیادہ پاکیزہ ہیں۔بلکہ اگر تمام عقلاء کی عقلیں اور سب حکماء کی دانائیاں اور علماء شریعت اورواقفانِ دین کے علوم اکٹھے کیے جائیں تب بھی اس لائق نہ ہوں کہ ان کے اخلاق وسیرت کے مقابلے میں کسی اخلاق وسیرت کو پیش کرسکیں۔اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کی تمام حرکات وسکنات مشکوۃ نبوت سے مستنیر ہیں اورنورِ نبوت کے علاوہ روئے زمین پر کوئی اور نور ہے ہی نہیں جس سے روشنی حاصل ہو سکے“
علم تصوف کے شرعی ثبوت کے لیے تین دلائل بیان کیے جاتے ہیں
دلیل نمبر1
اللہ جل شانہ کا فرمان ہے:﴿وذروا ظاھر الاثم وباطنہ﴾․ الانعام آیت:140)
ترجمہ: اور ظاہری گناہ اور پوشیدہ گناہ سب چھوڑ دو۔
تفسیر خازن میں اس آیت کے تحت مرقوم ہے:”المراد بظاہر الاثم افعال الجوارح، وباطنہ افعال القلوب“․ ( تفسیر خازن ج2 ص:146)
ظاہری گناہ سے مراد اعضا وجوارح کے اعمال اور باطنی گناہوں سے مراد دل کے اعمال ہیں۔
لہٰذا انسانی اعمال کی تین قسمیں ہیں:
قسم اول:
وہ اعمال جن کا تعلق فقط انسان کے ظاہر سے ہے ۔ مثلاً : (کھاؤ اور پیؤ اور اسراف نہ کرو۔) ( آپ کہہ دیجیے ایمان والوں سے کہ نگاہیں نیچی رکھیں۔) ( عورتوں سے حیض کے دوران علیٰحدہ رہو)؎
قسم دوم:
وہ اعمال جن کا تعلق انسان کے باطن سے ہے ۔ مثلاً ( اور الله پر توکل کرو۔) ( میں اپنا کام الله کے سپرد کرتا ہوں۔) ( ان سے نہ ڈرو اور مجھ سے ڈرو۔)
قسم سوم: وہ اعمال جن کا تعلق انسان کے ظاہر سے بھی ہے اور باطن سے بھی، مثلاً نماز کے ظاہر کے متعلق فرمایا: ( اور جب کھڑے ہوتے ہیں نماز میں تو کھڑے ہوتے ہیں سستی کے ساتھ۔ ) اور باطن کے متعلق فرمایا:(انسانوں کے دکھانے کے لیے ) اعمال کے ظاہری حصے کا تعلق علم قال ( فقہ) اور باطنی حصے کا تعلق علم حال (تصوف) سے ہے۔ یہ دونوں علوم صحابہ کرام نے شارع علیہ الصلوٰة والسلام سے سیکھے، جس کی تائید درج ذیل احادیث سے ہوتی ہے۔
حضرت ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے : ” میں نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے علم کے دو برتن حفاظت میں لیے۔ ایک کو لوگوں میں پھیلا دیا اور دوسرا اگر پھیلاؤں تو یہ گردن کاٹ دی جائے۔“ اس حدیث پاک سے ثابت ہوا کہ حضرت ابوہریرہ نے نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم سے دو علوم سیکھے، یعنی ایک علمِ قال اور دوسرا علم حال۔ (مشکوٰة، کتاب العلم)
… سیدنا عمر بن الخطاب رضی الله عنہ کو جب دفن کیا گیا تو حضرت عبدالله بن عمر رضی الله عنہ نے صحابہ رضی الله عنہم کی ایک محفل میں کہا: ”آج دس میں سے نو حصے علم فوت ہو گیا۔“ اس پر بعض صحابہ کرام نے ناگواری کا اظہار کیا تو حضرت عبدالله رضی الله عنہ نے فرمایا: ” اس سے مراد حیض ونفاس کا علم نہیں، بلکہ علم الله ہے۔“ یہ جواب سن کر سب حضرات مطمئن اور خاموش ہو گئے۔ پس اس پر صحابہ کرام رضی الله عنہم کا اجماع سکوتی ثابت ہوا اور صاف ظاہر ہے کہ صحابہ کرام رضی الله عنہم کسی غیر شرعی بات پر ہر گز خاموش نہ رہتے۔ وہ تو باطل کے خلاف ننگی تلوار تھے۔
حضرت علی رضی الله عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے فرمایا: ”رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے مجھے علم کے ستر ابواب بتا رکھے ہیں او رمیرے سوا یہ علم کسی اور کو نہیں بتایا۔“ (کتاب اللمع، ص:54)
صحابہ کرام رضی الله عنہم میں سے بعض حضرات ایسے بھی تھے جنہیں ایک خاص قسم کا علم خصوصیت کے ساتھ حاصل تھا۔ حضرت حذیفہ رضی الله عنہ کو منجملہ اور کئی باتوں کے منافقین کے ناموں کا علم تھا۔ انہیں رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے یہ علم راز میں بتایا تھا۔ یہاں تک کہ حضرت عمر رضی الله عنہ بھی ان سے دریافت کرتے تھے کہ کہیں میں تو ان میں سے نہیں ہوں۔
بعض تابعین حضرات علم قال ( فقہ) میں صحابہ کرام سے بڑھے ہوئے تھے۔ چناں چہ حضرت عبدالله بن عباس رضی الله عنہ سے بعض اوقات مسئلہ پوچھا جاتا تو فرماتے ” جابر بن عبدالله رحمہ الله سے پوچھو ، اہل بصرہ ان کے فتوی پر عمل کریں ۔“ حضرت عبدالله بن عمر فرماتے ” سعید بن المسیب سے پوچھو۔“ حضرت انس بن مالک رضی الله عنہ فرمایا کرتے : ” حسن بصری رحمہ الله سے پوچھو۔ انہوں نے مسئلے یاد کر رکھے ہیں۔ ہم بھول گئے “ حالاں کہ یہ طے شدہ بات ہے کہ صحابہ کرام کو یقین ومعرفت ( علم حال) میں تابعین پر ایسی فضلیت حاصل تھی جیسا کہ سورج کو چراغِ شب پر ۔ صحابہ کرام کے یقین کامل کااندازہ اس روایت سے لگایا جاسکتا ہے، جسے حکیم ترمذی رحمہ الله نے شان الصلوٰة میں اور ابن الاثیر نے اسد الغابہ میں نقل کیا ہے۔ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے ایک مرتبہ اپنے ایک صحابی سے پوچھا:
اے حارث! صبح کیسے کی؟ تو حارث نے جواب دیا: اے الله کے نبی (صلی الله علیہ وسلم) ! میں نے الله پر سچے ایمان کی حالت میں صبح کی۔“ حضور صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا : ”دیکھ تو کیا کہہ رہا ہے؟ اے حارث! بے شک ہر ایک شے کی کوئی نہ کوئی حقیقت ہوتی ہے ، تیرے ایمان کیا حقیقت ہے؟“ تو حارث نے جواب دیا میں نے اپنے نفس سے علیٰحدگی اختیار کی اور اسے دنیا سے پھیر دیا ، جس کے نتیجہ میں میری نظر میں اس دنیا کے پتھر ، مٹی ، سونا اور چاندی برابر ہو گئے ہیں ۔ میں رات کو جاگتاہوں اور دن میں پیاسا رہتا ہوں۔ میری یہ کیفیت ہے کہ میں الله تعالیٰ کے عرش کو اپنے سامنے ظاہر دیکھ رہاہوں اور گویا میں جنت میں ایک دوسرے سے ملتے ہوئے او راہل جہنم کو چلاّتے ہوئے دیکھ رہا ہوں۔
حضرت ابوبکر صدیق رضی الله عنہ کے بارے میں ان کی اہلیہ سے منقول ہے ” ابوبکر رضی الله عنہ کو لوگوں پر فضیلت نماز اورروزہ کی کثرت کی وجہ سے نہ تھی، بلکہ دل کے یقین ( معرفت) کی وجہ سے تھی “۔ اسی یقین ومعرفت کا نام علم حال ( تصوف) ہے ۔ یہ علم کتابیں پڑھنے سے حاصل نہیں ہوتا، بلکہ خواہشات نفسانی کے ترک کرنے سے حاصل ہوتا ہے ۔ حضرت حسن بصری رحمہ الله فرمایا کرتے تھے ” ہم نے تصوف کا علم قیل وقال کے ذریعے سے حاصل نہیں کیا، بلکہ دنیا اور اس کی لذتوں کے ترک کرنے سے حاصل کیا ہے ۔“ پس ثابت ہوا کہ علم قال اور علم حال کی ندیاں سرچشمہٴ علوم نبوت ہی سے نکلی ہیں۔
دلیل نمبر
صحیح مسلم میں حضرت ابوہریرہ رضی الله عنہ سے مروی ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ” مجھ سے ( دین کی باتیں) پوچھا کرو۔ “ لیکن حضرات صحابہ کرام ہیبتِ نبوی صلی الله علیہ وسلم کے غلبہ کی وجہ سے سوال نہ کرسکے ۔ چناں چہ ایک اجنبی آدمی مجلس میں آئے، بیٹھ گئے اور پوچھا ”ما الایمان“ (ایمان کیا ہے؟) ”ماالاسلام؟“ (اسلام کیا ہے؟) ”ما الاحسان؟“ (احسان کیا ہے؟)
یہ سوالات وجوابات حدیث جبرئیل میں معروف ہیں۔ مطلب یہ کہ غلبہ ہیبت کی وجہ سے حضرات صحابہ کرام رضی الله عنہم کو سوالات کرنے کی جرأت بہت کم ہوتی تھی۔ تعلم حقائق دینیہ کے لیے حق تعالیٰ نے حضرت جبرئیل علیہ السلام کو انسانی شکل میں بھیجا، تاکہ وہ سوال کریں اور معلم کائنات صلی الله علیہ وسلم جواب میں گوہر افشانی فرمائیں اور اس انداز سے صحابہ رضی الله عنہم کا دامن ، علمی جواہر پاروں سے بھرپور ہو ۔ سوالات کے جوابات دینے کے بعد رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”فانہ جبرئیل، اتاکم یعلمکم دینکم“ ( یہ جبرئیل آئے تھے ، تمہیں تمہارا دین سکھانے کے لیے) اس تعبیر میں یہ بات بتا دی گئی کہ علوم دینیہ کا خلاصہ ان جوابات میں موجود ہے۔ پس تمام احادیث کے علوم تین حصوں میں تقسیم ہو سکتے ہیں۔
وہ احادیث جن میں دین کے اصول اور نظریات کی تعلیم ہے۔
وہ احادیث جو اعمال ظاہرہ کی اصلاح سے متعلق ہیں۔
وہ احادیث جو اصلاح باطن سے متعلق ہیں۔
حدیث جبرئیل میں ان تینوں قسموں کا ذکر آگیا۔ ”ماالایمان؟“ میں اصلاح عقائد کا مضمون آگیا۔ ” ماالاسلام؟“ میں اعمال ظاہرہ کی اصلاح کا مضمون آگیا اور ” ما الاحسان؟“ میں اصلاح اخلاق کا مضمون آگیا۔ چند جملوں میں پورے دین کا خلاصہ بیان کر دینا پیغمبرانہ اعجاز ہے۔ لہٰذا یہ حدیث ”جوامع الکلم“ میں سے ہے ۔ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی شخصیت انتہائی جامعیت کی حامل تھی۔ آپ صلی الله علیہ وسلم نے دین کے ان تینوں حصوں کی کماحقہ تشریح اور اشاعت کی۔
صحابہ کرام رضی الله عنہم میں بھی جامعیت کی شان کافی حد تک تھی ۔ لیکن مرورزمانہ کے ساتھ ساتھ جامعیت میں کمی آتی گئی۔ اس لیے علمائے امت نے دین کی حفاظت وخدمت کے لیے ان شعبوں کو تین مستقل علیٰحدہ علیٰحدہ علوم میں مدون کر دیا۔
تصحیح عقائد کے سلسلہ میں کتاب وسنت میں جو ہدایات دی گئیں ،ان کی حفاظت وخدمت کے لیے ” علم کلام“ مدون ہوا۔
اعمال ظاہرہ کے متعلق جو رہنمائی کتاب وسنت نے کی ہے، اس کی تشریح کے لیے ” علم فقہ“ کو مدون کیا۔
اصلاح باطن کے متعلق جو باتیں کتاب وسنت نے بتائی ہیں، ان کی تفصیلات کے لیے ” علم الاحسان، علم الاخلاق، علم التصوف“ مدون ہوا۔
ان علوم ثلاثہ میں کامل دسترس رکھنے والا ہی محقق او رکامل عالم دین کہلانے کا حق دار ہے ۔ اس تفصیل سے یہ بات واضح ہو گئی کہ یہ تینوں علوم ”تیسیر علی الامة“ کے لیے مدون کیے گئے۔ یہ علوم قرآن وسنت سے کوئی الگ چیز یا ان کے خلاف کوئی محاذ نہیں، بلکہ کتاب وسنت کی روح او ران کے ثمرات ہیں ۔ شیخ زروق رحمہ الله اپنی کتاب ” ایقاظ الہمم“ میں لکھتے ہیں ۔: ”تصوف کی نسبت دین کے ساتھ اسی طرح ہے جیسے روح کی نسبت جسم کے ساتھ“۔
… حضرت مجدد الف ثانی رحمہ الله اپنے ایک مکتوب میں ملا حاجی محمد لاہوری کو تحریر فرماتے ہیں : ” شریعت کے تین حصے ہیں۔ علم ، عمل، اخلاص۔ جب تک یہ تینوں اجزا متحقق نہ ہوں شریعت متحقق نہیں ہوتی۔ جب شریعت متحقق ہو جاتی ہے تو حق تعالیٰ کی رضا حاصل ہو جاتی ہے، جو کہ تمام دنیاوی اور اخروی سعادتوں سے بالاتر ہے ۔ طریقت وحقیقت جس سے کہ صوفیا ممتاز ہوئے ہیں ، دونوں شریعت کے تیسرے حصے ( یعنی اخلاص ) کی تکمیل میں شریعت کے خادم ہیں ۔ پس ان کی تحصیل صرف شریعت کی تکمیل کے لیے کی جاتی ہے ۔
احوال ومواجید اور علوم ومعارف جو اثنائے راہ میں حاصل ہوتی ہیں وہ مقاصد میں سے نہیں۔ ان سب سے گزر کر مقام رضا تک پہنچنا چاہیے۔ جو کہ سلوک کا آخری مقام ہے، اس لیے طریقت وحقیقت کی منزلوں کو طے کرنے کا مقصد تحصیل اخلاص ( احسان) کے سوا کچھ نہیں ہے۔“ ( جلد اول، مکتوب سہ وششم)
حضرت شاہ ولی الله محدث دہلوی رحمہ الله فرماتے ہیں : ”مقصود صوفیہ کے طریقہ عالیہ کا ، مشاہدہ حق کا حصول ہے ”کانک تراہ“ اوراس حضور کا نام انہوں نے ” مشاھدہ بالقلب“ رکھا ہے ۔“ ( انتباہ فی سلاسل اولیاء الله ص:39)
دلیل نمبر
حدیث متواتر کی تعریف اور اس کے قطعی الثبوت ہونے کی دلیل میں اہل اصول لکھتے ہیں: ” حدیث متواتر وہ ہے کہ اتنی بڑی تعداد نے ہر زمانے میں اس کی روایت کی ہو کہ عقل سلیم اور انسانی عادات اس بات کو ماننے کے لیے تیار نہ ہوں کہ اتنے کثیر انسانوں نے غلط بیانی اور افترا پردازی پر اتفاق کر لیا ہے اور یہ کسی سازش کا نتیجہ ہے۔“ (نخبة الفکر)
چناں چہ قرن ثانی سے لے کر اس وقت تک بلا انقطاع اور بلا استثنا ہر دور اور ہر ملک کے کثیر التعداد مخلص بندوں نے علم تصوف کو حاصل کیا۔ خود فائدہ اٹھایا اور دوسروں کو پہنچایا۔ یہی دلیل علم تصوف کی حقانیت کو اجاگر کرنے کے لیے کافی ہے
حضرت شاہ ولی الله محدث دہلوی رحمہ الله فرماتے ہیں: ”ہماری صحبت اور ہماری تعلیم جو آدابِ تصوف وسلوک سے تعلق رکھتی ہے یہ حضور صلی الله علیہ وسلم سے سند متصل صحیح اور جاری کے ذریعے ملتی ہے۔“
خلاصہٴ کلام:
صحابہ کرام رضی الله عنہم نے علم ظاہری او رعلم باطنی یعنی علم قال وعلم حال رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے سیکھا اور اس وقت سے امت میں ان علوم کی اشاعت وترویج جاری وساری ہے، آج کے دور میں علم قال کو فقہ یا شریعت اور علم حال کو تصوف یاطریقت کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے ۔ یہ دونوں علوم انسان کی ایمانی تکمیل کے لیے ضروری ہیں۔ جس طرح کنز وھدایہ اور شرح وقایہ پڑھنا ضروری ہے ، اسی طرح ابو نصر سراج کی ” کتاب اللمع“ ابو طالب مکی کی ”قوت القلوب“ امام غزالی کی ” اربعین“ شیخ سہروردی کی ” عوارف المعارف“ اور حضرت مجدد کے ” مکتوبات“ پڑھنا ضروری ہے۔ اگر روایت میں کمال حاصل کرنے کے لیے عسقلانی اور قسطلانی رحمہما الله سے استفادہ ضروری ہے تو درایت میں کمال حاصل کرنے کے لیے جنید وبایزید رحمہما الله سے فیضیاب ہونا ناگزیر ہے۔
تصوف مشاہیر امت کی نظر میں
شیخ ابوطالب مکی قوت القلوب میں لکھتے ہیں : ” دونوں علوم اصلی ہیں، جو ایک دوسرے سے مستغنی نہیں ہیں۔ بمنزلہ اسلام اور ایمان کے ۔ ہر ایک دوسرے کے ساتھ بندھا ہوا ہے ۔ جیسے جسم اور قلب کہ ان میں سے ایک دوسرے سے جدا نہیں ہو سکتا۔
شیخ الاسلام زکریا انصاری رحمہ الله لکھتے ہیں : ” شریعت حقیقت کا ظاہر ہے اور حقیقت شریعت کا باطن۔ دونوں لازم وملزوم ہیں۔ ایک کے بغیر دوسرے کی تکمیل نہیں ہوتی۔“
حضرت امام مالک بن انس رحمہ الله فرماتے ہیں : ” جس نے (علم) فقہ حاصل کیا، مگر ( علم) تصوف حاصل نہ کیا اس نے فسق کیا ۔ جس نے ( علم) تصوف حاصل کیا، مگر ( علم) فقہ حاصل نہ کیا وہ زندیق ہوا۔ جس نے ان دونوں ( علوم) کو جمع کیا پس وہ محقق ہوا۔“
علامہ شامی رحمہ الله فرماتے ہیں: ” طریقت وشریعت دونوں لازم ملزوم ہیں۔“
اکبر الہ آبادی مرحوم نے شریعت وطریقت کے حوالے سے چند خوبصورت اشعار پیش کیے ہیں
سنو دو ہی لفظوں میں مجھ سے یہ راز
شریعت وضو ہے طریقت نماز
شریعت در محفل مصطفیا
طریقت عروج دل مصطفیا
شریعت میں ہے صورت فتحِ بدر
طریقت میں ہے معنی شقِ صدر
شریعت میں ہے قیل وقال حبیب
طریقت میں حُسن وجمالِ حبیب
نبوت کے اندر ہیں دونوں ہی رنگ
عبث ہے یہ صوفی وملا کی جنگ
پس ثابت ہوا کہ علم تصوف کوئی عجمی چیز نہیں بلکہ خالص مکی اور مدنی چیزہے ۔ البتہ جاہل صوفیاء کی وہ باتیں جو کتاب وسنت کے خلاف ہوں ہمیشہ رد کی جائیں گی۔
امام ابو القاسم قشیری رحمہ الله فرماتے ہیں: ” شریعت کی ہر وہ بات جس کی تائید حقیقت سے نہ ہو وہ غیر مقبول ہے اور حقیقت کی ہر وہ بات جو شریعت کی قیود میں نہ ہو حاصل کرنے کے قابل نہیں ہے۔“
حضرت امام ربانی مجدد الف ثانی رحمہ الله فرماتے ہیں:”طریقت کی ہر وہ بات جسے شریعت رد کر دے زندقہ اور کفر ہے۔“
حضرت امام ربانی مجدد الف ثانی رحمہ الله اپنے مکتوبات میں فرماتے ہیں : ” وہ ریاضتیں اور مجاہدے جوتقلید سنت سے الگ ہو کر اختیار کیے جائیں معتبر نہیں ہیں۔
اس لیے کہ جوگی اور ہندوستان کے براہمہ اور یونان کے فلاسفہ بھی ان کو اختیار کرتے ہیں اور یہ ریاضتیں ان کی گمراہی میں اضافہ کے سوا او رکچھ نہیں کرتیں۔“ (جلد اول مکتوب دو صدوبست ویکم)
حضرت حاجی امداد الله مہاجر مکی رحمہ الله تحریر فرماتے ہیں:” بعض جہلاء جو کہہ دیتے ہیں کہ شریعت اور ہے اور طریقت اور ،محض ان کی کم فہمی ہے۔ طریقت بے شریعت خدا کے گھر مقبول نہیں ۔ صفائی قلب کفار کو بھی حاصل ہوتی ہے ۔ قلب کا حال مثل آئینہ کے ہے۔ آئینہ زنگ آلودہ ہے تو پیشاب سے بھی صاف ہو جاتا ہے اور گلاب سے بھی صاف ہو جاتا ہے لیکن فرق نجاست وطہارت کا ہے ۔ ولی الله کو پہچاننے کے لیے اتباعِ سنت کسوٹی ہے۔ جو متبع سنت ہے وہ الله کا دوست ہے او راگر مبتدع ہے تو محض بے ہودہ ہے۔ خرق عادات تو دجال سے بھی ہوں گے۔“ رجوم المذنبین ص:129)
لہٰذا سالک کو چاہیے کہ علم تصوف ان حضرات سے سیکھے جن کا علم وعمل اور قال وحال کتاب وسنت کے عین مطابق ہو۔ جاہل وبے عمل صوفیاء کی بے ہودہ باتوں پر ہر گز ہر گز فریفتہ نہ ہو۔عربی کا مشہور مقولہ ہے: ” خذ ما صفا ودع ماکدر“ جو صاف ہو وہ لے لو اور جو میلا ہو وہ چھوڑ دو۔
سلاسل تصوف
چار بڑے سلاسل چل رہے ہیں ۔جو چشتیہ ،نقشبندیہ ،قادریہ اور سہروردیہ ہیں . سلسلہ نقشبندیہ کے سرخیل حضرت شیخ بہاؤالدین نقشبندی (رحمۃ اللہ علیہ ) ,۔سلسلہ چشتیہ کےحضرت خواجہ معین الدین چشتی (رحمۃ اللہ علیہ) ہیں۔ سلسلہ قادریہ کے سرخیل حضرت شیخ عبد القادر جیلانی (رحمۃ اللہ علیہ)،سلسلہ سہروردیہ کے حضرت شیخ شہاب الدین سہروردی (رحمۃ اللہ علیہ) ہیں
صوفی کون ھے ؟
تصوف وسلوک کو عملی طور پر اختیار کرنے والے کا نام صوفی وسالک رکھا گیا ہے ۔ صوفیا ھی دراصل اولیااللہ ھیں اور اللہ کی بارگاہ میں مقبول و معروف اور بڑےدرجات ر ؓؓ کھتےھیں
حضرت ابوعمروبن النجیدعلیہ الرحمتہ فرماتے ہیں کہ صوفی وہ ہے جس کو جانوروں کی آوازمیں…… ہر ایک سوزوساز میں…… چڑیوں کی چہک میں…… پھولوں کی مہک میں…… سبزے کی لہک میں…… جواہرات کی دمک میں…… سورج کی روشنی میں…… سماء و سمک کی بلندی میں…… درختوں کے رنگ میں……شیشہ وسنگ میں …… آہنگ ورباب وچنگ میں…… پتھر کی سختی میں…… خوشحالی اور تنگ دستی میں …… زمین کی وسعت ونرمی میں…… آگ کی گرمی میں…… دریا کی روانی میں…… آسمانی ستاروں کی چمک میں …… پہاڑ کے اُبھاروبلندی میں…… بیابان ومرغزارمیں…… خزاں وبہار میں ایک نادیدہ وعظیم ہستی (اﷲ جل شانہ) کا جلوہ نظر آئے۔
کس قدرافسوس کی بات ہے کہ آج کا مسلمان اصلی اور نقلی گھی کی پہچان تو کر لیتا ہے مگر اصلی ولی کی پہچان کرنے سے قاصر ہے۔ خالص اور ملاوٹی دودھ کی پہچان تو کر لیتا ہے مگراصلی اور مصنوعی پیر کی پہچان میں فرق نہیں کر سکتا، بے وفا اور وفادار دوست کی تو شناخت کر لیتاہے مگر بے دین اور دیندار مرشد کے معاملے میں فرق نہیں کر سکتا تو آیئے قرآن وحدیث کی روشنی میں اور اولیاء کرام کے اقوال و احوال سے معلوم کرتے ہیں کہ اﷲ کے ولی(دوست) کی کیاپہچان اورکیامقام ہے۔
قرآن مجید میں ارشادِ باری تعالیٰ اپنے ولیوں کی شان اور مقام اس طرح بیان فرمارہاہے:
ترجمہ: ’’ بلاشبہ اﷲ کے ولیوں پر نہ کوئی خوف ہے اور وہ غمگین ہوں گے اور (اﷲ کے ولی وہ ہیں) جوایمان لائے اور پرہیز گاری اختیار کی‘‘۔
(سورۂ یونس:آیت62-63)
اﷲ تعالیٰ نے قرآن پاک میں اولیاء اﷲ کی پہچان اس طرح بیان فرمائی کہ اﷲ کا ولی (اصلی دوست)وہ ہو تا ہے جو صاحب ایمان ہونے کے ساتھ ساتھ متقی و پرہیز گار بھی ہو۔ قرآن وسنت کے احکامات وتعلیمات کا پابند ہو۔ اﷲ اور اس کے رسول ﷺکا اطاعت گزارو فرمانبردار ہو اور اﷲ کے ولی وہ ہوتے ہیں جو ساری ساری رات اﷲ کی عبادت وبندگی اورتوبہ واستغفارمیں گزار دیتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ جتنے بھی اولیائے کاملین اور مشائخ کرام گزرے ہیں اورجوحیات ہیں ان کے مزارات، آستانوں ،خانقاہوں اوررہائش گاہوں کے ساتھ مساجدضرور ہیں جو اس حقیقت اسلام کو واضح اورآشکارکررہی ہیں اوراس بات کا ثبوت اوردلیل ہیں کہ اﷲ کے ولی اوردوست ہر حال میں صوم وصلوٰۃ کی نہ صرف پابندی کرتے ہیں بلکہ ان کے شب وروزمسجداور مدرسہ میں بسرہوتے ہیں۔
اولیاء اﷲ کی علامت……عبادت وریاضت
قرآن پاک میں اولیاء اﷲ کی پہچان اورمقام کے بارے میں مزید ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
ترجمہ: ’’اور رحمن کے (مقرب)بندے وہ ہیں کہ جو زمین پر(عاجزی سے) آہستہ چلتے ہیں اور جب کوئی جاہل اُن سے ( کوئی ناگوار بات) کرتے ہیں تو کہتے ہیں (تمھیں) سلام اور وہ جو اپنے رب کیلئے سجدے اور قیام میں راتیں گزار دیتے ہیں‘‘۔
(سورۃالفرقان:آیت ۶۴۔۶۳)
اولیاء اﷲ کامقام اورشان یہ ہے کہ وہ نہ صرف عاجزی اورانکسارکے پیکرہوتے ہیں بلکہ جب ان سے کوئی جاہل نارواگفتگوکرتا ہے یا ناشائستہ طرزعمل اختیار کرتا ہے توبھی رحمٰن کے بندے ان سے حسن اخلاق اور خندہ پیشانی سے پیش آتے ہیں اوروہ راتوں کواﷲ تعالیٰ کی خوب عبادت وبندگی کرتے ہیں۔
ایک حدیث شریف میں حضور اکرم ﷺنے اولیاء اﷲ کی پہچان اورشان بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ:
﴿اذا رء وا ذکر اﷲ۔ ﴾
ترجمہ: ’’ (اﷲ والوں کی پہچان یہ ہے کہ) ’’جب کوئی اُنھیں دیکھ لیتاہے توانھیں خدا یادآجاتا ہے‘‘۔الحدیث
حضرت شیخ ابو علی رودباری رحمۃ اللہ علیہ کار ارشاد ہے
”صوفی وہ ہے جو قلب کی صفائی کے ساتھ صوف پوش (سادہ لباس) ہو اور نفسانی خواہشات کو (زہد کی) سختی دیتا ہو اور شریعت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کو لازم پکڑتا ہو اور دنیا کو پسِ پشت (غیر مقصود) ڈال دیتا ہو۔“
حضرت شیخ جنید بغدادی علیہ الرحمۃ نے فرمایا ”صوفی فانی ز خویش اور باقی بحق ہوتا ہے۔“ حضرت عمر بن عثمان مکی رحمۃ اللہ علیہ کا ارشاد ہے
”صوفی وہ ہے جو ہر وقت اسی کا ہوکر رہتا ہے جس کا وہ بندہ ہے۔“
حضرت سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی علیہ الرحمۃ نے ارشاد فرمای
”صوفی پرسکون جسم، دل مطمئن، منور چہرہ، سینہ کشادہ، باطن آباد اور تعلق مع اللہ کی وجہ سے دنیا کی تمام اشیاء سے بے پرواہ ہوتا ہے۔“
حضرت شیخ شبلی رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں کہ
”صوفی مخلوق سے آزاد اور خدا سے مربوط ہوتا ہے۔“
حضرت ذوالنون مصری علیہ الرحمۃ نے فرمای
”صوفیاء کرام وہ ہیں جو ہر چیز سے زیادہ اللہ کی رضا کو ترجیح دیتے ہیں۔“
حضرت امام غزالی علیہ الرحمۃ اپنی کتاب ”المنقذ من الضلال“ میں پوری امت مسلمہ کو خطاب کرتے ہوئے فرماتے ہیں
و علمت ان طریقتھم انما تتم بعلم و عمل و کان حاصل علمھم قطع عقبات النفس عن اخلاقھا المذمومۃ و صفاتھا الخبیثۃ حتیٰ یتوسل بھا الیٰ تخلیۃ القلب عن غیر اللہ تعالیٰ و تخلیۃ بذکر اللہ۔
”صوفیاء کرام کا طریقہ علم اور عمل کے ذریعہ مکمل ہوتا ہے اور ان کے علم کا حاصل یہ ہے کہ نفس اخلاق مذمومہ اور صفات خبیثہ سے پاک ہوجائے تاکہ دل غیراللہ سے خالی ہوکر اللہ کے ذکر سے مزین ہوجائے۔“
صوفیائے کرام کے متعلق حضرت امام غزالی علیہ الرحمۃ کی فیصلہ کن رائے
صوفیاء کرام کا ذکر کرتے ہوئے حضرت امام غزالی ”المنقذ من الضلال“ میں فرماتے ہیں
انی علمت یقینا ان الصوفیۃ ھم السالکون بطریق اللہ تعالیٰ خاصۃ و ان سیرتھم احسن السیر و طریقھم اصوب الطرق و اخلاقھم ازکی الاخلاق بل لو جمع عقل العقلاء و حکم الحکماء و علم الواقفین علیٰ اسرار الشرع من العلماء لیغیروا شیئا من سیرھم و اخلاقھم و یبدلوہ بما ھو خیر منہ لم یجدوا الیہ سبیلا فان جمیع حرکاتھم و سکناتھم فی ظاھرھم و باطنھم مقتبسۃ من نور مشکوٰۃ النبوۃ و لیس وراء نور النبوۃ علیٰ وجہ الارض نور یستضاء بہ۔
”مجھے یہ بات پورے یقین سے معلوم ہوئی کہ صوفیاء کرام ہی اللہ کے راستہ پر چلنے والے ہیں، ان کی سیرت تمام سیرتوں سے بہتر ہے، ان کا طریقہ تمام طریقوں سے سیدھا ہے، ان کا اخلاق تمام لوگوں کے اخلاق سے زیادہ پاک ہے، بلکہ اگر تمام تمام عقلاء کی عقل کو اکٹھے کیا جائے، تمام حکماء کی حکمت کو جمع کیا جائے، علماء کے علم کو یکجا کیا جائے تاکہ صوفیاء کرام کے طریقہ کے متبادل کوئی طریقہ تلاش کیا جاسکے جو ان سے بہتر ہو تو لم یجدوا الیہ سبیلا یعنی اس طرح ہوہی نہیں سکتا، کیونکہ ان کی تمام حرکات و سکنات ظاہری ہوں یا باطنی نبوت کے نور سے لی ہوئی ہیں اور پورے کرۂ ارض پر نور نبوت کے علاوہ کوئی ایسا نور نہیں جس سے روشنی حاصل کی جاسکے۔“
اولیاء اﷲ کے مقام ومرتبہ کے حوالے سے علمائے کرام نے مذکورہ آیت واحادیث حدیث سے مندرجہ ذیل نکات اخذکئے ہیں۔
جن بندگانِ خداکواﷲ تعالیٰ کی معرفت وقرب اور مقامِ ولایت حاصل ہوتا ہے، انھیں ہر طرح کے رنج وغم سے آزادی کا پروانہ مل جاتا ہے جو کہ دنیاوآخرت میں کامیابی وکامرانی کی بشارت ونویدکی صورت میں ہو تا ہے۔
اﷲ تعالیٰ کے ولیوں سے (بغض وحسدکی بناء پر)عدوات ودشمنی رکھنے والوں سے اﷲ تعالیٰ کا اعلانِ جنگ ہے۔
تقاضائے محبوبیت اورقرب کی بنا پراﷲ تعالیٰ اپنے ولیوں اوردوستوں کو اپنی بعض صفات کا مظہر کامل بنا دیتاہے اور انھیں اپنے رنگ میں رنگ دیتا ہے،تب ہی ان سے کرامات کا ظہور ہوتا ہے ،جس سے مسلمانوں کاایمان ویقین تقویت پاتاہے۔
اولیاء اﷲ جب درجہ قرب اورمحبوبیت پر فائز ہوجاتے ہیں تو اﷲ تعالیٰ ان کے کسی سوال اور دعا کورد نہیں فرماتابلکہ ان کاہرسوال اوردعاکو قبول فرمالیتا ہے۔
قدرت الٰہی ہروقت انھیں اپنے حفظ وامان میں رکھتی ہے۔
اولیاء اﷲ کو بارگاہِ خداوند قدوس میں اتنا قرب حاصل ہو جاتا ہے کہ اﷲ تعالیٰ ان کے کان،ان کی آنکھیں، ان کے ہاتھ اور ان کے پاؤں بن جاتا ہے اور اگر وہ اﷲ کی بارگاہ میں کسی چیز کا سوال کرتے ہیں تو اﷲ تعالیٰ انہیں کبھی مایوس نہیں فرماتا۔
علم و عمل کے فروغ میں صوفیاء کرام کا کردار
صوفی،شیخ اورپیرومرشد کیلئے صاحب ِعلم ہونابہت ضروری ہے اورعلم وعمل دونوں آپس میں لازم وملزوم ہیں۔صوفی(پیرومرشد)کوکتاب وسنت کاعالم وعامل ہونا چاہئے تاکہ وہ شریعت وطریقت کی روشنی میں لوگوں کی صحیح راہنمائی کرسکے کیونکہ علم وعمل کے بغیرشریعت وطریقت کی مسند پر بیٹھنے والا لوگوں کی صحیح رہنمائی نہیں کرسکتا۔ اس لئے صوفیاء کرام نے علم ظاہری وباطنی کے حصول میں اپنی زندگیاں وقف فرمائیں اور ساری زندگی علم وعمل اور شریعت وطریقت پر نہ صرف خودگامزن رہے بلکہ لوگوں کو بھی شریعت و طریقت کاراستہ دکھایااورانھیں سیدھے راستے کی ہدایت فرمائی۔
صوفیاء کرام نے ہردور میں رشدو ہدایت ،شریعت وطریقت اور علم وعرفاں کے وہ چراغ روشن کئے کہ جن کی ضیاء پاشیوں سے اکناف عالم اور قلوبِ بنی آدم روشن سے روشن ترہو گئے اور ہزاروں لوگوں نے ایمان وایقان اورعلم وعرفاں کی لازوال دولت حاصل کی۔ صرف چندمثالیں پیش خدمت کررہاہوں۔
حضرت سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رحمتہ ۱ﷲعلیہ 488 ہجری/ 1095ء میں 18؍ برس کی عمر میں تحصیل علم و معرفت کی غرض سے بغداد شریف میں جلوہ گر ہوئے اور تادمِ وفات یہی شہر آپ کی علمی و روحانی سر گرمیوں کامرکزبنا رہا ۔ آپ نے اپنے وقت کے جید علماء و مشائخ کرام سے علوم ظاہری و باطنی حاصل کئے اورحضرت ابو سعید مبارک مخزومی رحمتہ اﷲ علیہ کے ہاتھ پربیعت کا شرف حاصل کیااور علوم و ظاہری و باطنی کی تکمیل کے بعد اصلا ح و تبلیغ کی طرف متوجہ ہوئے اور مسند شر یعت اور مسند طر یقت دونوں کو بہ یک وقت زینت بخشی اورساری زندگی مخلوقِ خدا کورشدوہدایت کاراستہ دکھاتے رہے۔
سلطان الہندحضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمتہ اﷲ علیہ نے مقتدائے زمانہ ہستیوں سے علومِ دینیہ ( علم قرآن،علم حدیث،علم تفسیر،علم فقہ) کی تعلیم حاصل کی۔ آپ نے علم ظاہری کی تحصیل میں تقریباً چونتیس(34)برس صرف کئے اورعلم معرفت وسلوک کے حصول کے لئے آپ حضرت خواجہ شیخ عثمان ہاروَنی رحمتہ اﷲ علیہ ایسے عظیم المرتبت اورجلیل القدر بزرگ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ کے دست مبارک پرشرف ِبیعت سے فیض یاب ہوئے اورروایات میں آتا ہے کہ اسی سلسلہ رشدوہدایت کو قائم رکھتے ہوئے آپ نے نوے(90) لاکھ غیر مسلموں کو کلمہ طیبہ پڑھا کر اسلام کی دولت سے نوازا۔
روایات میں آتا ہے کہ حضور سیدناشیخ عبدالقادرجیلانی رضی اﷲ عنہ نے چالیس سال تک عشاء کے وضو سے نمازِ فجر ادا کی اور حضورامام اعظم ابوحنیفہ رضی اﷲ عنہ نے بھی چالیس سال تک عشاء کے وضو سے نمازِ فجر ادا کی اورامام اعظم کوقرآن کریم سے اتنی محبت تھی کہ ماہ رمضان المبارک میں۶۱(اکسٹھ)قرآن پاک ختم کرتے۔ ایک قرآن پاک دن میں،ایک قرآن قیام اللیل میں اور ایک قرآن پاک نمازِتراویح میں پڑھتے تھے۔
امام المحدثین امام محمد بن اسماعیل بخاری رضی اﷲ عنہ اپنی مایہ نازتصنیف’’ صحیح بخاری‘‘ میں ایک ایک حدیث کو درج کرتے وقت تازہ غسل فرماتے اور خوشبو لگا کر پھر حدیث شریف لکھتے تھے۔۔۔ اسی طرح امام مالک رضی اﷲ عنہ کودرس حدیث دیتے وقت بچھو نے بارہ مرتبہ ڈسا لیکن آپ نے درس حدیث کو پھر بھی نہیں چھوڑا اور اسی وجہ سے آپ کی موت واقع ہو گئی۔(تذکرۃ المحدثین،فریدبک اسٹال لاہور)
حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمتہ اﷲ علیہ کی حیاتِ مبارکہ قرآن و سنت کا قابل رشک نمونہ تھی ۔آپ کی تمام زندگی تبلیغ اسلام ، عبادت و ریاضت اور سادگی و قناعت سے عبارت تھی۔آپ ہمیشہ دن کو روزہ رکھتے اور رات کو قیام میں گزارتے تھے ۔ آپ مکارمِ اخلاق اور محاسن اخلاق کے عظیم پیکر اوراخلاقِ نبوی ﷺ کے مکمل نمونہ تھے ۔
حضورخواجہ غریب نوازعلیہ الرحمۃ فرماتے ہیں کہ : ’’جب اﷲ تعالیٰ اپنے کسی بندے کو اپنا دوست بناتا ہے تو اس کو اپنی محبت عطا فرماتا ہے اور وہ بندہ اپنے آپ کو ہمہ تن اور ہمہ وقت اس کی رضا وخوشنودی کے لیے وقف کر دیتا ہے تو خداوند قدوس اس کو اپنی طرف کھینچ لیتا ہے، تاکہ وہ اﷲ تعالیٰ کی ذات کا مظہر بن جائے‘‘۔
صوفی کی وجۂ تسمیہ
صوفی کی وجہ تسمیہ میں چند اقوال ہیں
۱۔ صوفی صفا سے مشتق ہے اور صفا سے مراد قلب کی صفائی ہے۔ صوفی کو صوفی اس لیے کہا گیا ہے کہ اس کا قلب باطنی بیماریوں سے صاف ہوتا ہے۔
۲۔ صوفی صف سے مشتق ہے۔ صف سے مراد صف اول ہے۔ چونکہ صوفیاء کرام خدا تعالیٰ کے نزدیک صف اول کے بندے ہیں اس وجہ سے ان کو صوفی کہا جاتا ہے۔
۳۔ صوفی صفہ سے مشتق ہے۔ صفہ سے مراد مسجد نبوی صلّی اللہ علیہ وسلم کا صفہ ہے۔ یہ لفظ اہل صفہ کی طرف منسوب ہے۔ اہل صفہ وہ چند صحابہ کرام تھے جنہوں نے اپنے آپ کو دنیوی معاملات سے علیحدہ کرکے رسول اللہ کی بارگاہ کے لئے وقف کردیا تھا، گویا یہ بارگاہ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے خاص طالب علم تھے۔ یہ لوگ سادہ لباس پہنتے تھے اور غذا بھی سادہ استعمال فرماتے تھے۔ چونکہ صوفیاء کرام کی زندگی میں اصحاب صفہ کی زندگی کی جھلک موجود ہوتی ہے، اس وجہ سے ان کو صوفی کہا جاتا ہے۔
فائدہ: حضرت علامہ ابن تیمیہ علیہ الرحمۃ کی تحقیق کے مطابق یہ آخری وجہ ہی صحیح ہے، کیونکہ اوپر کے اشتقاقوں میں اصولا کچھ صرفی اور نحوی کمزوریاں ہیں۔ لہٰذا آخری وجہ ہی زیادہ معتمد ہے۔
امام الصوفیاء حضرت ابوالحسن سید علی بن عثمان ہجویری رحمہ اللہ تعالیٰ کا سلسلۂ نسب حضرت امام حسن کے توسط سے امام الاولیاء و امیرالمؤمنین حضرت علی رضی اللہ عنہ سے جاملتاہے۔ آپ کاعہد مشہور روایات کے مطابق 400ھ تا 465ھ ہے، آپ کا مزارِ پرانوار 24 گھنٹے مرجعِ خلائق رہتاہے۔ تصوف بنیادی طور پر صفائے قلب اور روح کی جِلا کا نام ہے۔ اسے قرآن وحدیث میں تزکیہ، احسان اور عرفان سے تعبیر کیاگیا ہے۔ حضرت سید علی ہجویری نے صوفیاء کی تین قسمیں بیان کی ہیں: (1)صوفی (2) متصوف(3) مُسْتَصْوِفْ، وہ لکھتے ہیں:
(1) صوفی وہ ہے جو اپنے وجود سے فانی ہوکر حق کے ساتھ باقی ہوگیا ہو، نفسانی خواہشات اور ان کے تصرف سے آزاد ہوکر حقیقت الحقائق یعنی اللہ عزّوجلّ کے ساتھ واصل ہو گیا ہو۔ (2)متصوف وہ ہے جو مجاہدے اور ریاضت کے ذریعے اِس مقام کے حصول کے لئے کوشاں ہے اور راہِ حقیقت کی تلاش میں اپنے آپ کو صوفیاء کے طریقے پر کاربند رکھتا ہے۔ (3) مُسْتَصْوِفْ وہ ہے جو دنیوی منفعت کے حصول اور جاہ و مرتبے کی لالچ میں صوفیا ء کی نقالی کررہا ہو، اسے نہ تو اوپر والے دونوں گروہوں سے کوئی تعلق ہوتاہے اور نہ ہی اسے طریقت کے بارے میں کوئی ادنیٰ سی آگاہی حاصل ہوتی ہے۔ مشایخ کرام نے ایسے لوگوں کے بارے میں فرمایا ہے: ’’مُسْتَصْوِفْ صوفیاء کے نزدیک مکھی کی مانند ہے اور غیر صوفیاء (عوام) کے لئے بھیڑیا ہے‘‘۔ صوفیاءِ کرام مُسْتَصْوِفْ کو مکھی سے اس لئے تشبیہ دیتے ہیں کہ یہ لوگ صوفیاء کی نقّالی ہوا وہوس کی خاطر کرتے ہیں جیسے مکھی کسی چیز پر بھنکتی رہتی ہے اور عوام کے حق میں اس لیے بھیڑیے ہیں کہ بھیڑیے کاکام بھی چیرنا پھاڑنا اور مردار کھانا ہے، یعنی ناجائزطریقے، حیلے اور مکروفریب سے مفادات سمیٹنا ہے۔ الغرض صوفی صاحبِ وصول ہوتا ہے اور متصوف واصل باللہ ہوتاہے اور مُسْتَصْوِفْ صاحبِ فصول یعنی ذاتِ حقِ تعالیٰ اور راہِ حق سے دور ہوتاہے، وہ مزید لکھتے ہیں:
’’صوفیا سے متعلق آج کل یہ مصیبت عام ہوگئی ہے، ملحدین کے ایک گروہ نے جب حقیقی صوفیاکی شان اور قدر ومنزلت دیکھی، تو اپنے آپ کو بھی ان کا ہم شکل بنالیااور کہنا شروع کردیا کہ طاعات وعبادات کی تکلیف اس وقت تک ہے، جب تک معرفت حاصل نہیں ہوجاتی۔ جب معرفت حاصل ہوگئی تو عبادات وطاعات کی تکلیف جسم سے اُٹھ جاتی ہے(یعنی انسان اللہ تعالیٰ اور رسولِ مکرم ا کے احکام اور شریعت کا مکلَّف (جوابدہ) نہیں رہتا)‘‘۔ حقیقی صوفیاءِ کرام کی شکل اختیار کرنے یا حلیہ بنانے یا لبادہ اوڑھنے کا تکلف بھی حضرت داتا صاحب کے عہد یعنی اسلام کی قرونِ اولیٰ اور قرونِ وُسطیٰ کی مجبوری تھی، ورنہ آج کل اس طرح کے کسی تکلف کی بھی قطعًا کوئی حاجت نہیں ہے اور نہ ہی ظاہری اعتبار سے تدیُّن اور تشرُّع کی صورت اختیار کرنے کا تکلف کیا جاتاہے، ہر قسم کا شکار خود ہی شکاری کے جال میں پھنسنے کے لئے بے قرار ہوتاہے۔ علامہ اقبال نے اسی حقیقت کو منظوم انداز میں بیان کیا ہے
خدا وندا تیرے یہ سادہ دل بندے کدھر جائیںکہ درویشی بھی عیاری ہے، سلطانی بھی عیاری حضرت سید علی ہجویری نے بتایا کہ روحانی ارتقاء کی راہ میں دو چیزیں حائل ہوتی ہیں: ایک ’’رَین‘‘ اور دوسری ’’غَین‘‘۔ دراصل قلبی اور روحانی خرابیوں میں ایک تو کفر، شرک اور نفاق ہے اور اس کے سبب انسان کے دل ودماغ پر ہدایت کے انوار وتجلیات کا فیضان مستقل طور پر رک جاتاہے۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں:حجاب کی دو قسمیں ہیں :ایک ’’رینی ‘‘ اور یہ کبھی نہیں اٹھتا، وہ مزید تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں : بعض لوگوں کی ذات خود حق سے حجاب کا سبب ہوتی ہے، یہاں تک کہ ان کے نزدیک حق اور باطل یکساں ہوجاتاہے۔ اسی حجاب کو ’’رَین‘‘ کہتے ہیں اور اسے قرآن مجید میں ختم، طبع، اِغفال، اَکِنّہ اور قَساوت سے تعبیر کیا ہے، چنانچہ اللہ کا ارشاد ہے:’’ہر گز نہیں، بلکہ ان کے کرتوتوں نے ان کے دلوں پر زنگ چڑھادیا ہے، (المطففین :14)‘‘۔ یہ لوگ ناقابلِ اصلاح ہوتے ہیں اور ہدایت سے ہمیشہ محروم رہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’اور اُنہوں (کافروں) نے کہا:جس دین کی طرف آپ ہمیں بلا رہے ہیں، اُس کی (قبولیت کی) راہ میں ہمارے دلوں پر پردے چڑھے ہوئے ہیں اور ہمارے کانوں میں ڈاٹ ہے اور ہمارے اور آپ کے درمیان حجاب ہے، (حم ٓ السجدہ:05)‘‘۔
دوسری قسم کے حجاب کو ’’ غین ‘‘کہتے ہیں۔
یہ انسان کے دل میں حرص وطمع، بُخل، ہواوہوس، حسد، کِبَرونَخوت، ریااور دیگر اَخلاقی اَمراض ہوتے ہیں، جن کے سبب انسان کے دل پر پردہ پڑ جاتاہے، مگر یہ حجاب عارضی ہوتاہے اور توبہ واستغفار سے زائل ہوجاتاہے۔ رسول اللہ ا کا ارشاد ہے:’’میرے دل پر کبھی (انوار کے غلبے سے )اَبَر چھا جاتاہے اور میں اللہ تعالیٰ سے ایک دن میں سو مرتبہ استغفار کرتا ہوں، (صحیح مسلم: 42)‘‘۔ بعض شارحین نے لکھا ہے : اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں سید المرسلین ا کے مقاماتِ عالیہ کے ارتقا کا سفر جاری رہتا ہے اور جب وہ اپنے اگلے مقامِ رفیع سے پلٹ کر پیچھے کی طرف دیکھتے ہیں، تو ایک غُبار سا چھا جاتا ہے اور مقامِ نبوت کے حوالے سے اسی کو ’’غین‘‘ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ وہ مزید لکھتے ہیں:’’رَین‘‘ کی مثال وطن کی سی ہے، جو مستقل ہوتاہے اور ’’غین‘‘ سے وہ خیالات وخطرات ہیں، جو دل پر طاری ہوتے ہیں اور کبھی دل میں جگہ بھی پالیتے ہیں، لیکن توبہ و استغفار سے ان کے اثرات مٹ جاتے ہیں۔
حدیثِ پاک میں مرتبۂ احسان کو ان کلمات میں بیان فرمایا گیا ہے:’’(احسان یہ ہے کہ) تم اللہ کی عبادت اس قدر حضوریِ قَلب سے کرو کہ گویا تم اللہ عزّوجلّ کو دیکھ رہے اور اگر تم (اپنی بشری نارسائی کے سبب) اسے نہیں دیکھ پاتے، تو وہ یقیناًتمہیں دیکھ رہا ہے، (صحیح بخاری:50)‘‘۔ چنانچہ حضرت سید علی ہجویری اسی مقامِ احسان کو مزید وضاحت کے ساتھ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’میں نے حاتمِ اَصمّ رحمۃ اللہ علیہ سے پوچھا : آپ نماز کس طرح ادافرماتے ہیں ؟، انہوں نے جواب دیا: جب نماز کا وقت آتا ہے، توپانی سے ظاہری وضو کرتا ہوں (یعنی اس سے اعضاءِ وضو کی پاکیزگی حاصل کرتا ہوں) اور توبہ کے ذریعے باطنی وضو کرتاہوں، یعنی توبہ سے قلب وروح کی طہارت حاصل ہوتی ہے۔ مسجد میں نماز پڑھتے وقت خانۂ کعبہ کو اپنے سامنے، مقامِ ابراہیم کو دونوں ابروں کے درمیان، بہشت کو دائیں، دوزخ کو بائیں، پلِ صراط کو قدموں کے نیچے اور فرشتۂ موت کو اپنے پیچھے تصور کرتاہوں۔ اس کے بعد اللہ کی عظمت وجلالت کو اپنے ظاہروباطن پر طاری کرکے اللہ اکبر کہتا ہوں، اعزازووقار کے ساتھ قیام کرتا ہوں، قرا ء ت کے وقت اللہ کی ہیبت دل پر طاری رہتی ہے، تواضع اور انکسار کے ساتھ رکوع اور اَزحد تضرُّع اور عاجزی کے ساتھ سجدہ کرتاہوں، حِلم ووقار کے ساتھ قعدہ کرکے شکر کے ساتھ سلام پھیرتاہوں‘‘۔
جنت کو دائیں اور دوزخ کو بائیں رکھنے کی حقیقت کو اس قول میں بیان کیا گیا ہے :’’ایمان خوف ورجا کے درمیان ہے‘‘، یعنی حقیقتِ ایمان اور کمالِ ایمان یہ ہے کہ انسان کے دل پر خشیت وہیبتِ الٰہی بھی طاری ہو اور اللہ تعالیٰ کی رحمت اور عفو ومغفرت پر اس کا یقین بھی مرتبۂ کمال پر ہو، اسی کو وعظ وتذکیر کے عنوان پرمجموعۂ احادیث میں ترغیب وترہیب اور رغبت ورہبت سے تعبیر کیا گیا ہے۔ فرشتۂ اَجل کو پیچھے تصور کرنے کا مطلب یہ ہے کہ بندۂ مومن کو ہر آن موت کے لئے تیار رہنا چاہئے اور پل صراط کو سامنے رکھنے کا مطلب یہ ہے کہ شریعت کے جادۂ مستقیم پر ایک ایک قدم ہزار بار سوچ سمجھ کر اٹھانا چاہئے، ورنہ ذرا سی بے احتیاطی اور لغزش سے انسان گہرے ظلمت کدے میں گر سکتا ہے یا جہنم کا ایندھن بن سکتاہے، اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس سے اپنی پناہ عطا فرمائے۔
اسلامی انسائیکلوپیڈیا میں بحوالہ رسالہ قشیریہ مذکور ہے کہ صوفی کی وجہ تسمیہ میں کوئی ایک پہلو ملحوظ نہیں بلکہ وہ تمام پہلو ملحوظ ہیں جن کی طرف اس لفظ سے اشارہ ملتا ہے۔ اگر اس لفظ کا صرف ایک پہلو ملحوظ رہتا تو صوفیاء کرام اس لفظ کو اپنے لئے مخصوص نہ بناتے، بلکہ صوفی کا لفظ ان تمام حالات کی طرف اشارہ کرتا ہے جو صوفی کے لفظ یا مناسبت سے ہیں۔ مثلا قلب کی صفائی اور پاکیزگی کی طرف، صفو برگزیدہ انسانوں کی طرف، صفی خالص دوست کی طرف۔ مصطفیٰ کا مادہ بھی صفو ہے۔ واللہ اعلم بالصواب